احمد خلیل جازم
بھیرہ میں امتیاز احمد سب سے پہلے محلہ پراچگان لے گئے۔ اس محلے میں ایک قدیم مسجد موجود ہے، جس کا نام مسجد حافظانی ہے۔ یہ میراں شاہ دربارکے قریب ہے۔ امتیاز کا اس مسجد کے نام کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’’ایک وقت تھا کہ اس مسجد سے اکثر طالبعلم حافظ بن کر نکلتے اور دیگر شہروں میں دین کی خدمت کرنے جایا کرتے تھے۔ اگرچہ اس مسجد کے بارے میں بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ بھی شیر شاہ سوری نے بنوائی تھی اور بعض لوگ اسے اورنگ زیب عالمگیر سے بھی منسوب کرتے ہیں، لیکن بعض مقامی لوگوں اور محققین کے مطابق ان باتوں میں حقیقت نہیں، بلکہ یہ مسجد اکبر بادشاہ نے بنوائی تھی۔ المیہ یہ ہے کہ اب یہ اصل حالت میں نہیں ہے اور اس کی تعمیرِ نو کرتے ہوئے اس ورثے کی حفاظت کا خیال نہیں رکھا گیا۔ اب اسے جدید طرز پر بنا دیا گیا ہے، لیکن اس پر سنگ مرمر اصل عمارت کے اوپر ہی لگایا گیا ہے۔ جبکہ اس کے دروازوں پر بھی شیشے حال ہی میں لگا کر اس کے حسن کو جدت کا تڑکہ لگا کر ورثہ ختم کر دیا گیا ہے‘‘۔ مسجد کا بیرونی دروازہ قدیم حالت میں موجود تھا، لیکن خاص بات یہ تھی کہ اس کے نیچے ایک سرنگ تھی، جو بعض لوگوں کے بقول جامع مسجد بھیرہ تک جاتی تھی۔ لیکن اب وہ ختم ہوتے ہوتے فقط مسجد کے نیچے تک ہی رہ گئی ہے۔
مسجد حافظانی کے حوالے سے مختلف اوقات میں تحقیق ہوتی رہی اور اکثر محقق اس بات پرمتفق ہیں کہ یہ مسجد اکبر بادشاہ کے دور میں بنائی گی۔ امتیاز احمد نے بتایا ’’بھیرہ میں مغل بادشاہوں کی آمدورفت جاری رہی۔ (کتاب تاریخ بھیرہ کے مطابق ’مغلوں نے بھیرہ پر نو حملے کیے۔ پہلا حملہ جلال الدین خوارزم شاہ نے کیا)۔ اسی دوران اکبر بادشاہ نے بھیرہ میں دربار لگایا۔ یہاں ایک تالاب تھا، جسے آج تک ’خونی چھپڑی‘ (چھپڑی مطلب تالاب) کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اکبر نے اسے سونے اور چاندی کے سکوں سے بھر دیا تھا۔ یہ سکے اکبر نے خیرات کئے تھے۔ برسوں لوگ اس تالاب میں سکے تلاش کرنے کے لیے اترتے رہے اور اپنی جان گنواتے رہے۔ اسی لیے اسے خونی چھپڑی کا نام دیا گیا۔ اکبر بادشاہ نے محلہ پراچگان میں اسی دور میں یہ مسجد بھی تعمیر کرائی اور یہاں مسجد کی خدمت جن لوگوں کو دی گئی، ان کی نسل سے ایک شخص حافظ صاحب عبدالرحمان قیام پاکستان تک مسجد کی خدمت پر مامور رہے۔ یہ روایت بھی بڑی مضبوط ہے کہ انہی حافظ صاحب کے جد امجد کو اکبر بادشاہ نے ایک قافلے کے ساتھ حج پر بھی روانہ کیا تھا‘‘۔ کیا یہ روایت سینہ بہ سینہ موجود ہے کہ یہ مسجد اکبر بادشاہ نے بنوائی تھی؟ تو ان کا بتانا تھا کہ ’’سینہ بہ سینہ بھی موجود ہے اور میں نے غالباً یحییٰ امجد کی کتاب ’’تاریخ پاکستان وسطی عہد‘‘ میں بھی اس حوالے سے پڑھا تھا کہ اکبر بادشاہ نے ہی اس مسجد کی تعمیر کرائی تھی‘‘۔ مسجد اگرچہ اتنی بڑی نہیں، لیکن تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کے اندرونی فرش پر سیاہی مائل سنگ مرمر لگایا گیا ہے۔ جبکہ مسجد کے اندر کمروں کی بیرونی دیواروں پر گہری نیلی ٹائلیں لگی ہیں۔
