افغان جنگ میں اربوں ڈالر جھونکنے سے ٹرمپ کا انکار

0

واشنگٹن (امت نیوز) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو افغان جنگ میں خرچ ہونے والے اربوں ڈالر کی فکر ستانے لگی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ جنگ کے سارے فریق تھک چکے ہیں ،لیکن اس کے ساتھ انہوں نے انخلا کے بعد بھی افغانستان میں انٹیلی جنس موجودگی جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی مسلسل اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ ملک سے مکمل امریکی انخلا نہ ہونے دیا جائے۔ تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ہم نے افغان جنگ میں گزشتہ سال 51ارب ڈالر خرچ کئے ۔ ہم 19سال سے وہاں لڑ رہے ہیں، میں اپنے فوجیوں کو واپس ملک میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ ٹی وی انٹرویو میں امریکی صدر نے کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اس جنگ میں طالبان سمیت سب تھک چکے ہیں۔ میں بے نتیجہ جنگوں کا خاتمہ کرنا چاہتا ہوں۔ کسی نہ کسی وقت تو جنگ کا خاتمہ ہونا ہی ہے ،تاہم ٹرمپ نے اس بات کا اشارہ بھی دیا کہ انخلا کے بعد بھی وہ افغانستان میں اپنی انٹیلی جنس موجودگی جاری رکھیں گے ۔ سی بی ایس نیوز کو دیئے گئے انٹرویو میں اس سوال پر کہ کیا وہ افغانستان میں اپنے کچھ فوجی رکھیں گے ،ٹرمپ نے جواب دیا ،ہاں لیکن پھر اضافہ کیا کہ وہ افغانستان میں انٹیلی جنس کو چھوڑیں گے ،تاکہ اگر وہاں پھر دہشت گرد اپنے ٹھکانے بنانے کی کوشش کریں تو ہمیں بروقت پتہ چل سکے۔ لیکن ہم ہر سال51ارب افغان جنگ پر خرچ نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے میری ہدایت پر استعفی دیا ہے۔ میں نے انہیں بہت بڑا بجٹ دیا تھا ،لیکن وہ افغانستان میں ہمیں ڈیلیور نہیں کرسکے۔ میں میٹس کی کارکردگی سے خوش نہیں تھا۔ٹرمپ نے کہا کہ شام سے انخلا کے باوجود عراق میں امریکی فوج موجود رہے گی ،جہاں ہم نے خطیر سرمایہ لگا کر بڑے اڈے تعمیر کر رکھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عراق میں فوجیں رکھنے کا مقصد ایران پر نظر رکھنا ہے۔ امریکی صدر نے اس بات کو دہرایا کہ عراق پر قبضہ ایک غلطی تھی ،لیکن اب وہ سمجھتے ہیں کہ وہاں فوج رکھنی چاہئے۔ تاکہ ایران اگر ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش کرے تو ہمیں بروقت پتہ چل سکے۔ مشرق وسطیٰ پر بھی ہم عراق سے نظر رکھ سکتے ہیں۔ ٹرمپ نے ایک بار پھر اپنے انٹیلی جنس چیفس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ کہتے ہیں کہ ایران اچھا بچہ بن گیا ہے، تو میں ان سے سو فیصد اختلاف کرتا ہوں۔ ایران شرپسند ملک ہے ،جس نے بہت سے لوگوں کو مارا ہے۔ ٹرمپ نے اپنی خفیہ ایجنسیوں کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے تو صدام حسین کی فوجی طاقت کے بارے میں کیسی کیسی رپورٹس دی تھیں۔ جس کے نتیجے میں ہم وہاں کی جنگ میں پھنس گئے۔ ان غلط رپورٹس کے نتیجے میں ہمیں مشرق وسطیٰ میں 7کھرب ڈالر جنگوں پر لگانے پڑے اور بہت سی جانیں بھی ضائع ہوئیں۔ لیکن اب ہم عراق میں اپنی فوجیں رکھیں گے ،تاکہ خطے میں کسی گڑ بڑ سے نمٹا جاسکے۔ شام سے بھی فوجیں عراق منتقل کی جارہی ہیں ،وہاں سے انہیں واپس امریکہ لایا جائے گا۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ہمیں اسرائیل کا تحفظ کرنا ہے۔ امریکہ دنیا کی سیکورٹی پر سب سے زیادہ خرچ کرنے والا ملک ہے ۔ دریں اثنا افغان صدر اشرف غنی نے امریکہ طالبان مذاکرات سبوتاژ کرنے کے لئے اپنی سازشیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ اس سلسلے میں اشرف غنی نے ٹرمپ کو خط بھی لکھا ہے ،جس میں کہا گیا ہے کہ وہ افغانستان سے مجوزہ فوجی انخلا میں جلدی نہ کریں۔ اس کے علاوہ امریکہ پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اپنے فوجیوں کا مکمل انخلا نہ کرے۔ بلکہ اخراجات کم کرنے کے لئے دونوں ملک مل کر کام کریں اور فوجیوں کی تعداد14ہزار سے کم کرکے3ہزار کردی جائے۔ جس سے امریکہ کے اخراجات بھی کم ہوسکتے ہیں۔ اشرف غنی نے ٹرمپ کو کابل میں مدعو کرنے کے لئے بھی کوششیں تیز کردی ہیں۔ افغان صدر نے ٹرمپ پر زور دیا ہے کہ وہ طالبان سے مذاکرات میں گزشتہ ڈیڑھ دہائی کی کامیابیوں کو نظر انداز نہ کریں۔ اس دوران اتوار کو کابل میں طالبان سے رہائی پانے والے کمانڈوز کے اعزاز میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اشرف غنی نے طالبان کو نام لئے بغیر تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ وہ عناصر جنہوں نے طاقت کے ذریعے دوسروں کو مذاکرات کی میز پر بٹھایا ہے، وہ ہماری فوج کو ختم کرنے کی باتیں چھوڑ دیں۔ اشرف غنی نے اپنے فوجیوں کو شیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر دوسرا فریق اتنا بہادر ہے تو وہ میدان میں آکر ان سے مقابلہ کرے نہ کہ خودکش حملے اور دھماکے کئے جائیں۔ اشرف غنی نے طالبان قطر آفس کے سابق سربراہ محمد عباس ستنکزئی کے بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ افغان فوج کو ختم کرنے کی باتیں کرنے والے اپنی غلط فہمی دور کریں۔ افغان فوج بتدریج مضبوط ہورہی ہے اور وہ جلد از قابل ہوجائے گی کہ بیرونی مدد کے بغیر ملک کا دفاع کرسکے۔ اشرف غنی نے کہا کہ ایسا امن معاہدہ قبول نہیں کریں گے ،جو پائیدار نہ ہو اور جس میں ہماری سیکورٹی فورسز کے لئے ضمانتیں شامل نہ ہوں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More