امت رپورٹ
کراچی کے تاجر رہنماؤں نے وزیر بلدیات سعید غنی اور میئر کراچی وسیم کی دوہری پالیسی کے خلاف اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا۔ تاجر رہنمائوں کا کہنا ہے کہ ایمپریس مارکیٹ آپریشن سے متاثر سینکڑوں تاجروں کو اب تک متبادل جگہ نہیں دی گئی ہے، جس کی وجہ سے دکاندار سڑکوں پر آگئے۔ دوسری جانب شادی ہالز مالکان کے احتجاج پر ان کیخلاف آپریشن روک دیا گیا۔ایمپریس مارکیٹ کے تاجر رہنما اقبال کاکڑ کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ساڑے 3 ماہ قبل ایمپریس مارکیٹ کے تاجر آپریشن کے دوران چیختے چلاتے رہے کہ قانونی دکانیں نہ مسمار کرو۔ ہمارے گھروں پر فاقے ہوں گے۔ لیکن ان تاجروں کو ڈنڈے مارے گئے اور لالی پاپ دیاگیا کہ جو تعاون کرے گا، اس کو متبادل جگہ ملے گی۔ ساڑے تین ماہ ہوگئے، لیکن ایک متبادل دکان کا بھی اعلان نہیں ہوا۔ تاجروں کے گھروں پر فاقے ہورہے ہیں۔ کاروبار تباہ ہوا، مقروض الگ ہوئے‘‘۔
تاجر رہنمائوں کا کہنا ہے کہ کراچی کے تاجروں کو میئر کراچی اور وزیر بلدیات نے برباد کر دیا۔ متبادل جگہ دینے میں ٹال مٹول کی جا رہی ہے۔ ایمپریس مارکیٹ میں 65 سال سے کاروبار کرنے والوں کو لیاری کی کھڈا مارکیٹ میں جگہ دینے کا کہا جاتا رہا۔ شہری جانتے ہیں کہ لیاری میں نقص امن کا مسئلہ رہتا ہے۔ وہاں تاجر کیا کاروبار کریں گے۔ وہ میئر کراچی اور صوبائی وزیر بلدیات سے پوچھتے ہیں کہ دوہرا معیاد کیوں اپنایا جا رہا ہے۔ تاجر برادری میں غریب زیادہ تھے۔ جبکہ شادی ہالز اور بلڈنگوں کے کاموں میں سرمایہ دار شامل ہیں۔ ان کیلئے میئر اور وزیر بلدیات کوشش کر رہے ہیں، لیکن تاجر برادری کی بات نہیں سنی گئی۔ بلکہ تاجر برادری کی جان اب بھی سولی پر لٹکی ہے کہ لی مارکیٹ، اردو بازار، بہادر شاہ مارکیٹ، جوبلی، مچھی میانی، اورنگزیب مارکیٹ سمیت دیگر مارکیٹ کے تاجروں کو کہا گیا ہے کہ آپریشن ہر صورت ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ تاجروں کو متبادل جگہ دیں۔ پیپلز پارٹی غریبوں کی جماعت ہے اور چھوٹے تاجروں کے گھروں پر فاقے ہورہے ہیں۔ زیادہ توجہ چائنا کٹنگ پر لگانی چاہیئے لیکن متحدہ دور میں کی گئی تعمیرات کو چھیڑا نہیں جارہا ہے۔ میئر کراچی اس حوالے سے ضرور سوچیں۔
کراچی تاجر اتحاد کے سینئر رہنما عتیق میر کا کہنا تھا کہ کراچی کے تاجروں میں مایوسی پھیل رہی ہے کہ ان کے خلاف جاری آپریشن کا کس کو غم نہیں ہے۔ متاثرین کو متبادل جگہ دینے کا معاملہ بھی مسلسل تاخیر کا شکار ہو رہا ہے۔ اب تک ایک متبادل دکان بھی کسی تاجر کے حوالے نہیں کی گئی۔ میئر کراچی اور صوبائی وزیر بلدیات سمیت سندھ حکومت تین روز قبل سپریم کورٹ کے احکامات پر شادی ہالز اور بلڈنگوں کو ملنے والے نوٹس کے بعد تڑپ اٹھی تھی کہ معاملہ بڑے سرمایہ داروں کا تھا۔ کاش جب غریب تاجر کی دکان گرائی جارہی تھی، اس دوران بھی ترس کھایا جاتا۔ اس دوہرے معیار کی وجہ سے تاجر برادری خاصی مایوس ہوئی ہے۔ مارکیٹوں کے پرانے تاجر دکانیں گرنے پر فاقوں کا شکار ہیں۔ گھر اور زیورات فروخت کئے جارہے ہیں۔ آپریشن میں 5 ہزار قانونی دکانیں بھی گرائی گئیں۔ ان میں سے کسی کو متبادل جگہ اب تک نہیں ملی ہے۔ روزانہ لالی پاپ دیئے جارہے ہیں کہ قانونی کام جاری ہے۔ کے ایم سی، کے ڈی اے، سندھ حکومت، کمشنر کراچی اور دیگر حکام میٹنگ کررہے ہیں۔ چڑیا گھر کے اطراف، آرام باغ، ایمپریس مارکیٹ، لائٹ ہاؤس، جامع کلاتھ اور اولڈ سٹی ایریا کے دکاندار کاروبار شروع کریں تو کہاں کریں؟ دوسری جانب جو مارکیٹیں تاحال آپریشن کے نشانے پر ہیں، ان میں لی مارکیٹ سمیت 7 مارکٹیں شامل ہیں۔ اسی طرح کے ایم سی کی 9 مارکیٹوں کی 5 ہزار دکانیں گرائی گئیں، باقی 10 ہزار سے زائد گرائی جائیں گی۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ متاثرین کوجلداز جلد متبادل جگہ دیں اور دیگر جگہوں پر آپریشن سے قبل پہلے ہی متبادل جگہ دیں۔ ورنہ اب تاجر برداشت نہیں کریں گے کہ ان کے ساتھ مزید زیادتی ہو۔ شادی ہالز اور ہائی رائز عمارتوں پر بات آنے سے میئر کراچی اور صوبائی وزیر بلدیات پریشان ہورہے ہیں۔ کاش تاجروں کو برباد کرتے ہوئے بھی اس طرح کی صورتحال ہوتی۔ آج شہر کے تجارتی مرکز کھنڈر بنتے جارہے ہیں۔ لائٹ ہاؤس اور دیگر جگہوں پر اب بھی ملبہ موجود ہے۔
لی مارکیٹ کے تاجر رہنما محمد شاہ کا کہنا تھا کہ اب معاملہ سرمایہ داروں کا آیا تو میئر کراچی اور صوبائی وزیر بلدیات کو ترس آرہا ہے۔ خود سپریم کورٹ جاکر اپیل لگانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ کراچی معاشی حب ہے اور تاجر برادری ٹیکس دیتی ہے۔ لاکھوں افراد کو بے روزگار کر دیا گیا۔ تاجر برادری پریشان ہے کہ متبادل جگہ دینے کا وعدہ پورا نہیں کیا جا رہا ہے۔ لی مارکیٹ والوں کو اب 12 فروری کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ تاجروں کو پہلے متبادل جگہ دی جائے، اس کے بعد آپریشن کیا جائے۔ ٭