نذر الاسلام چودھری
مصر کینیا، تنزانیہ اور برکینا فاسو سمیت متعدد افریقی ممالک سے گدھوں کی آبادی کم کرکے اب چینی کمپنیاں آسٹریلیا، برازیل اور پاکستان سے سالانہ لاکھوں گدھوں کی امپورٹ کے معاہدے کر رہی ہیں۔ پاکستان کے صوبہ خیبر پختون کی حکومت اور چینی کمپنیوں کے درمیان ایک معاہدہ کئے جانے کی اطلاعات ہیں۔ جس کے تحت ابتدائی طور پر پاکستان سے 80 ہزار سے زائد گدھے چین بھیجے جائیں گے۔ اس آرڈر کی تکمیل کیلئے کرک، بنوں، نوشہرہ اور پشاور سمیت دیگر اضلاع میں گدھوں کی افزائش کیلئے فارم ہائوس بنائے جارہے ہیں۔ خیبرپختون حکومت کے تحت ’’ڈنکی ڈیولپمنٹ پروگرام‘‘ کی ابتدائی مالیت ایک کروڑ ڈالرز بتائی جاتی ہے۔ عالمی میڈیا کے مطابق چین نے پاکستان سے گدھوں کی برآمد کا معاہدہ اس لئے بھی کیا ہے کہ یہاں 53 لاکھ سے زیادہ گدھے موجود ہیں اور فارم ہائوسز بننے کی صورت میں چین کو سالانہ ایک لاکھ گدھے ایکسپورٹ کئے جاسکیں گے۔ ادھر اے بی سی نیوز آسٹریلیا نے بھی ایک رپورٹ میں تصدیق کی ہے کہ چینی کمپنیوں نے آسٹریلیا سے سالانہ ہزاروں گدھوں کی برآمد کیلئے معاہدے کئے ہیں۔ آسٹریلوی صحافی، میٹ برائن نے بتایا ہے کہ متعدد چینی انویسٹرز اور کمپنیوں نے شمالی آسٹریلیا میں واقع کڈمین اسرنگ ریسرچ سینٹر کا دورہ کیا ہے اور یہاں گدھوں کی تجارتی پیمانے پر افزائش کیلئے انوسٹمنٹ کی پیشکش کی ہے۔ اس سینٹر میں سائنٹیفک بنیادوں پر ہزاروں گدھوں کی افزائش کے بعد چین بھیجا جائے گا، جہاں گدھوں کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ گدھے کی کھال میں جیلاٹن کا خزانہ ہوتا ہے، جس کو پروسس کرکے نکالا جاتا ہے۔ چین سمیت تائیوان، ملائیشیا، تھائی لینڈ، جاپان، ویتنام، لائوس اور میانمار میں چین کی تیار کردہ جیلاٹن کی جوہر دوا ’’ای جیائو‘‘ کی بہت زیاہ مانگ ہے، جو بقول چینی حکیموں کے ڈپریشن سمیت متعدد امراض کا شافی علاج ہے۔ اسی وجہ سے چین دنیا بھر میں گدھوں کے فارم ہائوس بنانا چاہتا ہے تاکہ جیلاٹن کی تیاری کیلئے گدھوں کی سپلائی میں تیزی آئے۔ گدھوں کی افزائش اور سپلائی پر نظر رکھنے والی برطانوی تنظیم ’’ڈنکی سینک چری‘‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ ہر سال اٹھارہ لاکھ گدھوں کی کھالیں پروسس کرکے چین بھیجی جارہی ہیں، جس سے دنیا بھر میں گدھوں کی آبادی کم ہورہی ہے۔ خود چین میں 2000 ء میں 30 لاکھ گدھے موجود تھے، لیکن اب صرف 11 لاکھ گدھے باقی بچے ہیں جس کی وجہ سے چینی کمپنیوں اور اداروں نے دنیا بھر سے گدھوں کی درآمد شروع کردی ہے۔ کیونکہ گدھے کی کھال سے حاصل کئے جانے والے جیلاٹن کی فی کلو قیمت 500 ڈالرز سے زیادہ ہے۔ دوسری جانب چین میں گدھے کا گوشت بھی رغبت سے کھایا جاتا ہے۔ مصری جریدے، الیوم السابع نے بتایا ہے کہ چند برس قبل چینی کمپنیوں نے مصر سے گدھوںکی برآمد کیلئے متعلقہ حکام اور مڈل مین سے معاہدے کئے تھے اور سالانہ ہزاروں گدھے چین بھیجے گئے تھے، جس کی وجہ سے مصر میں گدھوںکی افزائش میں کمی آچکی ہے اور مصری حکا م نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ جس رفتار سے گدھوںکو چین بھیجا رہا ہے، خدشہ ہے کہ ایک ڈیڑھ برس میں مصر میں گدھے ناپید ہوجائیں گے۔ اس وقت مصری کسانوں کا ماننا ہے کہ گدھے کی قیمت آسمان سے باتیں کررہی ہے۔ مصری میں گدھوں کی آبادی میں شدید کمی پر، مڈل ایسٹ مانیٹر نے بتایا ہے کہ مصر میں 2010ء میں کی گئی گدھا شماری میں بتایا گیا تھا کہ ملک میں 32 لاکھ سے زائد گدھے موجود ہیں۔ لیکن گدھوں کی چین ایکسپورٹ کے بعد 2018ء کی گدھا شماری میں انکشاف ہوا کہ اب صرف 16 لاکھ گدھے بچے ہیں۔ اب مصری حکومت گدھوں کے تحفظ کیلئے کمربستہ ہوچکی ہے اور چینی کمپنیوں کو کہہ دیا گیا ہے کہ مصر کے بجائے کسی اور ملک سے گدھوں کی خریدوفروخت کی جائے۔ چینی میڈیا کے مطابق چینی عوام گدھے کا گوشت شوق سے کھاتے ہیں اور چینی تاجر اس کی کھال مقامی ادویہ ساز کمپنیوں کو مہنگے داموں فروخت کردیتے ہیں۔ جہاں اس سے جیلاٹن تیار کیا جاتا ہے۔ اس جیلاٹن کو قدیم علم الادویہ کے تحت خاص قسم کی چینی ادویات میں ڈالا جاتا ہے جس کو مقامی زبان میں ’’ای جیائو ‘‘ کہتے ہیں۔ اس دوا سے بلڈ پریشر کو درست کرنے اور جسم میں شریانوں اور وریدوں میں خون کے جریان کو بہتر بنانے کا کام لیا جاتا ہے۔ نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افریقہ میں چینی کمپنیوں کی جانب سے گدھوں کی خریداری کے اثرات چوری چکاری کی شکل میں بھی نکلے تھے اور ہزاروں افریقی گدھا مالکان نے حکومت کو شکایا ت کی تھیں کہ ان کے قیمتی گدھے چوری کرلئے گئے ہیں۔ افریقی خبر رساں ادارے آل افریقا نے بتایا ہے کہ دو برسوں میں متعدد افریقی خطوں سے چین کو اس قدر بڑی تعداد میں گدھے بھیجے جاچکے ہیں کہ یہاں گدھوں کی قیمتیں انتہائی بلند ہوچکی ہیں اور گدھا قیمتی جانور بن چکا ہے ۔ آل افریقا ڈاٹ کام کے مطابق زمبابوے سمیت یوگینڈا، سینیگال ،کینیا، برکینا فاسو، چاڈ، تنزانیہ، بوٹسوانا، نائیجر، نائیجیریا، مالی اور دیگر ملحق افریقی ریاستوں کی حکومتوں نے گدھوں کی چین کو سپلائی پر قانونی پابندی عائد کردی ہے۔ یہی وجوہات ہیں کہ اب چینی اداروں اور کمپنیوں نے پاکستان، آسٹریلیا، آئیوری کوسٹ، بھارت، ایتھوپیا اور برازیل سمیت متعدد ممالک سے نئے معاہدے کرنے کا اشارہ دیا ہے تاکہ ہر سال چین کو گدھوں کی سپلائی میں کوئی تعطل نہ آئے۔ واضح رہے کہ امریکہ میں مقیم چینی صحافی کی نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چینی حکومت نے 2018ء میں گدھوں کی کھال، گوشت، جیلاٹن اور ای جیائو کی تیاری اور فروخت پر ٹیکسوں میں نمایاں کمی کردی ہے جس کی وجہ سے چینی کمپنیاں اور ادارے دنیا بھر سے گدھے درآمدکررہے ہیں۔