زیادتی کا شکار تین سالہ فریال کے قاتل تاحال آزاد

0

محمد زبیر خان
ایبٹ آباد میں پانچ سو مشتبہ افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ کئے جانے کے باوجود زیادتی کے بعد قتل کی جانے والی تین سالہ بچی فریال کے قاتل گرفتار نہیں کئے جا سکے۔ پولیس نے فریال کے گاؤں کیالہ سمیت ڈھائی کلومیٹر اسکوائر علاقے کے ہر گائوں سے مشتبہ افراد کے ڈی این اے سیمپل جمع کئے۔ مجموعی طور پر 500 سے زائد نمونے حاصل کئے گئے، جس میں سے تقریباً 400 کے نتائج موصول ہو چکے ہیں۔ پولیس نے 25 اور 26 دسمبر کو علاقہ مکینوں کے گھروں میں آنے والے مہمانوں کے بھی نمونے حاصل کئے تھے۔ تاہم ابھی تک ملزم یا ملزمان کا سراغ نہیں لگایا جاسکا ہے۔ معصوم بچی سے زیادتی اور قتل کے ملزم کی عدم گرفتاری پر شہریوں میں غم وغصہ بڑھ رہا ہے اور سول سوسائٹی کی جانب سے احتجاج کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ دوسری جانب مقتول بچی فریال کے دادا نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو ریلیز کی ہے، جس میں انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس اہلکاروں نے ان پر دباؤ ڈالا کہ وہ خود یا ان کے خاندان کا کوئی فرد یہ جرم قبول کرکے پولیس کی جان چھڑائیں۔ تاہم پولیس نے اس کی تردید کی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس 26 دسمبر کو ایبٹ آباد کے علاقے حویلیاں کے گائوں کیالہ میں تین سالہ بچی فریال کی لاش برآمد ہوئی تھی۔ پوسٹ مارٹم میں انکشاف ہوا کہ بچی کو پہلے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور پھر قتل کردیا گیا۔ معصوم بچی کے ساتھ اس ہولناک واردات نے ملک بھر کے عوام جھنجھوڑ کر رکھا دیا اور اس واقعہ کیخلاف پورے ملک میں احتجاج ہوا تھا۔ لیکن ایک ماہ گزرنے کے باوجود ایبٹ آباد پولیس لاکھوں روپے خرچ کرکے بھی ملزمان کا سراغ نہیں لگا سکی۔ تقریباً 500 افراد کے ڈی این اے سیمپل حاصل کئے گئے، جس میں سے پولیس کو 400 کے نتائج موصول ہو چکے ہیں۔ لیکن کسی کا بھی ڈی این اے میچ نہیں ہوا۔ واضح رہے کہ صوبہ خیبر پختون میں کوئی فرانسک لیبارٹری نہیں ہے۔ جبکہ پنجاب فرانسک لیبارٹری میں ایک ڈی این اے ٹیسٹ کی فیس 5 ہزار روپے ہے۔ اب تک خیبر پختون پولیس لیبارٹری کو لاکھوں روپے ادا کرچکی ہے۔
دوسری جانب ایک ماہ بعد بھی معصوم بچی کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والے ملزمان کی عدم گرفتاری پر شہریوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ ایبٹ آباد، راولپنڈی، اسلام آباد، پشاور اور کراچی سمیت دیگر شہروں میں سول سوسائٹیز نے اجلاس منعقد کرنا شروع کردیئے ہیں، جن میں انسانی حقوق کے کارکن بھی شرکت کررہے ہیں۔ ان اجلاسوں میں احتجاج کے لائحہ عمل ترتیب دیئے جارہے ہیں۔ دوسری جانب مقتولہ فریال کے دادا نے پانچ منٹ کی ایک ویڈیو ریلیز کی ہے، جس میں انہوں نے ملزمان کی عدم گرفتاری پر اپنے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پہلے تو پولیس تعاون کرتی رہی اور ہم بھی تعاون کرتے رہے۔ لیکن اب پولیس کے تیور بدل گئے ہیں۔ سادہ کپڑوں میں ملبوس کچھ پولیس اہلکار میرے پاس آئے اور کہا کہ ملزم گرفتار نہیں ہو رہے ہیں۔ تم یا تمہارے خاندان کا کوئی فرد یہ جرم قبول کرلے، تاکہ پولیس کی جان چھوٹ سکے‘‘۔ ویڈیو میں فریال کے دادا کا کہنا ہے کہ ’’میری عمر 72 سال ہے۔ ایسے الفاظ سن کر میں کانپ گیا تھا‘‘۔ اس ویڈیو کے حوالے سے ایس پی ایبٹ آباد سونیا جدون نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فریال کے دادا کی ویڈیو حقائق کے برعکس ہے۔ پولیس اس کیس میں ملزم یا ملزمان کو بے نقاب کرنے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔ پورے علاقے کے لوگوں کی فہرستیں بنائی گئی ہیں اور سیکڑوں افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ کرائے گئے ہیں اور بچی کا ڈی این اے بھی حاصل کیا ہے، تاکہ انہیں میچ کرکے قاتلوں کو پکڑا جاسکے۔ انہوں نے بتایا کہ ملزمان کو گرفتار کرنے کیلئے پورے علاقے کی جیوفینسنگ بھی کرائی گئی ہے اور پولیس کی پورے علاقے میں ہر گھر اور فرد پر نظر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تو ہوسکتا ہے کہ کسی پولیس اہلکار نے فریال کے دادا سے پوچھا ہو کہ ان کو کسی پر شک ہے تو بتائیں۔ لیکن یہ نہیں کہا ہوگا کہ وہ جرم قبول کرلیں۔ سونیا جدون کا کہنا تھا کہ اس کیس میں اصل ثبوت تو ڈی این اے ہی ہوگا۔ کسی کے جرم قبول کرنے یا نہ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ پولیس تمام تر وسائل کے ساتھ تفتیش کر رہی ہے۔ امید ہے کہ ملزمان جلد گرفتار کرلئے جائیں گے۔ ٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More