احمد نجیب زادے
امریکی افواج کیلئے مترجم کی خدمت انجام دینے والے ہزاروں افغان نوجوانوں کے ساتھ ہاتھ ہوگیا۔ افغان مترجمین نے شکوہ کیا ہے کہ امریکا نے انخلا کے مذاکرات کے دوران انہیں تنہا چھوڑ دیا اور ان کو مستقبل میں تحفظ کی ضمانت دینے یا امریکا کا ویزا فراہم کرنے سے معذرت کرلی ہے، جس سے ہزاروں افغان مترجمین میں خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی ہے۔ امریکی میڈیا نے بتایا ہے کہ امسال کانگریس کی جانب سے افغان مترجموں کیلئے ’’اسپیشل امیگریشن ویزا‘‘ جاری نہیں کئے گئے ہیں اور پہلے سے پھنسی ہوئی 19 ہزار سے زیادہ درخواستوں پر بھی کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ہے، جس سے ہزاروں افغان مترجموں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ افغان مفاہمی عمل یا مستقبل قریب میں ہونے والے امریکی فوجی انخلا کے باعث انہیں جان کے لالے پڑ گئے ہیں۔ ادھر افغان مترجمین کی بہبود اور حفاظت کیلئے کارگزار امریکی این جی او ’’نو ون لیفٹ بی ہائنڈ‘‘ نے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ امن مذاکرات میں افغان مترجموں کی زندگی کی ضمانت بھی حاصل کرے یا پھر انہیں امریکہ کا اسپیشل ویزا دے۔ تاکہ افغان مترجم امریکا پہنچ سکیں، کیونکہ امریکی عسکری انخلا کے بعد ان کیلئے افغانستان بہت پر خطرہ ہوگا۔ امریکی صحافی ایلکس ہارٹن نے بتایا ہے کہ امریکی حکومت نے گزشتہ برس 1,649 مترجموں کیلئے ’’اسپیشل امیگریشن ویزے‘‘جاری کئے تھے۔ لیکن امسال امن مذاکرات اور انخلا کی باتوں اور ملاقاتوں کے باوجود کسی بھی افغان مترجم کو ’’اسپیشل ویزا‘‘ جاری نہیں کیا گیا ہے جس سے امریکیوں کا ساتھ دینے والے ہزاروں افغان مترجموں میں گھبراہٹ پیدا ہوچکی ہے۔ واضح رہے کہ امریکی تنظیم ’’انٹرنیشنل رفیوجی اسسٹنس پروگرام‘‘ کا الزام ہے کہ ہر چھتیس گھنٹے میں افغان طالبان کم از کم ایک مترجم کو ٹھکا لگا دیتے ہیں اور اس کام کیلئے ان کا ایک اسپیشل اسکواڈ مامور ہے۔ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغان مترجموں کی حفاظت کیلئے 2009ء میں ایک قانون ’’افغان الائیز پروٹیکشن ایکٹ‘‘ پاس کیا گیا تھا، جس کے تحت طالبان کے حقیقی حملوں کا شکار افغان مترجمین کو ’’اسپیشل امیگرشن ویزا‘‘ جاری کیا جاتا ہے۔ گزشتہ نو برس (2009-2018) میں 16 ہزار افغان مترجموں کو یہ ویزا جاری کرکے افغانستان سے امریکا بھیجا گیا۔ لیکن تازہ اطلاعات کی رُو سے اب امریکی حکومت نے تمام افغان مترجموں سے آنکھیں پھیر لی ہیں اور ان کیلئے ’’اسپیشل ویزا‘‘ کے حوالے سے کوئی پالیسی تاحال ظاہر نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی امسال کوئی ویزا جاری کیا گیا ہے۔ امریکی جریدے اسٹار اینڈ اسٹرپس نے ایک چشم کشا رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکی افواج کے کمانڈرز اور امریکی سفیر متعین برائے کابل نے اس سلسلہ میں آنکھیں موند لی ہیں اور ہزاروں افغان مترجموں کو طالبان سے مذاکرات کی کامیابی کی شکل میں اپنی موت دکھائی دینے لگی ہے۔ کیونکہ افغان طالبان ماضی میں امریکی افواج کیلئے مترجم کی خدمات انجام دینے والے افراد کو ’’وطن کا غدار‘‘ قرار دے چکے ہیں اور ماضی میں متعدد مترجموں کو طالبان کی جانب سے ٹھکانے بھی لگایا جاچکا ہے۔ جس کی وجہ سے اب سینکڑوں افغان مترجموں کو اپنی زندگی اور مستقبل خطرے میں دکھائی دیتا ہے اور اس امر کا وہ برملا اظہار کررہے ہیں۔ لیکن امریکی حکومت کانوں میں تیل ڈالے بیٹھی ہے۔ ادھر ایک بیان میں امریکی تنظیم ’’نو ون لیفٹ بی ہائنڈ‘‘ کے پروگرام ڈائریکٹر کرٹ لیوس نے کہا ہے کہ امریکی انخلا کی باتوں اور اقدامات کے سبب افغان مترجموں میں شدید پریشانی پھیلی ہوئی ہے۔ ان کی جانیں سولی پر لٹکی ہوئی ہیں کیونکہ ’’اسپیشل ویزا‘‘ کیلئے ٹرمپ حکومت سنجیدگی نہیں دکھا رہی ہے اور اب ان مترجموں کیلئے ایک بھی ویزا جاری نہیں کیا جارہا ہے جو ماضی میں منظم طریقہ کار کے تحت افغان مترجموں کو جاری کئے جاتے تھے۔ کرٹ لیوس کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم امریکی حکام اور بالخصوص صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہی ہے کہ جن افغان مترجموں نے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر امریکی فوجی مشن کیلئے کام کیا ہے، ان کی حفاظت کی ذمہ داری بھی امریکی حکومت اور افواج پر ہی عائد ہوتی ہے۔ امریکی میڈیا سے گفتگو میں کرٹ لیوس نے بتایا ہے کہ اب جبکہ رواں ہفتے کی خبروں سے علم ہوا ہے کہ امریکا طالبان مذاکرات امن سمجھوتے کے قریب پہنچ چکے ہیں تو امریکی افواج کا انخلا بہت قریب دکھائی دیتا ہے۔ اس لئے مترجمین اور امریکیوں کیلئے خدمات انجام دینے والے (جاسوسوں) کی حفاظت کی خاطر ’’اسپیشل امیگریشن ویزا‘‘ کی ضرورت بہت زیاہ محسوس کی جارہی ہے۔ کیونکہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد ان مترجموں اور ’’دیگرافراد‘‘ کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا۔ ادھر وائس آف امریکا کی ایک رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ امریکا کی بے اعتنائی کے سبب افغان مترجموں میں پریشانی پیدا ہوگئی ہے کیونکہ امریکی انخلا کی صورت میں یا طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی ان کیلئے مسائل کھڑے کردے گی۔ امریکی صحافی ایلکس ہارٹن نے بتایا ہے کہ کانگریس نے اس سلسلہ میں افغان مترجموں کے حوالہ سے مکمل سرد مہری کا رویہ اپنایا ہوا ہے۔ امریکی ریڈیو کی رپورٹ میں 2016ء میں امریکا بھاگ آنے والے ایک افغان مترجم 32 سالہ ارشاد کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جن پر طالبان کے ایک گروپ نے قاتلانہ حملہ کیا، لیکن خوش قسمتی سے اس کی جان بچ گئی اور امریکی کمانڈرز کی سفارش پر پیشے کے لحاظ سے سول انجینئر ارشاد کو ’’اسپیشل امیگریشن ویزا‘‘ جاری کردیا گیا۔ لیکن اس کے اہل خانہ ابھی تک افغانستان میں موجود ہیں۔ ارشاد کا کہنا ہے کہ اس کے خاندان والوں کو اب بھی طالبان سے خطرات لاحق ہیں۔ ارشاد کو امریکا پہنچنے کیلئے بھی امریکی تنظیم’’نو ون لیفٹ بی ہائنڈ‘‘ کی معاونت حاصل تھی۔ ارشاد کا کہنا ہے کہ اب بھی سینکڑوں مترجموں کو امریکی ویزا کی ضرورت ہے اور ان کی جانیں بچانے کیلئے فوری اقدام کرنا ہوں گے۔ امریکی میڈیا سے گفتگو میں جنوبی افغانستان سے تعلق رکھنے والے مترجم جانی شنواری اس وقت اپنے دیگر ساتھیوں کی زندگیاں بچانے کیلئے ’’نو ون لیفٹ بی ہائنڈ‘‘ کے پروگرام ڈائریکٹر کرٹ لیوس کے معاون بنے ہوئے ہیں۔ ان کا بھی یہی استدلال ہے کہ امن مذاکرات کے بعد طالبان کا سب سے پہلا ٹارگٹ افغان مترجم بنیں گے کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو عسکری کارروائیوں، جنگی مہمات اور چھاپوں میں امریکی افواج کے ساتھ جاتے ہیں اور ان کو افغان عوام اور طالبان اچھی طرح جانتے اور پہچانتے ہیں۔ ایک عام خیال یہی پایا جاتا ہے کہ امریکیوں کا ساتھ دینے والے مترجموں کو امن مذاکرات کے بعد بھی معافی نہیں ملے گی۔ ایک افغان ترجمان ناصری نے امریکی میڈیا سے گفتگو میں تسلیم کیا ہے کہ افغان طالبان اور ان کے ہمدرد امریکی فوج کی نسبت افغان مترجم سے زیادہ نفرت کرتے ہیں کیونکہ ان کیلئے وہ قوم اور وطن کا غدار ہیں۔
٭٭٭٭٭