وجیہ احمدصدیقی
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی کرپشن پرسپشن انڈکس 2018ء (بدعنوانی کا مشاہداتی جدول) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اب بھی کرپٹ ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ تاہم گزشتہ سال کی نسبت کرپشن میں ایک درجہ کمی آئی ہے۔ لیکن پاکستان کا کرپشن سے نجات کی جانب سفر بہت سست ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی منیجنگ ڈائریکٹر پیٹرشیا مورائیرا نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ دنیا کے کئی ممالک کرپشن پر کنٹرول میں ناکام ہو رہے ہیں، جس کی وجہ سے دنیا بھر میں جمہوریتوں کو خطرات ہیں۔ پیٹرشیا مورائیرا کا کہنا تھا کہ دنیا میں جمہوری ادارے اسی وجہ سے کمزور ہورہے ہیں کہ وہ کرپشن پر قابو پانے میں ناکام ہیں۔ جبکہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے چیئرمین سہیل مظفر نے کہا کہ پاکستان کو کرپشن روکنے کیلئے موثر اقدامات کرنے ہوں گے اور ملک میں بیرونی سرمایہ کاری لانے کیلئے کرپشن پرسپشن انڈکس (CPI) میں اپنی پوزیشن بہتر بنانی ہوگی۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا اسکور 33 اور رینکنگ 117 ہے۔ جبکہ بھارت کا اسکور 41 اور رینکنگ 78 ہے۔ پاکستان کو اپنے اسکور میں اضافہ اور رینکنگ میں کمی کرنا ہوگی، تاکہ اس کا شمار دنیا کے شفاف ترین ممالک میں ہو۔ اس وقت پاکستان دنیا کے شفاف ترین ممالک کی فہرست میں 64 ویں نمبر پر ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے جائزے کے مطابق 2018ء میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ اور نگران حکومت کے دور میں دنیا کے 180 ممالک میں پاکستان کی رینکنگ 117 تھی۔ جبکہ 2017ء میں بھی رینکنگ 117 تھی۔ 2016ء میں رینکنگ 116 لیکن اسکور 32 تھا۔ 2008ء سے 2013ء تک پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں پاکستان کی رینکنگ 143 تک پہنچ گئی تھی۔ جبکہ 2011ء میں کم سے کم 134 رہی۔ مسلم لیگ ق کے دور میں یہ رینکنگ 129 سے 144 کے درمیان رہی۔ جبکہ مارشل لاء یا پرویز مشرف کی فوجی حکومت کے دور میں پاکستان کی رینکنگ 77 کے درجے پر پہنچ گئی تھی اور پاکستان شفاف ممالک کے قریب پہنچ گیا تھا۔ موجودہ کرپشن انڈکس میں امریکہ کا اسکور 71 اور رینکنگ 22 ہوگئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق دنیا کے دو تہائی ممالک کا اسکور 50 سے کم ہے اور اوسط اسکور 43 ہے۔ 2012ء سے صرف20 ممالک کے اسکور میں بہتری آئی ہے، جن میں ارجنٹائن، کوٹے ڈی آئیوری، آسٹریلیا، چلی اور مالٹا سمیت 16 ممالک شامل ہیں۔ دنیا کے شفاف ترین ممالک میں پہلے نمبر پر ڈنمارک اور دوسرے پر نیوزی لینڈ ہے۔ ڈنمارک کا رینک 1 اور اسکور 88 ہے۔ جبکہ دنیا کا کرپٹ ترین ملک صومالیہ ہے جس کا رینک 180 اور شفافیت کا اسکور 10 ہے۔ بھارت، پاکستان سے بہتر حالت میں ہے۔ اس کا اسکور 41 اور شفافیت کی رینکنگ میں اس کا نمبر 78 ہے۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن کرپشن میں وہ شفافیت کے درجے تک نہیں پہنچ سکا ہے۔ بنگلہ دیش بھی جمہوری اور سیکولر ملک ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ لیکن وہ کرپشن میں پاکستان سے کہیں آگے ہے، شفافیت میں اس کی رینکنگ 149 ہے۔ جبکہ شفافیت صرف 26 درجے تک ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق شفاف ترین ملک ڈنمارک میں بھی 230 ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ کا اسکینڈل پکڑا گیا ہے۔ ڈنمارک کے ڈانسکے بینک (Danske Bank) نے روس اور آذر بائیجان کے لوگوں کو منی لانڈرنگ کرنے میں مدد دی تھی۔ رپورٹ کے مطابق منی لانڈرنگ اور کرپشن کے فروغ میں سوئس بینک کا کردار سب سے زیادہ ہے۔ ملائیشیا کے 110 ملین ڈالر منی لانڈرنگ کے ذریعے سوئس بینک Rothschild Bank AG میں جمع کرائے گئے۔ ملائیشیا کی حکومت نے انہیں واپس مانگا تو سوئس پارلیمنٹ نے انکار کردیا۔ اس صورت حال کے باوجود ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے شفافیت رینکنگ میں سوئٹزر لینڈ کو تیسرا نمبر اور 85 اسکور دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کے کئی ممالک میں کرپشن کے خلاف موثر مہم چل رہی ہے، جن میں سوئیڈن سرفہرست ہے۔ لیکن دنیا میں کرپشن پھیلانے میں سوئیڈن بھی پیچھے نہیں ہے۔ 2017ء میں سوئیڈن کی کمپنی ٹیلیا نے اعتراف کیا کہ اس نے ازبکستان کے صدر کی بیٹی کو 300 ملین ڈالر (30کروڑ ڈالر) کی رشوت دی ہے۔ اس اعتراف پر سوئیڈن کی حکومت نے کمپنی پر ایک ارب ڈالر کا جرمانہ کیا تھا۔ فن لینڈکا شمار بھی دنیا کے شفاف ترین ممالک میں تیسرے نمبر پر ہوتا ہے۔ لیکن اس کی دفاعی صنعت کی کمپنی پیٹریا بھی سلوانیا اور کروشیا کے ساتھ کرپشن اسکینڈل میں ملوث پائی گئی۔ سوئٹزر لینڈ کی آئل اور گیس کی کمپنی ایڈ ایکس پٹرولیم نے نائیجریا میںٹھیکے لینے کیلئے رشوت کا استعمال کیا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ سوئٹزر لینڈ اور اس طرح کے دوسرے ممالک میں اکائونٹس کی رازداری کرپشن کے خاتمے میں رکاوٹ ہے۔ واضح رہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے 2017ء کی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ دنیا بھر کے ایک تہائی ملکوں میں بدعنوانی کی روک تھام کیلئے کوششیں جاری ہیں، لیکن کرپشن میں کمی کی رفتار انتہائی سست ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بدعنوانی کے تدارک میں وقت لگتا ہے، لیکن یہ رفتار اس حد تک سست ہے کہ گزشتہ چھ برس میں کوئی خاص پیشرفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ بدعنوانی کے لحاظ سے، رپورٹ میں پاکستان کو ’’بدتر ملک‘‘ قرار دیا گیا تھا، جہاں رشوت ستانی ہر سطح پر موجود ہے۔ یہاں تک کہ ایک سے 100 کے اسکیل پر پاکستان کی سطح 98 جبکہ بنگلہ دیش 93 کی سطح پر ہے۔ ایشیائی ملکوں یعنی پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش، بھارت، کرغیزستان، میانمار، نیپال اور تاجکستان میں انتہائی درجے کی بدعنوانی ہے، جس کے نتیجے میں وسیع شعبہ جات اور ادارے متاثر ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ زیادہ تر غیر ملکی کمپنیاں رشوت ستانی کو سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتی ہیں۔ جبکہ زیادہ تر ملکوں میں منی لانڈرنگ سے نبرد آزما ہونے کے سلسلے میں ضابطے غیر تسلی بخش ہیں۔ دوسری جانب ان ملکوں میں سرکاری رقوم کے انتظام میں عدم شفافیت کا عنصر عام ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ بجٹ کیلئے مختص رقوم بہتر طور پر خرچ کی جائیں اور اسے ضائع ہونے سے بچانے کی حتی الوسع ضمانت موجود ہو۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 75 فیصد لوگ جن کا زمین سے متعلق امور سے واسطہ پڑتا ہے اور پولیس سے تعلق میں آنے والے 65 فیصد حضرات کو رشوت ستانی کی شکایت ہے۔
٭٭٭٭٭