امت رپورٹ
ایمپریس مارکیٹ کے تاجر مارکیٹ کے احاطے میں دکانوں کے ساتھ شہید کئے گئے 50 برس قدیم مصلے سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ گزشتہ برس 11 نومبر کو ایمپریس مارکیٹ میں انہدامی آپریشن کے دوران یہ مصلیٰ بھی شہید کردیا گیا تھا۔ تاہم دکانداروں نے ملبہ صاف کر کے وہاں باجماعت نمازوں کی ادائیگی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
واضح رہے کہ ایمپریس مارکیٹ کی بیوٹیفکیشن کیلئے مارکیٹ کے اطراف ایک پارک بنانے کا منصوبہ سامنے آیا ہے۔ دکانداروں کا کہنا ہے کہ برٹش دور کے نقشے میں نماز کی جگہ نہیں ہے۔ لیکن اب اسلامی جمہوریہ پاکستان بننے کے بعد مجوزہ پارک میں باقاعدہ مسجد تعمیر کی جائے۔ اس کیلئے تمام دکاندار مالی تعاون کریں گے۔ مارکیٹ کے دکانداروں نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ مسجد تعمیر کرانے کیلئے جماعت اسلامی اور دیگر دینی جماعتوں سے رابطہ کیا گیا ہے اور علمائے کرام کو یہاں لاکر تمام صورتحال کے بارے میں آگاہ کیا جارہا ہے۔ تاجروں کا کہنا تھا کہ میئر کراچی اور صوبائی وزیر بلدیات مارکیٹ میں مسجد کی تعمیر کی منظوری دیں۔ اس مطالبے کو منوانے کیلئے احتجاج بھی کرنا پڑا تو کریں گے۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں نے قانونی امداد فراہم کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی ہے۔ تاجروں نے بتایا کہ گزشتہ برس 11 نومبر کو کے ایم سی کی انسداد تجاوزات ٹیم نے ایمپریس مارکیٹ کے اندر اور اطراف کی دکانیں اور مارکیٹیں مسمار کی تھیں۔ اس دوران عمر فاروق مارکیٹ کے وسط میں 50 سال سے قائم مصلیٰ بھی زد میں آیا۔ دکاندار احتجاج کرتے رہے تھے کہ نماز کی جگہ کو شہید نہ کیا جائے۔ کسی افسر نے ان کی بات نہیں سنی تھی۔ دکانداروں نے بتایا کہ انہدامی کارروائی سے قبل قرآن پاک بھی نہیں اٹھانے دیئے گئے تھے۔ تاہم آپریشن کے بعد دکانداروں نے ملبہ صاف کرکے باجماعت نمازوں کا سلسلہ شروع کردیا، جو اب بھی جاری ہے۔ اب سرکاری سطح سے ایمپریس مارکیٹ کو خوبصورت بنانے اور اطراف میں پارک بنانے کی باتیں ہورہی ہیں تو متاثرہ دکاندار متبادل جگہ نہ دیئے جانے پر میئر کراچی کے خلاف سخت مشتعل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مصلے کو ختم نہیں ہونے دیں گے۔ ایمپریس مارکیٹ کے تاجر رہنما اقبال کاکڑ کا کہنا تھا کہ عمر فاروق مارکیٹ 50 سال قبل بنی تھی اور مارکیٹ کے وسط میں دکانداروں نے چندہ کر کے یہ مصلیٰ بنایا تھا اور مولوی جان محمد کو پیش امام رکھا تھا۔ انہدامی کارروائی سے قبل یہاں مولانا عبدالعلیم نماز پڑھا رہے تھے۔ اس جگہ پانچ وقت کی باجماعت نماز ہوتی تھی اور رمضان میں تراویح کا بھی بندوبست ہوتا تھا۔ یہاں نماز کی ادائیگی کیلئے ایمپریس مارکیٹ کے اندر واقع دکانوں کے مالک اور ملازمین، پرندہ مارکیٹ، لنڈا مارکیٹ، کپڑا مارکیٹ، مصالحہ جات اور خشک میوہ جات کی دکانوں کے مالکان اور خریدار آتے تھے۔ مصلے کی بائونڈری کے اندر ساٹھ پینسٹھ افراد نماز پڑھتے تھے۔ جبکہ دائیں بائیں اور پیچھے بھی صفیں لگتی تھیں۔ ظہر، عصر، مغرب اور عشا میں ڈیڑھ سو سے زائد نمازی ہوتے تھے۔ موذن بھی رکھا ہوا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اس مصلے کا نام ’’مسجد معراج‘‘ تھا۔ کئی بار اس کو رجسٹرڈ کرانے کی کوشش کی گئی تو سرکاری افسران کی جانب سے کہا گیا کہ یہ کے ایم سی کی جگہ ہے۔ اقبال کاکڑ کا کہنا تھا کہ ایمپریس مارکیٹ میں انہدامی کارروائی کے بعد اب نقشے بنائے جارہے ہیں کہ اس کے اطراف میں پارکس بنیں گے۔ لیکن برٹش دور کا نقشہ اسی صورت قابل قبول ہوگا، جب اس مصلے کی جگہ باقاعدہ مسجد تعمیر کی جائے گی۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ 2500 دکانوں کو مسمار کرکے ہزاروں افراد کو بیروزگار کردیا گیا۔ لیکن ابھی تک متبادل جگہ دینے کا وعدہ پورا نہیں کیا گیا ہے۔
مارکیٹ کے تاجروں نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ مصلے کی جگہ سے کسی صورت دستبردار نہیں ہوںگے۔ تاجروں کے بقول دو روز قبل جماعت اسلامی کے رہنما محمد حسن محنتی مارکیٹ آئے تھے۔ جبکہ مولانا تنویرالحق تھانوی سمیت دیگر علما بھی دورہ کر چکے ہیں۔ علمائے کرام اور دینی جماعتوں و تنظیموں نے اس معاملے میں ہر قسم کے تعاون اور قانونی مدد فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ حاجی عبدالقدوس کا کہنا تھا کہ شہید کئے گئے مصلے پر پانچ وقت کی نماز باجماعت ادا کی جارہی ہے۔ میئر کراچی اور صوبائی وزیر بلدیات اس مصلے کو نظرانداز نہ کریں۔ مارکیٹ کے مستقبل کے منصوبے میں باقاعدہ ایک مسجد کی تعمیر بہت ضروری ہے۔ تاجر حاجی عبدالرشید کا کہنا تھا کہ 50 سال سے اس جگہ نماز پڑھی جارہی ہے۔ اب اس مصلے کو ختم کرکے پارک بنانے کا خواب نہ دیکھا جائے۔ بہتر ہوگا کہ مصلے کو باقاعدہ مسجد کا درجہ دیا جائے اور قانونی کارروائی کر کے جدید طرز کی مسجد بنائی جائے۔ ابراہیم میمن نے کہا کہ وہ 50 سال سے زائد عرصے سے یہاں نماز پڑھ رہے ہیں۔ اب یہاں باقاعدہ ایک مسجد تعمیر ہونی چاہئے۔ محمد خلیل کا کہنا تھا کہ انہدامی کارروائی کے بعد اس مصلے کی اہمیت بڑھ گئی ہے، تاجر اس جائے نماز سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے۔ ایک نمازی دکاندار جمیل نے بتایا کہ میئر کراچی نے مصلے کو شہید کرانے کے بعد احتجاج کرنے والے دکانداروں سے کہا تھا کہ اگر اپنی دکانوں کے متبادل جگہ لینی ہے تو مسجد کا مسئلہ کھڑا نہیں کرو۔ ایک دکاندار شمس الدین نے بتایا کہ وہ 22 سال سے یہاں موذن کی ذمہ داری بھی نبھا رہا تھا۔ دکان توڑے جانے کے بعد اب وہ مزدوری پر مجبور ہے ۔ لیکن نماز سے قبل یہاں آکر اذان اب بھی دیتا ہے۔ نقیب اللہ کا کہنا تھا کہ مصلے کو مسجد بنا دیا جائے ورنہ مصلیٰ ختم نہیں کرنے دیں گے۔ حاجی عبدالخالق نے بتایا کہ آپریشن کے بعد کے ایم سی والوں نے یہاں سے صفیں اور دیگر سامان غائب کردیا تھا۔ دکانداروں سے مبلے کی صفائی کے بعد دوبارہ صفوں کا بندوبست کیا ہے۔ مصلے کی جگہ مسجد کی تعمیر تک احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ مقبول احمد کا کہنا تھا کہ پارک کے نقشے میں مصلے کی جگہ جدید طرز کی مسجد کو بھی شامل کیا جائے۔
Prev Post