طالبان بین الافغانی مذاکرات کرنے کے لئے تیار

0

محمد قاسم
طالبان نے بین الافغانی مذاکرات کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ افغان طالبان نے اعلان کیا ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے ساتھ ہی افغانستان کی تمام اقوام کے ساتھ بات چیت شروع کر دی جائے گی۔ تاہم اسلامی قوانین کے نفاذ اور افغان اقدار کے سوا کوئی بات تسلیم نہیں کی جائے گی۔ افغان طالبان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ استعماری طاقتوں، ہمسایہ ملکوں اور دنیا کے دیگر ممالک کی کوشش ہے کہ افغان طالبان ایک اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے لئے اپنی کوششیں ترک کر دیں اور مغربی طرز کے جمہوری نظام میں شرکت کریں۔ افغانستان میں جمہوریت کیلئے کوششیں کرنا طالبان کی اٹھارہ سالہ جدوجہد کو پانی میں بہانے کے مترادف ہے۔ امریکی افواج کے انخلا کے بعد جو نظام ملک میں رائج ہو گا، وہ اسلامی فلاحی نظام ہوگا۔ قومی وحدت، ظلم کے خلاف مظلوم کی حمایت اور تعلیمی، صنعتی، سماجی، معاشی و معاشرتی سرگرمیوں کے بارے میں اسلامی قوانین کا سہارا لیا جائے گا۔ افغان طالبان اسلامی قوانین کے برعکس کسی نظام کو تسلیم نہیں کریں گے۔ اسلامی فلاحی نظام کے نفاذ کے بغیر ملک میں امن کا قیام ممکن نہیں ہے۔ لہذا امریکہ سمیت دنیا بھر کے ممالک یہ بات ذہن سے نکال دیں کہ طالبان افغانستان میں مغربی جمہوری نظام کا حصہ بنیں گے۔ افغان طالبان نے اٹلی کی جانب سے اپنے فوجیوں کو افغانستان سے نکالنے کے فیصلے کا بھی خیرمقدم کیا ہے اور نیٹو کے جنرل سیکریٹری کے بیان کی مذمت کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ نیٹو نے پہلی بار تسلیم کیا ہے کہ اس کے 14 ہزار فوجی افغانستان میں موجود ہیں۔ طالبان نے نیٹو ممالک کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپنے فوجیوں کو امریکہ سے پہلے افغانستان سے نکالیں۔ کیونکہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد کسی بھی ملک کے فوجیوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور ان کے خلاف کارروائیاں کی جائیں گی۔ اٹلی کی طرح جرمنی اور برطانیہ بھی اپنے فوجیوں کو نکالنے کا اعلان کردیں۔
دوسری جانب افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا سے پیدا ہونے والی صورتحال پر ہمسایہ ممالک میں تشویش پائی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں روس کو کافی تحفظات ہیں، کہ ایسا نہ ہو، امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں موجود داعش سمیت اسلامک مومنٹ آف ازبکستان اور دیگر شدت پسند گروپ وسطی ایشیا کا رخ کریں یا وسطی ایشیا سے شدت پسند افغانستان آجائیں۔ اس لئے روس نے بھی پاکستان سے مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں بات چیت کیلئے روس کے افغانستان کیلئے نمائندہ ضمیر کابلوف پاکستان کے دورے پر پہنچ گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق وہ پاکستان کی اعلیٰ قیادیت کیلئے روسی حکام کا اہم پیغام بھی لائے ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ روس، پاکستان، ایران اور دیگر ممالک مل کر افغانستان کی تعمیر نو میں حصہ لیں۔ جس طرح روس کی شکست کے بعد امریکہ نے افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا تھا۔ اس طرح اب روس، پاکستان، چین اور ایران افغانستان کو اکیلا نہ چھوڑیں۔ بلکہ وہاں پائیدار امن کے قیام اور تعمیر نو کیلئے مل کر کام کریں۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ روس اور چین چاہتے ہیں کہ خانہ جنگی کے خطرات سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ 1990ء کی طرح افغانستان کو تنہا نہ چھوڑا جائے بلکہ افغان فوج اور طالبان کے درمیان ایسا معاہدہ کرایا جائے کہ طالبان جنگجوئوں کو افغان آرمی میں شامل کرلیا جائے اور طالبان کو حکومت کا حصہ بھی بنایا جائے اور افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت تشکیل دی جائے۔ کیونکہ 1996ء میں خانہ جنگی کے خلاف طالبان کا ظہور ہوا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت طالبان نے خانہ جنگی پر قابو پاکر امن قائم کردیا تھا۔ لیکن اب طالبان اٹھارہ سال سے افغانستان میں لڑ رہے ہیں اور ان کے ہاتھوں ہزاروں افغان سیکورٹی اہلکار مارے گئے ہیں، جن کا تعلق مختلف قومیتوں سے ہے۔ اس لئے افغان طالبان اور فوج کے درمیان ایک مصالحتی کمیشن کا قیام ضروری ہے، تاکہ طویل جنگ کے دوران جو دشمنیاں پیدا ہوئی ہیں، ان کو ختم کیا جائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس موقع پر اگر افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا گیا تو 1992ء کی طرح خانہ جنگی شروع ہو جائے گی اور اس سے سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہوگا۔ کیونکہ ایک مرتبہ پھر لاکھوں افغان باشندے پاکستان کا رخ کریں گے۔ دوسری جانب افغانستان میں خانہ جنگی سے وسطی ایشیا کے ممالک بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی انخلا کے بعد روس، چین اور پاکستان کے ساتھ ملکر افغانستان کی تعمیر نو میں حصہ لینا چاہتا ہے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ افغانستان کی تعمیرنو میں روس اور چین کے کردار کو کائونٹر کرنے کیلئے امریکہ اور یورپی ممالک افغانستان میں موجود اپنے حامیوں کو امداد فراہم کر سکتے ہیں، جس سے افغانستان میں مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ تاہم افغان طالبان کی جانب سے بین الافغانی مذاکرات پر آمادگی سے افغانستان میں قیام امن کی امید پیدا ہوگئی ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More