امت رپورٹ
شریف برادران کو این آر او دینے یا ڈیل کی باتیں کافی عرصے سے چل رہی ہیں۔ مختلف سیاسی و غیر سیاسی ذرائع سے پس پردہ کی جانے والی بات چیت کے نتیجے میں ان خبروں کی تصدیق ہوئی ہے کہ پالیسی سازوں اور شریف برادران کے درمیان برف پگھل رہی ہے۔ ذرائع کے بقول فی الحال اس معاملے کو این آر او یا ڈیل کے بجائے ریلیف کا نام دینا مناسب ہوگا۔ جبکہ شریف برادران کو دیئے جانے والے اس ریلیف کو حتمی ڈیل میں بدلنے کی کوششیں جاری ہیں، جس میں حکومت کچھ رکاوٹ بن رہی ہے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومتی مزاحمت بڑی کمزور ہے اور زیادہ دیر تک قائم رہتی دکھائی نہیں دے رہی۔ کیونکہ ریلیف لینے کے خواہشمندوں اور ڈیل روکنے کے آرزو مندوں، دونوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد کے بغیر سیاست کرنا ممکن نہیں، اور اس کے لئے مل کر چلنا اور تعلقات خوشگوار رکھنا ضروری ہیں۔ ذرائع کے مطابق حکومت کا ڈیلیور نہ کرنا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات نے شریف برادران کے ساتھ ڈیل کی راہ ہموار کی ہے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں ڈیل صرف شریف برادران کی خواہش ہی نہیں، بلکہ ڈیل دینے والوں کی مجبوری بھی بن چکی ہے۔ اس کے بغیر چارہ نہیں۔ ذرائع کے بقول ملکی نظام چلانے کے لئے متبادل تیار رکھنا پڑتا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ اگر مزید سال چھ مہینے بعد بھی حکومت ملک کو درست ٹریک پر ڈالنے میں ناکام رہتی ہے تو پھر اس کا متبادل کیا ہوگا؟ ذرائع کے بقول اس سوال کا جواب شریف برادران سے پس پردہ چلنے والی بات چیت ہے۔ پالیسی سازوں کو بالخصوص پنجاب کی بیڈ گورننس پر خاصی تشویش ہے۔ جہاں تنخواہیں نہ ملنے پر اب ملازمین کی جانب سے تشدد جیسے واقعات ہو رہے ہیں۔ موجودہ صورت حال برقرار رہتی ہے تو اس قسم کے واقعات بڑھ جائیں گے۔ پھر یہ کہ سب سے بڑے صوبے میں بیوروکریسی حکومت سے تعاون نہیں کر رہی ہے۔ یہ تمام باتیں پالیسی سازوں کے لئے پریشان کن ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کو اگلے چھ آٹھ ماہ میں اپنی ترجیحات ٹھیک کرنے اور اپنے وعدوں کی طرف گامزن ہونے کا کہا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مقررہ وقت میں وزیر اعظم اپنی موجودہ ٹیم کے ساتھ اہداف کو پورا کرتے ہیں یا نئی ٹیم کو لائیں گے۔ ذرائع کے مطابق حکومت کے لئے معاملات خاصے پیچیدہ ہوگئے ہیں۔ عوام تنگ آرہے ہیں۔ لانے والے بے چین ہیں اور مخالف آگ بگولا ہیں۔ جبکہ حکومت کی اپنی دیوار میں بھی دراڑیں پڑ رہی ہیں کہ اتحادی پارٹیوں نے آنکھیں دکھانا شروع کر دی ہیں۔ ذرائع کے بقول سب سے اہم معاملہ افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت ہے۔ اس تناظر میں ہی امریکہ سے معاملات کو بھی بہتر بنانا ہے۔ اور ان تمام چیزوں کے لئے ملک میں سیاسی استحکام درکار ہے۔ اسی طرح سی پیک نون لیگی حکومت کے دور میں دوڑ رہا تھا اور اب ہچکولے کھا رہا ہے۔ پنجاب کے موجودہ وزیر اعلیٰ ایک بار بھی سی پیک سے متعلق کسی پروجیکٹ کے مقام پر نہیں گئے اور نہ ہی اس حوالے سے کسی تقریب کا حصہ بنے ہیں۔ اس کے برعکس سی پیک کے حوالے سے وزیر اعلیٰ کے طور پر شہباز شریف انتہائی متحرک تھے۔ ذرائع کے مطابق بظاہر میڈیا پر فریقین کی جانب سے کوئی بھی بیانات دیئے جاتے رہیں۔ لیکن اٹھارہویں ترمیم کی متنازعہ شقوں کا خاتمہ، پالیسی سازوں کی اب بھی سب سے اولین ترجیح ہے۔ اس ترمیم کے لئے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی مدد کرنے پر تیار نہیں۔ لہٰذا سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کی متنازعہ شقوں کے خاتمے کے لئے نون لیگ کا تعاون حاصل کیا جائے۔ اس تعاون کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی ضرورت درکار نہیں ہوگی اور دو تہائی اکثریت کے لئے مطلوبہ نمبرز حاصل ہوجائیں گے۔ ذرائع کے مطابق اسی طرح فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے لئے بھی پیپلز پارٹی کو بائی پاس کرکے نون لیگ کی مدد سے دو تہائی اکثریت حاصل کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔ ذرائع کے بقول ان تمام معاملات میں نون لیگ کا تعاون شریف فیملی کو ریلیف دینے سے مشروط ہے۔ تاہم حکومت کا اصرار ہے کہ وہ ایک ڈیڑھ برس میں تمام معاملات کو بہتر بناکر ملک کو درست راستے پر ڈال دے گی، لہٰذا نون لیگ کو ریلیف دینے کی ضرورت نہیں۔ واضح رہے کہ وزیر اعظم عمران خان کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی کو این آر او نہیں دیں گے۔ تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یہ بات وزیر اعظم نے نون لیگ یا پیپلز پارٹی کی قیادت کو سنانے کے لئے نہیں کہی، بلکہ یہ پیغام ڈیل کرانے والوں کے لئے تھا۔
ذرائع کے مطابق شریف برادران کو ریلیف دینے کا معاملہ انتہائی اعلیٰ سطح پر چل رہا ہے۔ اس سے تحریک انصاف کی دوسری سطح کی قیادت واقف نہیں۔ حتیٰ کہ بعض مرکزی رہنما بھی لاعلم ہیں۔ جبکہ شیخ رشید جیسے آئوٹ سائیڈر اور پارٹی میں تازہ تازہ بھرتی ہونے والوں کو تو بالکل دور رکھا گیا ہے۔ ان سب لوگوں کو اس کی سن گن ضرور ہے۔ تاہم تفصیلات کا علم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ رشید اب اس نوعیت کی متوقع ڈیل پر کھل کر خیال آرائی کر رہے ہیں اور ان کا اصرار بڑھتا جا رہا ہے کہ اندرون خانہ پکنے والی اس کھچڑی سے عوام کو آگاہ کیا جائے۔ ذرائع نے وزیر ریلوے کے اس بدلتے رویے کے اسباب بیان کرتے ہوئے بتایا کہ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کے لئے شیخ رشید اب بوجھ بن گئے ہیں اور انہیں ایک ’’پرابلم چائلڈ‘‘ کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ لہٰذا پارٹی کے اہم فیصلوں اور منصوبہ بندی سے انہیں دور کردیا گیا ہے اور یہ چیز شیخ رشید کو پسند نہیں آرہی۔
ماضی میں سیاسی ڈیلز میں مختلف کردار ادا کرنے والے ایک ذریعے نے بتایا کہ اگر نون لیگ کے ساتھ حتمی ڈیل ہوجاتی ہے تو شریف برادران کے لئے بیرون ملک جانا ضروری نہیں ہوگا۔ ڈیل کے نتیجے میں نواز شریف جاتی امرا میں ہی قیام کریں گے۔ لیکن ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نام پر انہوں نے محاذ آرائی کا جو بیانیہ اختیار کیا تھا، وہ تبدیل ہوجائے گا۔ حکومت پر تنقید جاری رہے گی۔ لیکن حکومت گرانے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔ ذریعے نے بعض لیگی رہنمائوں کے اس بیانیہ کو مضحکہ خیز قرار دیا، جس میں وہ کہتے ہیں کہ اگر نواز شریف نے ڈیل کرنی ہوتی تو واپس پاکستان کیوں آتے اور جیل کیوں کاٹتے۔ ذریعے کا کہنا تھا کہ یہ درست ہے کہ اس وقت خود پالیسی ساز ڈیل کے سخت خواہشمند تھے، جس کے تحت نواز شریف کو ملک سے باہر رہنے کی پیشکش کی جارہی تھی۔ لیکن نواز شریف نے ڈیل نہ کرکے ایک چانس لیا تھا اور انہیں امید تھی کہ واپسی سے انہیں سیاسی فائدہ ہوگا اور کم ازکم پنجاب ان کے ہاتھ سے نہیں نکلے گا۔ تاہم یہ امید پوری نہیں ہوئی اور حالات اس کے برخلاف رہے، لہٰذا نواز شریف کے خیالات میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ پس پردہ ڈیل کی کوششوں کے حوالے سے ذریعے کا کہنا تھا کہ اگر حتمی سمجھوتہ طے پا گیا تو اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں ہوگی۔ نواز شریف وہ واحد سیاستدان ہیں جو سب سے طویل عرصے تک ’’لاڈلے‘‘ رہے ہیں۔ تو وہ دوبارہ ’’لاڈلا ‘‘ کیوں نہیں بن سکتے؟ پی ٹی آئی قیادت کو یہی پریشانی ہے کہ کہیں بالا ہی بالا نواز شریف دوبارہ ’’لاڈلے‘‘ نہ بن جائیں۔ ذریعے نے تصدیق کی کہ جہاں موجودہ حالات نے شریف برادران کو ریلیف دلانے کی راہ ہموار کی ہے۔ وہاں اس حوالے سے کچھ دیگر کردار بھی متحرک ہیں۔ ان میں ترکی بھی شامل ہے۔ ترکی کی قیادت کو مدد کے لئے شریف برادران کی جانب سے پیغام بھیجا گیا تھا اور بعد ازاں خود ترک صدر طیب رجب اردگان نے اس حوالے سے پاکستانی اعلیٰ حکام کے ساتھ بات کی۔
ادھر ذرائع کا کہنا ہے کہ جس سطح پر نون لیگ کے ساتھ ڈیل کے معاملات ہورہے ہیں۔ فی الحال پیپلز پارٹی کو اب تک اس سطح کا ایڈوانٹیج نہیں ملا ہے۔ تاہم افغانستان کو لے کر خطے میں بننے والے متوقع سیناریو کے سبب چونکہ ملک میں سیاسی استحکام درکار ہے۔ لہٰذا آصف زرداری کی فوری گرفتاری کا معاملہ پس پشت ڈال دیا گیا ہے اور سندھ میں حکومت کی تبدیلی کی کوششیں بھی ترک کی جاچکی ہیں۔ اس سے پیپلز پارٹی کی قیادت خاصا ریلیف محسوس کر رہی ہے اور اسے امید ہے کہ باقی معاملات بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید بہتر ہوجائیں گے۔ ان توقعات کا اظہار پی پی کے اہم رہنما نے کیا ہے، جنہیں آصف زرداری کے کافی قریب سمجھا جاتا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ پی ٹی آئی قیادت کو سندھ میں مہم جوئی سے باقاعدہ روک دیا گیا ہے۔ کیونکہ پالیسی ساز سمجھتے ہیں کہ اگر سندھ میں ان ہائوس تبدیلی لائی جاتی ہے تو اس کے ردعمل میں پیپلز پارٹی سندھ کارڈ استعمال کرتے ہوئے نہ صرف پارلیمنٹ سے باہر احتجاج کرے گی۔ بلکہ مرکز اور پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت گرانے کے لئے تمام وسائل اور قوتیں صرف کردے گی۔ اس تناظر میں فی الحال سندھ میں مہم جوئی کا پلان ایک طرف رکھ دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس فیصلے کی تبدیلی نے بالخصوص گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی قیادت کو مایوس کردیا ہے اور وہ سر پکڑے بیٹھی ہے۔ جی ڈی اے کے ایک اہم رہنما نے بتایا کہ اگر دوبارہ اس قسم کا کوئی پلان بنتا بھی ہے تو الائنس اس کا حصہ نہیں ہوگا۔ رہنما کا شکوہ تھا کہ 25 جولائی کے الیکشن کے بعد دوسری بار ان کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے۔
٭٭٭٭٭
Next Post