مسجد حافظانی کے بارے میں معلوم ہوا کہ یہ آج سے پندرہ بیس برس قبل اپنی اصل حالت میں موجود تھی۔ اس وقت اگرچہ یہ پرانی تھی، لیکن اس کا حسن دیکھنے کے قابل تھا۔ مسجد کا ایک بڑا گنبد ہے اور دو چھوٹے مینار ہیں۔ ایک بڑا اندرونی دروازہ ہے۔ جس کے ساتھ دو چھوٹے دروازے بھی ہیں۔ تینوں دروازوں پر شیشے لگا دئیے گئے ہیں۔ مسجد کی اندرونی دیواروں پر سفید ٹائلیں لگائی گئی ہیں۔ مسجد کے اندر بعض ایسے نشان ملتے ہیں جس سے اس کی عمر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جیسے اندرونی کمرے میں دونوں اطراف گنبد کے ساتھ والی دیواروں کی تعمیر میں ایک حسن موجود ہے۔ اس سمت کی چھت محرابی طرز کی دکھائی دیتی ہے جو اصل میں محرابی نہیں ہے۔ جو اہم بات ہے، وہ اس مسجد کے بیرونی دروازے کے ساتھ نیچے اترتی سیڑھیاں ہیں، جو ایک ایسی سرنگ میں داخل ہوتی ہیں جو بقول بھیرہ کے لوگوںکے ’یہ سرنگ جامع مسجد تک جاتی تھی‘۔ اس حوالے سے امتیاز کا کہنا تھا کہ ’’دراصل بھیرہ کو ابراہیم لودھی کے زمانے میں دو پٹھان حکمرانوں نے تاراج کر ڈالا تھا۔ موجودہ بھیرہ شیر شاہ سوری نے بسایا تھا۔ بعد میں مغلوں کے ادوار میں تعمیرات ہوئیں۔ اس وقت شہر سے نیچے سرنگیں حفاظت کی غرض سے بنائی جاتی تھیں۔ یہ سرنگ بھی اسی غرض سے بنائی گئی تھی۔ بعد میں جوں جوں وقت گزرتا گیا تعمیرات ہوتی گئیں تو یہ سرنگ ختم ہوتے ہوتے فقط مسجد کے نیچے ہی رہ گئی۔ بھیرہ میں صرف یہی ایک سرنگ نہیں، بلکہ کئی گھروں کے نیچے اکثر سرنگیں اب بھی موجود ہیں۔ انہیں ہندو ’بھورا‘ کہتے تھے۔ چونکہ رنجیت سنگھ کے دور میں اور اس سے قبل بھی بھیرہ میں کشت و خون ہوتا رہا، اس لیے لوگ نیچے سرنگوں کے ذریعے خود کو بچاتے ہوئے نکل جاتے تھے‘‘۔ مسجد حافظانی کے نیچے چھوٹی اور تنگ سی سیڑھیاں اتر کر سرنگ دیکھی، جہاں کافی اندھیرا تھا۔ یہ سرنگ مسجد جتنی ہی لمبائی رکھتی تھی اور آگے جاکر معلوم ہوتا تھا کہ اسے بند کیا گیا ہے۔ اس کے دونوں اطراف محرابی طرز کے کمرے بنے تھے۔ نیچے کافی اندھیرا تھا اور روشنی کا خاطر خواہ انتظام نہیں تھا۔ لیکن سرد موسم میں یہ گرمی کا احساس دلارہی تھی۔ اسی طرح گرمیوں میں یہ خاصی ٹھنڈی ہوتی ہے۔
بھیرہ میں ہی ایک اور مسجد بھی دیکھی، جو اپنے طرز تعمیر کے حوالے سے منفرد ہے۔ اسے شیخاں والی مسجد کہا جاتا ہے۔ یہ تین گنبدوں پر مشتمل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسے شاہجہان کے دور میں پہلی مرتبہ بنایا گیا۔ بعد میں شیخ غلام حسن کمبوہ نے اسے 1860ء میں دوبارہ انہیں بنیادوں پر تعمیر کرایا۔ یہ محلہ شیخاں والا میں واقع ہے اور اس کا نام بھی مسجد شیخاں والی ہے۔ امتیاز احمد کا کہنا تھا کہ ’’شیخ غلام حسن بھیرہ کے رئیس تھے۔ چونکہ بھیرہ میں زیادہ تر ہندو رہتے تھے، صرف تین محلے ایسے تھے جہاں مسلمان تعداد میں زیادہ تھے، جن میں ایک محلہ شیخاں والا بھی تھا۔ باقی یہاں ہندو چوپڑہ اور سانی زیادہ تعداد میں تھے۔ حالیہ محلہ شیخاں والا میں رہنے والے تمام شیخ دولت مند تھے۔ شیخ غلام حسن کمبوہ نے جب یہ مسجد تعمیر کرائی تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ یہاں خطیب ایسا ہونا چاہیے جو مستند عالم دین ہو۔ چنانچہ وہ اسی سلسلے میں بگہ گائوں گئے اور وہاں سے احمدالدین بگوی کو مسجد میں بطور خطیب لے کر آئے۔ اس وقت احمدالدین بگوی نے مولانا شاہ عبدالعزیزؒ محدث دہلوی سے سند و دستار حاصل کی تھی۔ احمدالدین بگوی شام کو عصر کی نماز کے بعد جرنیلی سڑک پر سیر کرتے اور شیر شاہی مسجد کی خستہ حالی دیکھتے۔ چنانچہ وہیں سے انہوں نے وہ مسجد واگزار کرنے کی ٹھانی اور باقی تفصیل آپ جان ہی چکے ہیں‘‘۔ شیخاں والی مسجد اس وقت بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ یہ بھی چھوٹی مسجد ہے، لیکن اس کے تین گنبد اور دو مینار ہیں۔ اس پر سفید چونے سے رنگ کیا گیا ہے اور یہ مضبوط پتھروں سے تعمیر کی گئی ہے۔ عام گھروں سے خاصی اونچائی پر واقع ہے اور ہمیں اس کے بیرونی دروازے تک جانے کے لیے سیڑھیوں کا سہارا لینا پڑا۔ مسجد کے بیرونی دروازے کے اوپر اس کے تعمیر کرنے والے کے نام کی تختی لگی ہوئی ہے اور فارسی تحریر ہے۔ جبکہ مسجد کے بیرونی دروازے سے جیسے ہی مسجد میں داخل ہوں تو سامنے مسجد کی پرشکوہ عمارت دکھائی دیتی ہے۔ محلہ شیخاں والا جڑے ہوئے قدیم گھروں پر مشتمل ہے اور اس میں داخل ہوتے وقت احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہاں اس قدر شاندار مسجد بھی موجود ہوگی۔ مسجد پر سفید رنگ کیا گیا ہے اور دروازوں، محرابوںکے اردگرد سبز رنگ کرکے انہیں نمایاں کیا گیا ہے۔ مسجد کا وضو خانہ بھی اسی طرح قدیم ہے۔ صرف پانی کی ٹوٹیاں جدید دور کی دکھائی دیتی ہیں۔ یہاں روشنی کے لیے دیوار میں چراغ رکھنے کی جگہ بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ مسجد کے دائیں جانب خطیب کے رہنے کا قدیم کمرہ موجود ہے۔ خادم مسجد نے جب خطیب صاحب کو کمرہ دیکھنے کے لیے فون کیا تو وہ اس وقت نزدیک موجود نہیں تھے، اس لیے کمرہ دیکھنے سے محروم رہے۔ لیکن کمرے کو مسجد سے باہر آکر بیرونی دیوار سے دیکھیں تو اس کی قدیم کھڑکی اونچائی سے ہی دکھائی دے جاتی ہے۔ مسجد کے اندر تین محراب بنائے گئے ہیں۔ مرکزی محراب کے دائیں بائیں جو محراب ہیں، ان میں رمضان المبارک کے مہینے میں معتکف بیٹھتے ہیں۔ اندونی حصہ قدیم طرز تعمیرکا شاہکار ہے۔ سادہ لیکن انتہائی خوبصورت اور پرشکوہ اندرونی حصے میں ایک عجب سکون اور اطمینان محسوس ہوا۔ مسجدکے صحن کو سیمنٹ سے پختہ کیا گیا ہے، اور اس کے بیرونی دروازے کے اردگرد دو چھوٹے اسٹور نما کمرے ہیں۔ مسجد میں ایک قدیم تختی لگی ہوئی ہے، جس پر عربی یا فارسی تحریر ایسے رسم الخط میں ہے جو خوبصورت تو دکھائی دیتا ہے، لیکن اسے پڑھنے کے لیے کسی ماہر کتبہ نویس کی ضرورت ہے۔ مسجد حافظانی اور مسجد شیخاں والی دونوں مساجد میں ایک بات مشترک ہے کہ دونوں مساجد مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی امین ہیں اور آج بھی بھیرہ جیسے تاریخی شہر جسے بارہا جنگ و جدل کا سامنا کرنا پڑا، میں محفوظ ہیں۔ بھیرہ بے پناہ تباہی اوربربادی دیکھنے کے باوجود اپنا اسلامی ورثہ محفوظ رکھنے میں کیسے کامیاب ہوا، اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سب بھیرہ کے مکینوں کا کمال ہے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post