احمد خلیل جازم
جامع مسجد بھیرہ یا شیر شاہی مسجد کی تزئین کا کام ان دنوں جاری ہے۔ پوری مسجد کا صحن پرانی اینٹیں اکھاڑ کر ٹائیلوں سے مزین کیا جا رہا ہے۔ مسجد کے بائیں کونے میں وضو خانے کے ساتھ ساتھ بنے برآمدے اور کمروں کے سامنے صحن کا ایک ٹکڑا چند ایک پھلوں اور پودوں سے مزین دکھائی دیا۔ یہ ٹکڑا پختہ نہیں کیا گیا، باقی تمام فرش پختہ تھا۔ اس حوالے سے جامع مسجد کے خطیب سے پوچھا کہ اس ٹکڑے کو پختہ نہ کرنے کی کیا وجہ ہے؟ تو صاحبزادہ ابرار بگوی نے بتایا کہ ’’اس ٹکڑے کی ایک عجیب داستان ہے۔ عموماً ہم یہ بات لوگوںسے نہیں کرتے۔ آپ کو بتائے دیتے ہیں کہ جب جامع مسجد واگزار ہوگئی تو قاضی احمد الدین بگوی مسجد کی حالت زار دیکھ کر بے قرار ہو جاتے۔ اکثر کھنڈر ہوتی مسجد کے سامنے اشک بار رہتے۔ پھر ایک رات قدرت خداوندی نے ایسی سعادت سے سرفراز کیا کہ بے قراری اور اشک باری جاتی رہی۔ اس رات قاضی احمد الدین سوئے تو حضور نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفیؐ کی آپ کو خواب میں زیارت ہوئی۔ آپ اسی جگہ کھڑے تھے اور قاضی صاحب آپ کے سامنے مودب تھے کہ آپؐ نے قاضی صاحب سے مسجد کی تعمیر نو کا ارشاد فرما دیا۔ اگلی صبح قاضی صاحب کے لئے الگ رنگ لیے ہوئے طلوع ہوئی۔ انہوں نے اسی روز یقین کر لیا تھا کہ اب مسجد کی تعمیر نو انہی کے ہاتھوں سے ہوگی، اور انہیں کوئی نہیں روک سکے گا۔ چنانچہ اسی دور میں قاضی احمد الدین بگوی صاحب نے مسجد کی تعمیر نو کے ساتھ ساتھ نظامت اور خطابت کا کام بھی سنبھال لیا۔ اس کے ساتھ ساتھ باضابطہ مدرسہ کی بنیاد بھی رکھ دی گئی۔ چونکہ سکھوں کے ہاتھوں مسجد کی ازحد بے حرمتی ہوئی تھی۔ یہاں بھی دیگر مساجد کی طرح مسجد کے اندر گھوڑے اور اونٹ باندھے گئے تھے۔ اللہ کا خاص کرم ہوا۔ قاضی صاحب کی مخلصانہ اور ان تھک محنت رنگ لے آئی اور یہ خستہ حال مسجد دوبارہ بحالی کی جانب گامزن ہوئی۔ اس وقت تعمیر نو میں بھیرہ کے بے شمار مرد و خواتین نے مالی حصہ لیا۔ آپ نے جہاں مسجد کے اکثر حصوں کی تعمیر نو اور مرمت کرائی، وہیں مسجد کے گنبدوں پر بھی توجہ کی اور ان کی مرمت کی گئی‘‘۔
جامع مسجد کی تعمیر اور توسیع کا کام بگوی خاندن ایک تسلسل سے جاری رکھے ہوئے ہے اور آج تک یہ کام جاری ہے۔ بگوی خاندان کے بارے میں صاحبزادہ ابرار خطیب مسجد کا کہنا تھا کہ ’’دریائے جہلم کے دائیں کنارے پر آباد قصبہ ’بگہ شریف‘ میں سترہویں صدی عیسوی میں ہمارے بزرگ حضرت ہاشم بن عبداللہ آکر قیام پذیر ہوئے اور وہاں درس و تدریس کا کام شروع کیا گیا۔ بعد ازاں انہی کی اولاد جامع مسجد لاہور کی خطابت سے سرفراز ہوئی اور جامع مسجد بھیرہ کو بھی انہوں نے ہی دوبارہ آباد کیا، جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے‘‘۔ جامع مسجد بھیرہ کے تین گنبد ہیں۔ ان میں ایک گنبد بڑا ہے۔ جبکہ اس کے ساتھ دائیں بائیں چھوٹے گنبد ہیں۔ دائیں جانب والے گنبد کے ساتھ مسجد کی توسیع کی گئی اور ساتھ ایک بڑا کمرہ بنایا گیا ہے۔ اس کمرے کے تین در ہیں، جن پر دروازے نہیں لگے ہوئے۔ یہ سفید رنگ کا کمرہ ہے، جو مسجد کے مرکزی حصے کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور اس کا حصہ دکھائی دیتا ہے۔ مرکزی مسجد جس کے اوپر تین گنبد ہیں، وہ ہلکے زرد رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ جبکہ یہ حصہ سفید رنگ کا ہے۔ اس حصے میں داخل ہوں تو اس کے بائیں جانب مرکزی حصے میں داخل ہونے کے لیے دروازہ بھی موجود ہے۔ صاحبزادہ ابرار کا کہنا ہے کہ یہ حصہ بعدازاں 1937ء میں محمد ذاکر بگوی نے تعمیرکرایا تھا۔ اس کے اندر چونے سے سفیدی کی گئی تھی۔ جبکہ بعض حصوں پر پیلا رنگ بھی نمایاں تھا۔ یہ حصہ اندر سے انتہائی خستہ حالی کا شکار معلوم ہوتا تھا۔ اگرچہ اسے باہر سے دیکھنے پر یہی معلوم ہوتا جیسے مسجد کا یہ حصہ سب سے بہتر حالت میں ہوگا۔ لیکن اندر داخل ہوں تو الٹ دکھائی دیتا ہے۔ اس اندرونی حصے کی چھت میں لوہے کے مضبوط چار گاڈرز لگے ہوئے ہیں۔ یہ چھت 1937ء کے دور کی یادگار ہے۔ اندر اوپر تلے چھ روشن دان ہیں، جبکہ کھڑکیاں نہیں ہیں۔ البتہ پیلے رنگ سے کھڑکیوں کی جگہ کی نشان دہی ضرور کی گئی ہے۔ مسجد کا یہ حصہ اندر سے خاصا کھلا ہے۔ یہاں عموماً مدرسے کے بچے دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ کیونکہ مسجد کا مرکزی حصہ تزئین نو کے مرحلے میں ہے، اس لیے بائیں جانب یہ حصہ اب مرکزی مسجد کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اسی حصے کے سامنے فرش پر نماز جمعہ کی ادائیگی بھی کی گئی۔ کیونکہ اسی جانب فرش بھی ٹائیلوں سے مکمل ہو چکا ہے۔ خطیب جامع مسجد ابرار بگوی کا کہنا ہے کہ ’’مسجد کی تزئین نو کا تمام کام بغیر کسی سے کچھ مانگے جاری ہے۔ بگوی خاندان نے مسجد کے لیے کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے۔ مسجد کا انتظام کیسے چل رہا ہے، صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس کا انتظام پروردگار عالم خود چلا رہے ہیں۔ یہاں کافی تعداد میں بچے دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ جنہیں تین وقت کا کھانا دیا جاتا ہے اور ان کی دیگر ضروریا ت بھی پوری کی جاتی ہیں‘‘۔
اس سوال پر کہ کبھی محکمہ آثار قدیمہ والوں نے مسجد کے لیے فنڈ مختص نہیں کیا؟ تو ابرار بگوی کا کہنا تھا کہ ’’مسجد کا تمام کام مخیر حضرات کے تعاون سے چل رہا ہے۔ اس میں حکومتی سطح پرکبھی کسی قسم کی گرانٹ نہیں ملی۔ اب بھی جو کام ہو رہا ہے، وہ خالصتاً مخیر حضرات کے تعاون سے ہو رہا ہے‘‘۔ اس سوال پر کہ محکمہ اوقاف والوں نے مسجد کو اپنی زیر نگرانی لینے کوشش نہیںکی؟ تو خطیب جامع مسجد کا کہنا تھا کہ ’’یہاں پر ایسا کچھ نہیں ہے کہ محکمہ اوقاف کی دلچسپی ہو۔ محکمہ اوقاف وہاں پیش رفت کرتا ہے، جہاں پر چندہ اور چڑھاوے کا انتظام ہو۔ مسجد میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ بلکہ مسجد کی تزئین اور اس کی دیکھ بھال پر تو مزید صرف کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے میں محکمہ اوقاف کی یہاں کیا دلچسپی ہوسکتی ہے‘‘۔
