سدھارتھ شری واستو
لندن میں مقیم صومالی نژاد مسلم برطانوی خاتون نے برطانوی انٹیلی جنس، ایم آئی سکس کیخلاف 10 لاکھ پائونڈز ہرجانے کی ادائیگی کا مقدمہ دائر کردیا ہے۔ لندن برکشائر میں رہنے والی مومنہ عبدولے اپنے سویڈش شوہر عبدالقادر مومن کے ساتھ 2013ء میں اپنے عزیزوں سے ملاقات کیلئے صومالیہ گئی تھیں۔ جہاں برطانوی انٹیلی جنس ایم آئی سکس کے ایجنٹو ں نے انہیں گرفتار کرلیا اور ان کو دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث قرار دیکر ان کے ہاتھ پشت پر باندھ دیئے گئے۔ ان کو ایک نامعلوم مقام پر بند کمرے میں محصور کردیا گیا۔ جبکہ انہیں تانبے کی تار والے کیبل سے مارا گیا اور مغلظات بکی گئیں۔ واش رومز سمیت دیگر ضروری سہولیات بھی فراہم نہیں کی گئیں اور احتجاج پر ان کو قتل کر دیئے جانے کے دھمکیاں دی گئیں۔ ایم آئی سکس نے ان کے شوہر عبدالقادر مومن کو بھی برطانوی سرزمین پر حملوں کی پلاننگ اور دہشت گردی میں ملوث قرار دیا۔ لندن میں میڈیا سے گفتگو میں مومنہ عبدولے کی برطانوی وکیل، شوبھا سری نواسن نے بتایا ہے کہ برطانوی انٹیلی جنس ایم آئی سکس کی جانب سے اس کیس میں سنائی جانے والی کہانی میری موکلہ کے بیان کردہ حقائق سے یکسر مختلف ہے اور قوی امید ہے کہ ان کی موکلہ مومنہ عبدولے کو انصاف ملے گا۔ برطانوی جریدے، ڈیلی ایکسپریس نے بتایا ہے کہ اب تک تشدد اور ہرجانے کی ادائیگی کے 20 کیسوں میں برطانوی انٹیلی جنس کیخلاف کیسز کے فیصلوں میں داد رسی کے طور پر 20 ملین پائونڈز کے ہرجانے ادا کئے جاچکے ہیں۔ مومنہ عبدولے نے برطانوی انٹیلی جنس کے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ ایک قانون پسند برطانوی شہری ہیں اور ان کیخلاف تمام الزامات اور رپورٹیں بے بنیاد ہیں۔ لیکن ایم آئی سکس کے ایجنٹوں نے ان کی کوئی بھی بات سننے سے انکار کردیا اور انہیں صومالی ایئرپورٹ پر ایک ہفتے سے زیادہ عرصہ تک حراست میں رکھ کر بہیمانہ تشدد کیا گیا۔ مسلسل ان کی کمر پر کوڑے مارے گئے اور انہیں سونے بھی نہیں دیا گیا۔ جب مومنہ کی حالت غیر ہوگئی اور ان میاں بیوی کیخلاف کوئی ثبوت نہیں ملا تو ان کو رہا کردیا گیا۔ حالانکہ ان کا اول روز سے یہی موقف تھا کہ وہ اور ان کے شوہر کسی قسم کی دہشت گردی یا اس کی پلاننگ میں ملوث نہیں ہیں اور راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔ بعدازاں رہائی کے بعد مومنہ عبدولے نے برطانوی حکومت سے رابطہ کرکے اس حراست بے جا اور تشدد سمیت ذہنی ٹارچر کے بارے میں جواب طلبی کی۔ جس پر برطانوی حکومت نے کوئی مسکت جواب دیا اور نہ ان کی دل جوئی کی۔ مومنہ عبدولے کے کیس میں برطانوی صحافی، کرس ہرگیز نے بتایا ہے کہ مومنہ کی وکیل کی جانب سے لندن ہائی کورٹ میں پیش کئے جانے والے کاغذات اور بیان حلفی میں کہا گیا ہے کہ ان کو ایک غیر ملک کی سرزمین پر برطانوی انٹیلی جنس، ایم آئی سکس کے ایجنٹوں نے بغیر کسی ثبوت کے گرفتار کیا۔ ان کی تذلیل کی، ذہنی ٹارچر اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا۔ قتل کی دھمکیاں دیکر شب و روز کوڑے مارے گئے اور یہ تمام احکامات برطانوی حکومت کی جانب سے دیئے گئے تھے۔ اس لئے برطانوی حکومت اور انٹیلی جنس ان کو 10 لاکھ پائونڈز ہرجانہ ادا کرے۔ کیونکہ ان کے خلاف کوئی الزامات تھے نہ ہیں۔ ان کو پرامن برطانوی شہری ہونے کے باوجود بلا وجہ گرفتار کرکے دہشت گرد بنا دیا گیا۔ لیکن بعد ازاں ان کو بغیر کسی عدالتی کارروائی کے رہائی دے دی گئی۔ جس سے ان کے موقف کی تائید ہوتی ہے کہ وہ دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہیں۔ اگر صومالی نژاد خاتون نے اپنا کیس عدالت میں ثابت کردیا کہ ان کو برطانوی انٹیلی جنس کے ایجنٹوں نے ایک غیر ملکی ایئرپورٹ پر حراست میں لیکر تشدد کا نشانہ بنایا ہے تو ان کو 10 لاکھ پائونڈز کی ادائیگی کی جائے گی۔ کیونکہ گزشتہ آٹھ برسوں میں برطانوی انٹیلی جنس اورپراسیکیوٹر آفس کے مطابق ان دونوں میاں بیوی کیخلاف کوئی کیس درج ہے اور نہ کسی عدالت سے ان کو دہشت گرد یا مجرم قرار دیا گیا ہے۔ برطانوی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق مومنہ عبدولے برطانوی شہری ہیں اور ان کا آبائی تعلق صومالیہ سے ہے۔ انٹیلی جنس رپورٹوں کے مطابق ان کے شوہر عبدالقادر مومن کو داعش، صومالیہ کا کمانڈر دکھایا گیا ہے۔ ان کو 2010ء میں سویڈن سے یہ الزام عائد کرکے بغیر مقدمہ چلائے بیدخل کردیا گیا تھا کہ وہ سویڈش اور برطانوی مساجد میں بنیاد پرستی پھیلا رہے ہیں اور برطانوی سرزمین پر حملوں کیلئے مسلح جہادیوں کو ’’ریکروٹ‘‘ کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ معدودے چند غیر جانبدار برطانوی صحافیوں نے تسلیم کیا ہے کہ مومنہ عبدولے کے صومالی نژاد سویڈش شوہر عبدالقادرمومن پر داعش کمانڈرہونے، دہشت گردوں کی ریکروٹمنٹ اور برطانوی سرزمین پر حملوں کے تمام الزامات محض خبروں کی حد تک ہیں۔ واضح رہے کہ اسلامی اسکالر اور صومالی عالم دین عبدالقادر مومن سوئیڈن کی ایک مسجد میں امام رہ چکے ہیں۔ ان کو برطانوی انٹیلی جنس کی ایک معاندانہ رپورٹ پر برطانیہ اور سوئیڈن میں داعش اور الشباب کا ہائی پروفائل دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔ لیکن عدالتی کارروائی کے بغیر ہی ان کو 2010ء میں سوئیڈن سے بے دخل کردیا گیا تھا اور محض خدشات کی بنیاد پر عبدالقادر کو برطانوی سرزمین پر قدم رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس لئے عبد القادر کی اہلیہ مومنہ عبدولے نے صومالیہ میں موجود اپنے شوہر عبدالقادر مومن سے ملاقات کیلئے صومالیہ کا دورہ کیا تھا۔ وہ اپنے برطانوی پاسپورٹ پر ویزا لگوا کر قانونی طریقے سے صومالیہ کے موغادیشو ایئرپورٹ پر پہنچی تھیں۔ تاہم وہاں پہلے سے موجود برطانوی انٹیلی جنس ایم آئی سکس کے ایجنٹوں نے انہیں گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا۔ غیرقانونی گرفتاری اور بہیمانہ تشدد کئے جانے پر مومنہ نے برطانوی ہائی کورٹ سے 10 لاکھ پائونڈز ہرجانے کی ادائیگی کیلئے مقدمہ دائر کیا ہے، جس کو عدالت نے قابل سماعت قرار دیکر متعلقہ انٹیلی جنس ایجنسی اور وزارت داخلہ سے جواب طلب کرلیا ہے۔
٭٭٭٭٭