محمد زبیر خان
ساہیوال فائرنگ واقعہ میں سی ٹی ڈی کی ٹیم نے انتہائی درجے کے غیر پیشہ وارانہ رویے کا مظاہرہ کیا تھا۔ ذرائع کے مطابق مشتبہ مقابلے کے بعد لاشوں اور کرائم سین کو عوام کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا بہت بڑا سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ سیکورٹی اہلکار کبھی اس طرح نہیں کرتے۔ پنجاب فارنسک لیبارٹری کو کرائم سین سے ضروری اشیا، آپریشن میں استعمال ہونے والا اسلحہ اور کارروائی میں شریک اہلکاروں کی انگلیوں کے نشان بھی نہیں پہنچائے گئے، جس کی وجہ سے تفتیش ایک ماہ میں بھی مکمل نہیں ہو سکتی۔ دوسری جانب سانحہ میں جاں بحق ہونے والے خلیل کے بھائی جلیل نے پولیس کی جانب سے فون پر دھمکیاں ملنے کے بعد خبردار کیا ہے کہ انہیں یا ان کے خاندان کے کسی فرد کو کوئی نقصان پہنچنے کی صورت میں ذمہ دار سی ٹی ڈی اہلکار ہوں گے۔
’’امت‘‘ کو محکمہ داخلہ پنجاب میں موجود ذرائع نے بتایا ہے کہ محکمہ داخلہ، تفتیش کار اور جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے ارکان 19 جنوری کو ساہیوال میں کئے جانے والے آپریشن پر حیران و پریشان ہیں کہ یہ کس قسم کا آپریشن تھا، جس میں آپریشن کرنے والی سی ٹی ڈی کی ٹیم نے مقابلے کے بعدکرائم سین کو محفوظ نہیں کیا اور اہلکار جائے وقوعہ سے چلے گئے تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کسی بھی سیکورٹی فورس کے پروفیشنل اہلکار کہیں آپریشن کرتے ہیں یا دہشت گردوں سے مقابلہ کرتے ہیں تو کارروائی کے بعد کسی صورت بھی جائے وقوعہ کو اس حال میں نہیں چھوڑتے کہ عوام کرائم سین کو خراب کر دیں۔ آپریشن میں شریک اہلکار اس وقت تک موجود رہتے ہیں، جب تک کہ جائے وقوعہ کو سیل نہ کر دیا جائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جائے وقوعہ پر موجود تمام اشیا کو محفوظ کرنا لازم ہوتا ہے۔ جبکہ سی ٹی ڈی پنجاب کے اہلکار انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے موقع سے چلے گئے اور لاشوں اور جائے وقوعہ کو عوام کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا، جنہوں نے وہاں تصاویر اور ویڈیوز بنائیں اور جائے وقوعہ پر موجود ثبوتوں کو بھی ضائع کر دیا۔ ذرائع کے بقول اس طرح کے کسی مقابلے کی رپورٹ تیار کرنا اور پھر اس کو عدالت میں ثبوتوں کے ساتھ پیش کرکے یہ ثابت کرنا لازم ہوتا ہے کہ یہ ایک مقابلہ تھا۔ ایسے کیسز میں جائے وقوعہ کا نقشہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ لیکن ساہیوال فائرنگ کیس میں اہلکاروں کا جائے وقوعہ کو اس طرح چھوڑ کر جانا حیرت انگیز ہے، جس پر بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔
دوسری جانب پنجاب فارنسک لیبارٹری کے بار بار مطالبے کے باوجود لیبارٹری کو مکمل تجزیے کے لیے جائے وقوعہ سے جمع کی گئی تمام اشیا فراہم نہیں کی جارہی ہیں۔ ذرائع کے مطابق اگر لیبارٹری کو درکار اشیا فراہم نہ کی گئیں تو لیبارٹری کی جانب سے حتمی رپورٹ ملنا ممکن نہیں رہے گا۔
’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے پنجاب فارنسک لیبارٹری کے ڈائریکٹر جنرل محمد اشرف طاہر کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں اب تک صرف دو چیزیں موصول ہوئی ہیں۔ ایک مقتولین کی کار جس میں وہ سوار تھے، اور دوسری چیز 60 استعمال شدہ گولیوں کے خول ہیں‘‘۔ انہوں نے بتایا کہ لیبارٹری کو وہ بندوقین درکار ہیں جو آپریشن میں استعمال کی گئیں۔ اسی طرح سی ٹی ڈی کے جن اہلکاروں نے مقابلے میں حصہ لیا، ان کی انگلیوں کے نشانات بھی چاہئیں۔ مقابلے میں مارے گئے افراد کی پوسٹ مارٹم رپورٹ، لاشوں سے حاصل کردہ نمونے، جائے وقوعہ سے اکٹھے کیے گئے انگلیوں کے نشانات اور ہلاک شدگان کے خود آلود لباس بھی پنجاب فرانزک لیبارٹری کو نہیں دیئے گئے ہیں۔ لیبارٹری کے ڈائریکٹر جنرل محمد اشرف طاہر کا کہنا تھا کہ ان تمام اشیا کے بغیر حتمی رپورت تیار نہیں کی جاسکتی ہے۔ لیبارٹری کے ماہرین اپنی رپورٹ مرتب کرنے کیلئے شواہد کے منتظر تھے، جس کے لیے ایک ہفتے تک انتظار کرنے کے بعد فارنسک لیبارٹری کی جانب سے پنجاب پولیس کو خط لکھا گیا ہے کہ تمام مطلوبہ اشیا اور متعلقہ ریکارڈ فراہم کیا جائے تاکہ تفتیشی عمل کو تیز کیا جاسکے۔
ادھر پیر کے روز سانحہ ساہیوال میں اس وقت ڈرامائی صورتحال پیدا ہوئی، جب مقتول خلیل کے بھائی جلیل نے الزام عائد کیا کہ ان کو دھمکی آمیز فون کال آرہی ہیں۔ اگر انہیں یا ان کے خاندان کے کسی فرد کو کوئی نقصان پہنچا تو ذمہ دار سی ٹی ڈی پنجاب ہوگی۔ اس حوالے سے ان کے وکیل شہباز بخاری ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جب مقتول خلیل کی فیملی کی طرف سے یہ اطلاعات منظر عام پر لائی گئیں کہ انہیں پولیس کی جانب سے دھمکیاں دی جارہی ہیں، تو جے آئی ٹی کے سربراہ نے کال کرنے والے افسر کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت خلیل کی فیملی کو تحفظ فراہم نہیں کرتی تو عدالت سے رجوع کریں گے۔