طالبان کا بیان الافغانی کانسرنی میں شرکت کا اعلان

0

محمد قاسم
بین الافغانی کانفرنس بدھ کو روس کے دارالحکومت ماسکو میں شروع ہوگی، جس میں افغان طالبان نے بھی شرکت کا اعلان کیا ہے۔ دو روزہ کانفرنس میں افغان سیاستدان اور سابق جہادی رہنما بھی شریک ہوں گے۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی، عطا محمد نور، اسماعیل خان، حزب وحدت کے استاد محقق، سابق نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی سمیت دیگر افغان سیاستدانوں اور سابق جہادیوں نے ماسکو جانے کی تیاری شروع کردی ہے۔ اتوار اور پیر کے روز ان افراد کی ماسکو روانگی کا امکان ہے۔ افغان طالبان کی جانب سے ملا ضعیف بھی مذاکرات میں شرکت کریں گے۔ تاہم ابھی تک افغان حکومت نے مذاکرات میں شرکت کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے کچھ نہیں کہا ہے۔ امریکہ اس کانفرنس کو روکنے کیلئے سرگرم ہوگیا ہے اور اس نے افغان مصالحتی کمیشن کو شرکت سے روک دیا ہے۔ ’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق روس نے بدھ اور جمعرات کو افغان طالبان اور افغان سیاستدانوں کے درمیان ایک بین الافغانی مذاکرات کا انعقاد کیا ہے۔ نہ صرف طالبان نے بین الافغانی مذاکرات میں شرکت کا اعلان کیا ہے بلکہ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی، ملا عبد السلام ضعیف، حزب وحدت کے استاد محقق، خلیل کرزئی اور جنرل اسماعیل خان نے بھی ماسکو جانے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ پہلی بار طالبان، افغان سیاسی جماعتوں اور سابق جہادیوں کے درمیان براہ راست مذاکرات ہوں گے۔ ذرائع کے بقول ماسکو میں طالبان اور افغان سیاستدانوں کے درمیان مذاکرات سے امریکہ اور روس کے درمیان افغانستان کے حوالے سے نئی رسہ کشی شروع ہوگئی ہے۔ افغان طالبان روس کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کیلئے اس کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق افغان طالبان کے وفد کی قیادت شیر محمد عباس استنکزئی کریں گے، جس میں چھ دیگر رہنما شامل ہوں گے۔ تاہم اس کانفرنس میں افغان طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کے سیاسی مشیر اور نائب امیر ملا عبدالغنی برادر شریک نہیں ہوں گے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان، افغان سیاستدانوں اور سابق جہادیوں کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تاکہ دنیا کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ وہ بین الافغانی مذاکرات کیلئے تیار ہیں اور یہ بھی باور کرانا چاہتے ہیں کہ صدر اشرف غنی حکومت کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ طالبان ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ روس کی جانب سے جن افراد کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے، ان میں حزب اسلامی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما شامل ہیں۔ جمعیت اسلامی افغانستان کی نمائندگی عطا محمد نور کریں گے جبکہ سابق جہادیوں میں جنرل اسماعیل خان اور حزب وحدت کے استاد محقق شریک ہوں گے۔ حزب وحدت کی جانب سے استاد محقق کو ماسکو بھیجنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ذرائع کے بقول ماسکو کانفرنس میں طالبان کی شرکت سے واضح ہوگیا ہے کہ طالبان وسیع تر سیاسی اور فقہی ہم آہنگی کے خواہاں ہیں۔ جبکہ حزب وحدت کی شرکت سے ایران بھی خوش ہوگا۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی کے قریبی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ انہیں ماسکو کانفرنس کی دعوت ملی ہے اور وہ ضرور جائیں گے۔ ذرائع کے بقول سیاسی رہنمائوں اور سابق جہادی تنظیموں کے ساتھ مذاکرات سے طالبان اشرف غنی حکومت کو تنہا کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ افغان حکومت نے تاحال ماسکو کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔ تاہم قوی امکان ہے کہ افغان حکومت کا کوئی نمائندہ ماسکو نہیں جائے گا۔ ذرائع کے مطابق سابق صدر حامد کرزئی کئی ماہ سے کوشش کررہے تھے کہ روس یا چین میں ایک ایسی کانفرنس کا انعقاد کیا جائے، جس میں طالبان، افغان سیاستدانوں اور سابق جہادیوں کے درمیان مذاکرات ہوں اور بالآخر روس اس طرح کے مذاکرات کے انعقاد میں کامیاب ہو گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق کانفرنس میں افغان مصالحتی کمیشن کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ تاہم مصالحتی کمیشن کے ترجمان طاہری نے کہا ہے کہ انہیں دعوت تو ملی ہے، لیکن اتنے کم وقت میں شرکت کی تیاری ممکن نہیں ہے۔ اس لئے افغان مصالحتی کمیشن کا وفد ماسکو کانفرنس میں شرکت نہیں کرے گا۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی ایما پر اشرف غنی حکومت نے افغان مصالحتی کمیشن کو شرکت سے روکا ہے اور انہیں سفری دستاویزات کی فراہمی سے انکار کردیا ہے۔ ذرائع کے بقول افغان مصالحتی کمیشن پر افغان حکومت نے کروڑوں ڈالر خرچ کئے ہیں۔ لیکن افغان طالبان کی جانب سے امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات اور اب ماسکو میں بین الافغانی مذاکرات کے انعقاد سے مصالحتی کمیشن کا کردار تقریباً ختم ہوگیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے ماسکو کانفرنس میں شرکت کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ افغان حکومت کو نہ صرف تنہا کیا جائے بلکہ حامد کرزئی اور جنرل اسماعیل خان جیسے افغان حکومت کے حامیوں کو بھی حکومت سے دور کیا جائے۔ جمعیت اسلامی، حزب اسلامی، حامد کرزئی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کی شرکت سے افغان طالبان اور افغانوں کے درمیان مذاکرات کا راستہ ہموار ہو جائے گا۔ پہلی بار افغان طالبان کی جانب سے سابق سفیر ملا ضعیف بھی ان مذاکرات میں حصہ لے رہے ہیں۔ ملا ضعیف کی شرکت سے افغان طالبان کی مذاکرات میں سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ قطر کے مذاکرات میں بھی ملا ضعیف نے سہولت کار کا کردار ادا کیا تھا۔کانفرنس میں پاکستان، ایران، روس، چین اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے نمائندوں کی شرکت کا بھی امکان ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More