سرفروش

0

عباس ثاقب
سکھبیر کچھ دیر تک جیسے خواب کی سی کیفیت میں رہا۔ پھر اس نے ایک بار پھر شک بھرے لہجے میں پوچھا۔ ’’کیا تم سچ کہہ رہے ہو؟ یہ کارروائی واقعی تم لوگوں نے کی تھی؟‘‘۔
میں نے پہلی بار مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں بھائی… ہم نے نہ صرف دونوں لڑکیاں ان بے غیرتوں کے چنگل سے چھڑالی ہیں، بلکہ انعام کے طور پر کافی بھاری مال اور دو بندوقیں بھی ہمارے ہاتھ لگی ہیں۔ ہمیں پتا ہے پورے پنجاب میں ہماری اور اس جیپ کی تلاش جاری ہے، جس میں ہم اس کارروائی کے بعد ان دونوں لڑکیوں کو وہاں سے نکال کر لائے تھے۔ وہ جیپ ہم نے ایک محفوظ جگہ چھپا رکھی ہے‘‘۔
مجھے خدشہ ہوا کہ کہیں وہ ایک بار پھر یہ کہہ کر میرے دعوے کو مشکوک قرار نہ دیدے کہ یہ تمام اطلاعات تو خفیہ پولیس کے ہر اہلکار کے پاس پہنچ چکی ہیں۔ چنانچہ میں اس کے مزید کچھ کہنے سے پہلے ہی بول پڑا۔ ’’ہم ان شاء اللہ بہت جلد پنجاب کی دھرتی کو مٹھو سنگھ کے بوجھ سے آزاد کر دیں گے۔ امید ہے اس کے بعد تمہیں میری بات پر یقین آجائے گا‘‘۔
سکھبیر نے ایک نظر ڈاکٹر چوہان پر ڈالی، جو واضح طور پر ہیجان اور جوش کے ملے جلے جذبات کا شکار دکھائی دے رہا تھا اور کچھ دیر شش و پنج میں گرفتار رہنے کے بعد قدرے نرم لہجے میں بولا۔ ’’مٹھو سنگھ ہمارا بھی کٹر دشمن ہے، کیونکہ وہ پنجاب میں کانگریس کے سب سے طاقت ور ایجنٹوں میں سے ایک ہے۔ اس کے اس گندے دھندے کے بارے میں ہمیں بھی اڑتی اڑتی خبر ملی تھی، لیکن تصدیق کا موقع نہیں ملا۔ تم نے جو کچھ بتایا، اس کی روشنی میں تو یہ شخص واقعی فوراً نرکھ میں پہنچانے کا حق دار ہے۔ کیونکہ وہ ہمارے سوہنے پنجاب اور سکھوں جیسی غیرت مند قوم کی پیشانی پر شرم ناک داغ ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’ہم نے اس کو ٹھکانے لگانے کے لیے تیاری کر رکھی ہے۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یہ ہر جمعرات کو اپنے انتخابی حلقے میں دربار لگاتا ہے۔ ہم اسی موقع پر اسے گولیوں سے چھلنی کر دیں گے‘‘۔
سکھبیر نے چونک کر کہا۔ ’’جمعرات تو کل ہے!‘‘۔ پھر کچھ سوچ کر اس نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ ’’اس کی جاگیر اور حویلی پنڈوری گولا میں ہے ناں؟ ٹھیک ہے، کل تم میرے ساتھ وہاں چلو گے اور میری نظروں کے سامنے اسے گولیوں سے اڑاؤ گے۔ اس طرح تم ہر طرح کے شک و شبہے سے بالاتر ہوجاؤ گے اور ہم آنکھیں بند کر کے تمہاری ہر بات پر یقین کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ بولو منظور ہے؟ فکر نہ کرنا، میں اور میرے ساتھی تمہیں مکمل تحفظ دیں گے۔ بس پستول تمہیں عین موقع پر ملے گا‘‘۔
میں نے اس کی بات سن کر بے ساختہ قہقہہ لگایا اور خوش گوار لہجے میں کہا۔ ’’یار سکھبیر، تم واقعی بہت پہنچی ہوئی چیز ہو۔ اگر میں واقعی سرکاری جاسوس ہوتا تو تمہارے شکنجے میں ضرور پھنس جاتا۔ بہرحال، مجھے اس آزمائش پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بلکہ خوشی ہے کہ مجھے اتنی جلدی اس فریضے کو ادا کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ اب یہ بتاؤ کہ ترن تارن اور مٹھو سنگھ کا گاؤں…‘‘۔
سکھبیر نے فوراً ’’پنڈوری گولا‘‘ کہہ کر میری بات میں جوڑ لگایا۔ میں نے بات آگے بڑھائی۔ ’’یہاں سے وہاں کا کتنا فاصلہ ہے اور ہم کتنے لوگ وہاں جائیں گے؟‘‘۔