شیر شاہی مسجد بھیرہ کی عمارت کا جائزہ لیا اور خطیب سے مسجد کا رقبہ پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’’مسجد کا رقبہ مسجد میں لکھا ہوا ہے۔ مسجد کی مرکزی عمارت مضبوط بنیادوں پر رکھی گئی ہے۔ اس کی عمارت کی دیواریں اٹھارہ اور ستائیس فٹ تک چوڑائی کی حامل ہیں۔ ان دیواروں میں مضبوطی لانے کے لیے دیار کی لکڑی کے شہتیر اور تعمیراتی مسالے میں چونا، کپاس کے ریشے دار مرکب، سرخ مٹی اور اینٹوں کے ٹکڑے استعمال کیے گئے ہیں۔ ایک حوالے سے جامع مسجد کی پیمائش شیر شاہ سوری دور میں 69.6 x 127.6 فٹ تھی۔ جبکہ ایمپریل گزٹ آف انڈیا کے مطابق یہ پیمائش 59.6 x 114 فٹ ہے۔ لیکن حالیہ عمار ت اور صحن کی پیمائش ان دونوں سے الگ ہے۔ یعنی 209 x 159 فٹ۔ اگر اسے مربع فٹ میں بیان کیا جائے تو مسجد کا مسقف رقبہ 9631 x 2976 مربع فٹ ہے۔ اس کے تین گنبد ہیں۔ درمیانی گنبد دیگر دو گنبدوں کی نسبت بڑا ہے۔ یہ گنبد ہشت پہلو اسٹیج پر تعمیر کیے گئے ہیں۔ بڑے گنبد کا قطر 27 فٹ اور اس کی اونچائی چھبیس فٹ ہے۔ جبکہ اطراف کے دونوں گنبد 14 فٹ بلندی پر واقع ہیں اور ان دونوں کا قطر 20 فٹ ہے۔ صرف اندر سے درمیانی گنبد ہی منقش ہے۔ مگر اس کے رنگوں کے بارے میں ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر ولی اللہ خان کا کہنا تھا کہ ’’یہ شیر شاہ سوری عہد کے نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ نقش و نگار بعد میں بنائے گئے ہوں‘‘۔ لیکن صرف رنگوں اور نقوش کی بنیاد پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ شیر شاہ سوری دور کی مسجد نہیں ہے‘‘۔
مسجد کے مرکزی اندرونی حصے میں داخل ہوں تو سب سے پہلے نگاہ اس کے بیرونی دروازے کی جانب جاتی ہے۔ چونکہ ابھی تمام مسجد کی تزئین نو ہو رہی ہے تو بیرونی دروازے سے لے کر اندرونی حصے تک مستری مزدوروں نے بانس لگا کرا ن پر لکڑی کے پھٹے ڈال رکھے تھے، جن کے اوپر کھڑے ہوکر رنگ و رغن کا کام سر انجام دیا جارہا ہے۔ جس روز ہم مسجد دیکھنے گئے، وہ جمعہ کا دن تھا۔ اس لیے مزدور اور مستری چھٹی پر تھے۔ لیکن ان کا سامان جگہ جگہ بکھرا پڑا تھا۔ اسی دوران جمعہ کے خطبہ کی اذان ہوئی تو ابرار بگوی خطیب مسجد نے ہم لوگوں سے کہا، اب چونکہ مجھے خطاب اور خطبہ دینا ہے، اس لیے مسجد کا باقی حصہ، لائبریری اور مدرسہ جمعہ کے بعد دیکھ لیجیے گا۔ چنانچہ جمعہ کی نماز کے لیے ہمیں رکنا پڑا۔ اسی دوران لوگوںکی نماز جمعہ کے لیے آمد شروع ہوگئی۔ یوں محسوس ہو رہا تھا، جیسے بھیرہ کے لوگ اس مسجد میںجمعہ اور نماز پڑھنا سعادت سمجھتے ہوں۔ لوگ جوق در جوق نماز جمعہ کے لیے آتے رہے۔ بعد میں صاحبزادہ ابرار بگوی کا بتانا تھا کہ ’’نمازوں کے لیے بالعموم اور نماز جمعہ کے لیے بالخصوص بھیرہ کے لوگ مسجد میں آتے ہیں۔ عام پنجگانہ نماز کے لیے تو اردگرد کے لوگ آتے ہیں، لیکن نماز جمعہ کے لیے بھیرہ شہر کے ہر کونے سے نمازی آتے ہیں اور نماز جمعہ ادا کرتے ہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