اسلام آباد(نمائندہ خصوصی/ مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ میں بریت کیخلاف نظرثانی اپیل مسترد ہونے کے بعد آسیہ مسیح کے بیرون ملک جانے کی تیاریاں مکمل کر لی گئیں۔ملعونہ کے وکیل سیف الملوک نے منتقلی کے منصوبے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ آسیہ ملک چھوڑ دے گی جبکہ میں پاکستان میں ہی رہوں گا۔ فیصلے کے بعد سیف الملوک کواضافی سیکورٹی فراہم کردی گئی۔ گزشتہ روزسماعت کے موقع پرسخت حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے۔ اپیل مسترد کئے جانے کی خبرکوغیر ملکی میڈیانے بریکنگ نیوزکے طورپر نشرکیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کیا اسلام کہتا ہے کہ جرم ثابت نہ ہونے پرسزا دی جائے۔ کیس میں اتنے سچے گواہ نہیں تھے جتنے ہونے چاہئیں تھے۔ تفتیشی افسر اور گواہان کے بیان میں فرق ہے۔ تفصیلات کے مطابق منگل کوچیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے توہین رسالت کیس میں آسیہ مسیح کی بریت کے خلاف نظر ثانی اپیل کی سماعت کی۔درخواست گزار قاری محمدسلام کے وکیل غلام مصطفٰی نے دلائل میں کہا کہ یہ حساس اور قومی اہمیت کا معاملہ ہے، نظرثانی درخواست کی سماعت کے لیے لارجر بینچ بنایا جائے۔ بینچ میں اسلامی اسکالرز اور علما کرام کو شامل کیا جائے،چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ مذہب کا معاملہ کیسے ہوا ۔کیا فیصلہ میرٹ پر نہیں ہوا، فیصلہ شہادتوں پر ہوا ہے، کیا اسلام یہ کہتا ہے کہ جرم ثابت نہ ہو تو پھر بھی سزا دے دیں۔ ثابت کریں کہ فیصلے میں کیا غلطی ہے۔ اس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ فیصلے میں کہا گیا کہ بار ثبوت مدعی پر ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ اس اصول سے اختلاف کرتے ہیں۔اسلامی معاشرے کی خوبصورتی یہی ہے کہ اقلیتوں کا خیال رکھا جائے بتائیں کہ کہاں گواہوں کے بیانات کو ٹھیک نہیں پڑھا گیا۔اس کے بعد وہ سب باتیں آئیں گی کہ اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے، اسلام کہتا ہے کہ سچی گواہی دو چاہے اپنے عزیز و اقارب کے خلاف بھی ہو، اگر ہم نے شہادتیں ٹھیک نہیں پڑھیں تو فوراً درست کریں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ آسیہ 25 لوگوں کو مخاطب کرکے کہہ رہی تھی، کیا وہ کسی جلسے سے خطاب کر رہی تھی ، تفتیشی افسر کے سامنے خواتین گواہان نے کہا کہ ان کے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ہوا تھا، اس کیس میں اتنے سچے گواہ نہیں تھے ،جتنے ہونے چاہئیں تھے، تفتیشی افسر کہتا ہے کہ خواتین گواہان نے بیان بدلے،تفتیشی افسر اور گواہان کے بیان میں فرق ہے، فالسہ کھیت کا مالک عدالت میں بیان کے لیے آیا ہی نہیں، قانون کہتا ہے کہ 342 کا بیان نہیں ریکارڈ کرایا تو بیان کی کوئی حیثیت نہیں،ایس پی نے جب تفتیش شروع کی تو تب فالسہ کھیت کا مالک آیا۔ تفتیش کے 20 دن بعد یہ میدان میں آیا، اس کے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قاری صاحب کہتے ہیں کہ 5 دن غور کرتے رہے، فوجداری قانون میں ایک گھنٹے کی تاخیر سے شکوک و شبہات شروع ہوجاتے ہیں، جن خواتین نے ابتدائی الزام لگایا وہ قاری صاحب کی بیگم سے قران پڑھتی ہیں،قاری سلام کے بیان کے مطابق گاوٴں والے اکٹھے ہوئے پھر ایف آئی آر درج ہوئی، گواہوں کے بیانات میں کہیں مجمع اکھٹا ہونے کا ذکر نہیں ،مجمع اکھٹا ہونے کے بارے میں بہت زیادہ جھوٹ بولا گیا، چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہتے ہیں قابل اعتبار گواہ تھے ان کے بیانات پر پھانسی لگا دینی چاہیئے، گواہوں کے بیانات کی حیثیت بھی تو دیکھیں، جھوٹی شہادت پر کہتے ہیں کسی کو پھانسی لگا دیں قاری سلام نے حلف پر جو بیان دیا وہ پہلے بیان سے مختلف تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا مدعی ہے جس کو یہ نہیں پتہ کہ اس کی درخواست کس نے لکھی، قاری صاحب کو تو براہ راست بچیوں نے نہیں بتایا ہوگا،پھر ان کو کیسے پتا چلا کہ یہ الفاظ کہے گئے، کیا اسلام کی یہ تصویر پیش کر رہے ہیں،کیا اس طرح کے گواہ ہوتے ہیں، سب گواہان کے بیانات میں واضح تضادات ہیں اور آپ سارا پاکستان بلاک کر دیتے ہیں کہ ہماری بات کیوں نہیں مانی گئی، الزام لگاتے ہیں کہ ایسے لوگ ہیں کہ بری کردیا، اپنے گریبان میں بھی تو جھانکیں کیس کیا بنایا ہے، مقدمے کی حساسیت کا خیال کیا، ورنہ جھوٹی گواہی پر گواہوں کو اندر کرتے، اگر انصاف کردیا تو کیا ہم واجب القتل ہوگئے کیا یہ ہے اسلام۔ ایف آئی آرمیں عوامی اجتماع کا کوئی ذکرنہیں کیا گیا، ایف آئی آرعوامی اجتماع کے تین گھنٹے بعد درج ہوئی، کوئی اورکیس ہوتا تو گواہان کیخلاف مقدمہ درج کرواتے، کوئی کہتا رہا اجتماع میں 100 لوگ تھے کسی نے کہا 2000 لوگ تھے، کیا ایسے گواہان کی شہادت پر کسی کو پھانسی لگا دیں۔جسٹس فائزعیسی نے ریمارکس دیئے کہ اتنا جھوٹ ؟ گواہان کے بیان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حلف پر گواہان نے جھوٹ بولا، تمام گواہان نے ایک دوسرے کو جھوٹا کیا، گواہ سچے ہوتے تو فوجداری نظام میں مسائل ہی نہ ہوتے، قاری صاحب نے سچ بولنا ہوتا تو درخواست خود لکھ دیتے، مدعی نے نہ خود کچھ سنا نہ دیکھا، مدعی کونہ درخواست لکھنے والے کا علم ہے نہ دینے کی جگہ کا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جو قاضی کہے کہ یہ شہادت قابل اعتبار نہیں تو اس قاضی کا فیصلہ آپ کو منظور نہیں، کیوں کہ فیصلہ آپ کی مرضی کا نہیں،ہم کیس کی دوبارہ سماعت نہیں کر رہے، ان کی تسلی کے لیے سن رہے ہیں جنہوں نے بغیر پڑھے فتوے جاری کیے، چیف جسٹس نے قاری سلام کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ فیصلے میں ایک بھی غلطی نہیں بتاسکے، آپ کو فیصلے میں عام باتوں پر اعتراض ہے فیصلے پر نہیں، یہ بتائیے جھوٹے گواہان کے خلاف کیا کرنا چاہیے۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون کے مطابق سمری ٹرائل کے ذریعے عمر قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے، ایسے کیس میں جھوٹی گواہی دی جس میں سزائے موت ہو سکتی ہے جبکہ سزائے موت ہوئی بھی ہے۔سپریم کورٹ نے آسیہ کی بریت کے خلاف نظر ثانی اپیل میرٹ پر نہ ہونے کے باعث خارج کر دی۔ واضح رہے کہ 24 جنوری 2019 کو سپریم کورٹ نے توہین مذہب کیس میں آسیہ کی بریت کے خلاف دائر نظرثانی اپیل سماعت کے لیے مقرر کی تھی۔اس سے قبل سپریم کورٹ نے 31 اکتوبر 2018 کو فیصلہ سناتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو منسوخ کردیا تھا اور آسیہ کو بری کردیا تھا۔اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے فیصلے میں لکھا تھا کہ پیغمبر اسلام کی توہین کی کسی کو اجازت نہیں ہے لیکن جب تک کوئی گناہ گار ثابت نہ ہو سکے تو بلا امتیاز معصوم اور بے گناہ تصور کیا جائے گا۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں آسیہ کو 9 سال بعد ملتان جیل سے رہا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔بعد ازاں عدالت کی جانب سے 57 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا گیا، جو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تحریر کیا جبکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے الگ اضافی نوٹ تحریر کیا تھا۔عدالت کی جانب سے دیے گئے تحریری فیصلے کا آغاز کلمہ شہادت سے کیا گیا تھا جبکہ اس میں قرآنی آیات اور احادیث کا ترجمہ بھی تحریر کیا گیا تھا۔سپریم کورٹ کی جانب سے آسیہ مسیح کی رہائی کے حکم کے بعد کراچی سمیت ملک کے دیگر حصوں میں مذہبی جماعتوں نے احتجاج شروع کردیا تھا۔ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی جانب سے بریت کے فیصلے کے بعد شروع ہونے والا احتجاج آسیہ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کی شرط پر ختم کردیا گیا تھا۔حکومت نے ٹی ایل پی کو آسیہ کا نام ایل سی ایل میں شامل کرنے کے لیے قانونی کارروائی شروع کرنے اور سپریم کورٹ میں فیصلے پر نظر ثانی اپیل کی مخالفت نہ کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد آسیہ کو ملتان جیل سے 7 نومبر کو اسلام آباد منتقل کردیا گیا تھا اور سخت سیکورٹی میں نامعلوم مقام میں رکھا گیا تھا جبکہ حکام کی جانب سے بھی سیکورٹی خدشات کے باعث اس کی نقل و حرکت کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی۔تاہم بعد ازاں پنجاب کی تحصیل ننکانہ صاحب کے ایک گاؤں کی مسجد کے امام قاری سلام نے سپریم کورٹ میں آسیہ بی بی کی بریت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ وکیل صفائی سیف الملوک نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ آسیہ ملک چھوڑ دے گی ، سپریم کورٹ نے آئین و قانون کے مطابق نظر ثانی درخواست مسترد کی ،عدالت نے کہاکہ یہ ایسا کیس نہ ہوتا تو گواہوں کے خلاف مقدمہ درج کرواتے ،آسیہ کے قتل کا خدشہ ہے اس لیے اسے بیرون ملک جانا چاہیے،میں ملک میں ہی رہوں گا ،میں اقلیتوں کو کیسوں میں مدد کروں گا ، دوسری جانب سپریم کورٹ میں آسیہ مسیح کیس کی سماعت کی وجہ سے سخت ترین سیکورٹی کے انتظامات کیے گئے ۔عدالت کے اندراور باہر پولیس اور رینجرزکی بھاری نفری تعینات رہی ،صرف ضروری افرادکے باقی سب کوکمرہ عدالت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی ،مدعی مقدمہ عبدالسلام ،ان کے وکلاء غلام مصطفی ایڈووکیٹ ،پی پی کے سینئر رہنماء فرحت اللہ بابر ،عیسائی برادری کے جوزف فرانسس ،جانسن براڈ،سہیل عابد،طاہرہ عبداللہ سمیت دیگر شخصیات کمرہ عدالت میں موجودرہیں ۔آسیہ مسیح کی بریت کے خلاف دائرنظرثانی اپیل کومستردکیے جانے کی خبرکوملکی اور غیر ملکی میڈیانے بریکنگ نیوزکے طورپر نشرکیادوران سماعت بھی غیر ملکی میڈیاسے وابستہ افرادکی ایک بڑی تعدادبھی کمرہ عدالت میں موجودرہی اور سماعت کے دوران دیے گئے دلائل اور عدالتی ریمارکس کوتفصیل سے نوٹ کیاگیااور بعدازاں خبر کی صورت میں نشرکیاگیا۔
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post