سکھبیر نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’یار تم تو واقعی چھاپا مار لڑاکوں کی طرح بات کرتے ہو۔ اگر تم وہی نکلے، جو تم دعویٰ کرتے ہو، تو واہگرو کی سوگند، تم سے خوب جمے گی‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’یار سکھبیر، تم اتنی آسانی سے ماننے والے کہاں ہو؟ مجھے تو ڈر ہے کہ اس غریب مٹھو سنگھ کے بلیدان کے بعد بھی تم کسی نئی آزمائش کی فرمائش کر دو گے‘‘۔
میری بات سن کر اس نے قہقہہ لگایا۔ اس دوران میں اس نے میرا ریوالور ضرور جھکالیا تھا۔ لیکن مجھے پتا تھا کہ میرے پیچھے کھڑے شیر دل کے پستول کا رخ بدستور میری کھوپڑی کی طرف ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ مجھے اس کی ذرہ برابر پروا نہیں تھی۔ کیونکہ میں مزاحمت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا۔ خصوصاً ایسی صورت میں کہ میری حتمی آزمائش کے لیے سکھبیر کی فرمائش میری خواہش کے عین مطابق تھی اور وہ مجھے مٹھو سنگھ کے خاتمے کی خطرناک کارروائی کے دوران مجھے مکمل تحفظ دینے کا یقین دلارہا تھا۔
تبھی سکھبیر کو یاد آیا کہ میں نے اس سے ایک سوال کیا تھا۔ اس نے کہا۔ ’’ترن تارن یہاں سے سترہ اٹھارہ میل کے فاصلے پر ہے۔ پنڈوری گولا وہاں سے تین ایک میل آگے ہے۔ ہم جیپ میں ایک گھنٹے کے اندر وہاں پہنچ سکتے ہیں۔ ہم تین بندے تمہارے ساتھ ہوں گے، لیکن اصل کام تم کو ہی کرنا ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’ہاں، اور یہ تو میں سمجھ ہی سکتا ہوں کہ اس دوران میں مسلسل تم لوگوں کے نشانے پر رہوں گا‘‘۔
سکھبیر نے ڈھٹائی سے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’یار کچھ بھی ہو، تم بندے سمجھ دار ہو۔ اچھا یہ بتاؤ تم کس ہتھیار سے کام نمٹاؤ گے؟ میری مانو تو دو نالی شاٹ گن استعمال کرنا، تاکہ نشانہ خطا ہونے کا خطرہ ہی نہ رہے‘‘۔
میں نے نفی میں سر ہلاکر کہا۔ ’’یہ ٹھیک ہے کہ شاٹ گن کے فائر سے اس کے تھوبڑے کے چیتھڑے اڑا کر مجھے بہت خوشی ہوگی۔ لیکن اس طرح اس کے آس پاس موجود بے قصور لوگ بھی چھرّوں کی زد میں آکر زخمی ہو سکتے ہیں۔ میں پستول کا میگزین اس کی چھاتی پر خالی کرنا چاہتا ہوں‘‘۔
اس نے میری بات سنی تو اس کے چہرے پر تشویش ابھری۔ ’’لیکن اس کے لیے تو تمہیں اس کے بالکل سامنے جاکر قریب سے گولیاں چلانی پڑیں گی۔ وہاں اس کے گارڈز اور کم ازکم ایک پولیس کانسٹیبل بھی موجود ہوگا۔ یہ تو بہت خطرناک ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’بھائی، کسی بھی بڑے مقصد کے لیے خطرہ تو مول لینا پڑتا ہے۔ تم فکر نہ کرو، میں اس کے گارڈز اور سنتری سے بھی نمٹ لوں گا‘‘۔
اس نے قدرے تشویش کے ساتھ کہا۔ ’’تم گارڈز وغیرہ کا کیا کرو گے؟ کیا انہیں بھی گولی مار دو گے؟‘‘۔
میں نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’نہیں، میں نے بتایا ناں، میں کسی بھی غیر متعلقہ شخص کے خون سے ہاتھ نہیں رنگنا چاہتا۔ یہ میں موقع پر طے کروں گا کہ اس حوالے سے کیا حکمتِ عملی اختیار کرنی ہے۔ بس تم لوگ میرے پستول سے پہلی گولی چلتے ہی ہوائی فائرنگ شروع کر دینا، تاکہ وہاں افراتفری پھیل جائے اور اسے بچانے کے لیے کوئی بھی مؤثر کارروائی نہ کر سکے۔ ہو سکتا ہے گولیوں کی اندھا دھند بارش سے بوکھلا کر سارے گارڈز اور سنتری وغیرہ بھاگ نکلیں‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More