نذر الاسلام چودھری
امریکی فوجی جج کیپٹن آرون رگ نے 15 برس کے افغان بچے کو داعش کا دہشت گرد قرار دیکر ذبح کرنے کے مجرم امریکی نیوی سیل کو بے گناہ قرار دے دیا ہے۔ جبکہ اسی عدالت میں متعدد عراقی شہریوں کے قتل میں ملوث 7 سفاک نیوی سیلز کو بھی بیک جنبش قلم مقدمہ سے بری کر دیا گیا ہے۔ امریکی جریدے سان ڈیاگو ٹریبون کے مطابق یو ایس نیوی سیل/ کمانڈوز ایڈورڈ گیلا گر اس وقت اگرچہ جیل میں قید سنگین جرائم/ کورٹ مارشل مقدمات میں ماخوذ ہے۔ لیکن امریکی ملٹری جج آرون رگ کی جانب سے دو سنگین مقدمات میں اسے کلین چٹ دے دی گئی ہے، جس سے اس کی رہائی میں کافی اُمید پیدا ہوگئی ہے جسے سند بے گناہی کے اجرا کے باوجود اس وقت بھی 15 سالہ افغان بچے کے قتل کے مقدمہ میں جیل میں قید رکھا جائے گا۔ امریکی کمانڈوز کے بارے میں خود امریکی فوجی کمانڈ مقیم افغانستان نے بتایا تھا کہ وہ تعیناتی کے دوران ببانگ دہل یہ اعلان کرتا تھا کہ اس نے اب تک کمانڈوز بن کر عراقی شہروں میں 200 سے زیادہ دہشت گردوں کو قتل کیا اور مزید کو بھی قتل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ امریکی اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم نے امریکی کمانڈو ایڈورڈ کا موبائل فون اور اس کا خاص ہتھیار فوجی خنجر بھی بر آمد کیا ہے اور فون میں موجود ویڈیوز اور تصاویر سے اس کیخلاف کیس مضبوط ہوا ہے جبکہ خنجر کا DNAاس کیخلاف ثبوت بن چکا ہے۔ عراق میں اس قاتل فوجی کمانڈونے دریا سے پانی بھرنے والے ایک بوڑھے عراقی اور ایک چھوٹی بچی کو گولی مار کر شہید کردیا تھا، اور دعویٰ کیا تھا کہ عورت کو گولی مارنا ٹھیک ہے اور اگر کسی کمانڈو/ نیوی سیل نے اس قاتلانہ کارروائی کے بارے میں کچھ بتایا تو اس کو ہلاک کردیا جائے گا۔ اسی کیس میں ایک امریکی فوجی گواہ جو نیوی سیل کمانڈو ہے، نے ایڈورڈ کے بارے میں قرار دیا کہ وہ سفاک اور خون کا پیاسا ہے۔ اسی کیس میں امریکی فوج کے ایک اور سینئر کمانڈو افسر/ چیف پیٹی آفیسر لیفٹیننٹ جیکب پورٹائر کیخلاف حقائق کو چھپانے اور سفاکی کو رپورٹ نہ کرنے کی پاداش میں الگ سے مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ امریکی فوجی جج نے سفاک امریکی کمانڈو ایڈورڈ گیلاگر کو جاری کی جانے والی ’’سند بے گناہی‘‘ میں اس کو افغان بچے کے اعضا کاٹنے اور ان کے نمائش کرنے سمیت اس کی لاش کے پاس بڑھکیں مارنے اور عسکری ڈرون کی مدد سے اس کی ویڈیو گرافی کرنے کے تمام معاملات سے بری کر دیا ہے۔ اب صرف واحد کیس میں اس کیخلاف اس افغان بچے کو داعش کا دہشت گرد قرار دیکر ’’منصوبہ بند قتل‘‘ کا کیس باقی بچا ہے، جس کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ امریکی فوجی جج اس کیس سے بھی اس سفاک امریکی کمانڈوز کو اس لئے بری کر دے گا کہ خنجروں کے وار سے ذبح اور جاں بحق کیا جانے والا پندرہ سالہ افغان نوجوان داعش کا ایک دہشت گرد تھا۔ واضح رہے امریکی عدالتی کارروائی کا حصہ بنائی جانے والی تحریر ی دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ یو ایس نیوی سیل ایڈورڈگیلاگر اس وقت بھی کیلی فورنیا کی ایک عسکری جیل میں قید ہے اور اس کیخلاف افغان بچے کے منصوبہ بند قتل اور خنجروں کے پے در پے وار کرنے کے مقدمہ کی 19 ویں سماعت رواں ماہ فروری میں ہو رہی ہے اور اس کیس میں عینی شاہدین قرار پانے والے اس کے ساتھی سات امریکی نیوی سیلز کمانڈوز کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ گواہی دینے کیلئے نہ چاہیں تو نہ آئیں۔ واضح رہے کہ یہ وہی سات نیوی سیلز کمانڈوز ہیں جن کو عراق میں تعیناتی کے دوران متعدد عراقی شہریوں کے قتل کی وارداتیں انجام دینے کی پاداش میں کورٹ مارشل کیلئے گرفتار کیا گیا تھا، لیکن یو ایس ملٹری جج آرون رگ نے ان تمام کمانڈوز کو رہا کرنے کے احکامات دیئے ہیں۔ غیرجانبدار تجزیہ نگاروں کے مطابق سات عینی شاہدین کمانڈوز کو کیس کے گواہوں کی حیثیت میں آنے کا پابند نہ کرنے کا واضح مقصد یہی ہے کہ امریکی سفاک قاتل کمانڈو ایڈورڈ گیلاگر کی بریت کو یقینی بنایا جائے۔ کورٹ پیپرز میں بتایا گیا ہے کہ اس کیس میں 13 گواہوں کی فہرست پیش کی گئی ہے جو 19 فروری کو اس کیس میں گواہی دیں گے۔ واضح رہے کہ قاتل کمانڈوز کیخلاف25 جنوری کی سماعت میں گواہوں نے گواہی دی ہے کہ ایڈورڈگیلاگر نے ان کو بتایا ہے کہ اس نے صرف عراق کی فوجی تعیناتی کے عرصہ میں 200 عراقیوں کو قتل کیا ہے۔ ادھر ڈیلی میل کی جانب سے اس پورے قضیہ کے بارے میں یہ نہیں بتایا ہے کہ اب تک امریکی پراسکیوٹرز نے یہ بات کیوں ظاہرنہیں کی ہے کہ یہ سانحہ کہاں رونما ہوا ہے اور داعش کا دہشت گرد قرار دے کر بے دردی سے قتل کیا جانے والا پندرہ سالہ افغان بچہ کون تھا۔ البتہ امریکی جریدے ملٹری ٹائمز نے یہ ضرور بتایا ہے کہ امریکی نیوی سیل کمانڈو ایڈورڈ نے پندرہ سالہ افغان کو 2017ء میں قتل کیا تھا۔ اس سلسلہ میں امریکی جریدے نے مزید بتایا ہے کہ نیوی سیل کمانڈو کے بطور عراق اور افغانستان میں 14 برس تک (قاتلانہ) خدمات انجام دینے والا ایڈورڈ گیلاگر بہت زیادہ تجربہ کار فوجی کمانڈو ہے اور حالیہ ایام میں اس قاتل فوجی کمانڈو کے بھائی نے امریکی میڈیا پر انٹرویوز کی شکل میں ایڈورڈ کی رہائی کیلئے کام شروع کردیا تھا اور فاکس نیوز نے گزشتہ ماہ اس قاتل و سفاک کمانڈو کی رہائی کیلئے اس کے بھائی کا انٹرویو نشر کیا تھا جس میں اپنے بھائی کو بے گناہ قرار دیا تھا۔ حالانکہ امریکی ملٹری کی تحقیقات میں یہ بات پایہ تحقیق کو پہنچ چکی تھی کہ نیوی سیل کمانڈوز نے اپنے سماجی رابطوں کی سائٹس پر نا صرف مقتول افغان بچے کے اعضا کاٹ کر اپنے جسم پر بطور ٹرافی لٹکا کر تصاویر کھنچوائی تھیں بلکہ ان کو ساتھی کمانڈوز سے شیئر بھی کیا تھا۔ جبکہ اس افغان بچے کو ذبح کرنے کے بعد اس امریکی کمانڈوز ایڈورڈ گیلاگر ‘‘نے اس کی لاش کے پاس کھڑے ہوکر بڑھکیں ماری تھی اور متعدد افغانوں کو قتل کرنے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔ امریکی فوجی عدالت کے روبرو اس امریکی قاتل کمانڈو کے بارے میں مزید بتایا گیا ہے کہ اس نے افغانستان اور عراق دونوں ممالک میں تعیناتی کے دوران دور پار کھڑے اور کاموں کو جارہے غیرمسلح شہریو ں کو بلا وجہ نشانہ بنانے کیلئے اپنی اسنائپررائفل سے بھی فائر کئے تھے۔ اس سلسلہ میں بلا اشتعال اسنائپر رائفل کی فائرنگ کی تصدیق اس امریکی سفاک قاتل کمانڈو کے ساتھیوں نے اعلیٰ قیادت کو کی تھی جس کو ریکارڈ کا حصہ بنا لیا گیا تھا۔ امریکی میڈیا کے مطابق امریکی نیوی سیل کمانڈوز ایڈورڈ پر یہ بھی الزام ثابت ہے کہ اس نے داعش کا دہشت گرد قرار دیئے جانے والے پندرہ سالہ افغان بچے کو پکڑ کر اس کی گردن اور سینے پر خنجر سے وار کئے اور بچے کے شدید زخمی ہونے پر بھی اس سفاک امریکی کمانڈو کا دل ٹھنڈا نہیں ہوا اور اس نے دیگر نیوی سیلز کمانڈوز کی حراست میں طبی امداد پانے والے اس بچے کو دوسری جانب سے آکر پھر خنجروں کے متعدد واروں کا نشانہ بنایا جس سے یہ بچہ تڑپ تڑپ کر جاں بحق ہوگیا۔ امریکی تحقیق کاروں کی رپورٹوں کے مطابق جب یہ بچہ شدید زخموں سے جاں بر نہ ہوسکا تو اس امریکی نیوی سیل کمانڈو نے بڑھکیں مارنا شروع کردیں اور اس پورے منظر کو اپنے پاس موجودامریکی فوج کے اسپیشل کیمرہ ڈرون کی مدد سے آسمان سے فلم بند بھی کیا تھا تاکہ امریکی دوستوں کے سامنے خود کو بہادر فوجی قرار دیا جاسکے۔
٭٭٭٭٭
Next Post