احمد نجیب زادے
کلیسائے روم کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے با دل ناخواستہ اعتراف کرلیا ہے کہ راہبائوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر زیادتی کی جاتی ہے۔ انہیں آج بھی باندی بنا کر مختلف کلیسائوں میں عملاً قید رکھا جاتا ہے۔ پوپ فرانسس کے اعترافات کو ویٹیکن کی آئندہ کانفرنس کے حوالے سے اہم ترین قرار دیا جارہا ہے جس میں سینکڑوں متاثرہ راہبائیں اور بچے شریک ہوں گے اور ’’مقدس پادریوں‘‘ کا کچا چٹھا کھولیں گے۔ ویٹیکن کے ایوانوں میں ہلچل مچا دینے والے پوپ کے بیان میں تسلیم کیا گیا ہے کہ نن بننے والی ہزاروں خواتین کو بد قماش پادریوں نے ہوس کا نشانہ بنایا، جن کا اسقاط ِ حمل کرایا گیا۔ جبکہ سینکڑوں راہبائوں نے ناجائز بچوں کو جنم دیا، جنہیں پادریوں نے اپنانے سے انکار کردیا۔ سائوتھ چائنا مارننگ پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق پوپ فرانسس کلیسائے روم کے بد قماش پادریوں سے نالاں ہیں اور انہوں نے رواں ماہ فروری ہی میں کلیسائے روم کے تحت ایک عالمی کانفرنس ’’سیکس ابیوزمنٹ‘‘ منعقد کرانے کا اعلان کیا ہے جس میں ویٹیکن سمیت دنیا بھر سے چوٹی کے 200 اسقف اور راہبائوں سمیت پادریوں کی زیادتی کا نشانہ بننے والے اطفال اور عالمی ماہرین بھی شرکت کریں گے۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر میں پادریوں کی جانب سے زیادتیوں کا نشانہ بنائے جانے والے بچوں اور راہبائوں کی کہانیاں سن کر کوئی ٹھوس فیصلہ کرنے کی جانب پیش رفت کی جائے گی۔ کلیسائی جریدے ویٹیکن نیوز نے لکھا ہے کہ پوپ فرانسس نے 21 سے 24 فروری کے دوران ’’ورلڈ نیشنل بشپ کانفرنس‘‘ بھی بلوائی ہے جس میں اس بات پر غور و خوض کیا جائے گا کہ کلیسائے روم کے تحت گرجائوں اور بورڈنگ ہائوسز میں ہونے والی بڑے پیمانے کی زیادتی کی وارداتوں کی روک تھام کس طرح کی جائے؟ پوپ فرانسس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اگرچہ فروری میں بشپ کانفرنس کے ساتھ ساتھ ’’زیادتی کانفرنس‘‘ بھی منعقد کی جارہی ہے۔ لیکن لوگ اس سے بہت زیادہ توقعات مت رکھیں کہ اس سے کلیسائے روم کے گرجائوں اور مراکز میں اچانک تبدیلی آجائے گی۔ اماراتی جریدے دی نیشنل نے لکھا ہے کہ پوپ فرانسس متحدہ عرب امارات کے دورے میں بین الادیان مکالمہ کیلئے آئے تھے۔ ویٹیکن واپسی پر جہاز میں بیٹھے صحافی کی جانب سے کئے جانے والے استفسار پر پوپ نے دل کا غبار نکال دیا اور ببانگ دہل تسلیم کیا کہ کلیسائے روم کے گرجائوں میں بچوں کے ساتھ ساتھ بہت بڑی تعداد میں راہبائوں کو بھی جنسی زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آئرش جریدے انڈی پینڈنٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے ہی ایک اعلیٰ آسٹریلوی پادری کو پوپ کی جانب سے دبائو کے نتیجے میں مستعفی ہونا پڑا ہے۔ اس پادری کا نام ہرمن گیسلر ہے اور اس کو ویٹیکن حکام نے راہبائوں کی شکایات کا جائزہ لینے کیلئے کلیسائی ادارے ’’کانگریگیشن آف ڈاکٹرائن آف فید‘‘ کا سینئر رکن بنایا تھا۔ لیکن یہ بد قماش پادری راہبائوں کی شکایات کا تجزیہ کرنے کے بہانے خود بھی انہیں اپنے نفس کا شکار بناتا رہا۔ میڈیا سے خصوصی گفتگو میں ایک سابق جرمن نن ڈورس واگنر نے بتایا ہے کہ گرجائوں اور راہبائوں کے رہائشی مراکز میں صورت حال انتہائی دگرگوں ہے۔ اگرچہ انہوں نے پوپ فرانسس کو اپنے ساتھ کی جانے والی زیادتی کے بارے میں تفصیلات اور ثبوتو ں کے ساتھ مطلع کیا تھا۔ لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا جس کے بعد ان کیلئے اور کوئی راستہ نہیں بچا کہ کلیسائے روم سے اپنا دامن چھڑا لیں۔ اب وہ عام خواتین کی طرح شادی شدہ زندگی گزار رہی ہیں۔ واضح رہے کہ پادریوں کی ہوس کا نشانہ بننے والے سینکڑوں افراد نے پوپ فرانسس کے اعتراف کو مگرمچھ کے آنسوئوں سے تشبیہ دی ہے اور کہا ہے کہ وہ دونوں ہاتھوں میں لڈو لئے بیٹھے ہیں۔ ایک جانب وہ زیادتی کا شکار افراد اور پادریو ں کی کانفرنس بلا کر دنیا کی ہمدردیاں سمیٹ رہے ہیں تو دوسری جانب کہہ رہے ہیں کہ اس کانفرنس سے زیادہ توقعات نہ رکھی جائیں۔ واضح رہے کہ حالیہ ایام میں پوپ فرانسس نے امریکی بشپ تھیوڈور میک کارک سے ان کا بشپ کا عہدہ چھین لیا ہے۔ کیونکہ امریکی بشپ پر بچوں سے زیادتی کے سنگین الزامات تھے۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ پوپ فرانسس کی کانفرنس میں تھیوڈور میک کارک خود بھی شریک ہوگا، جس کا دعوت نامہ اسے امریکا میں ویٹیکن کی جانب سے پیش کیا جاچکا ہے۔ عالمی میڈیا سے گفتگو میں پوپ فرانسس نے تسلیم کیا ہے کہ ان پر اور ان سے پہلے والے پوپ بینی ڈکٹ ہشتم پر بہت زیادہ دبائو تھا کہ وہ بچوں اور راہبائوں کے ساتھ زیادتیوں کی وارداتوں اور منظم واقعات سے چشم پوشی اختیار کریں۔ لیکن انہوں نے اس ضمن میں کوئی دبائو لینے سے انکار کردیا ہے اور تسلیم کرتے ہیں کہ کلیسائے روم کے ماتحت دنیا بھر کے متعدد اداروں میں راہبائوں کی ہزاروں شکایات درج ہیں۔ لیکن ان پر کلیسائے روم اور ویٹیکن کی اعلیٰ قیادت خاموش دبائو بنائے رکھتی ہے تاکہ بد قماش پادریوں کیخلاف ایکشن نہ لیا جاسکے۔ فرانسیسی جریدے لا فرانسواں نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ پیرس میں واقع ایک بڑے کلیسائی مرکز میں جہاں راہبائوں کو مذہبی تعلیم سکھائی جاتی ہے، وہاں سینکڑوں راہبائوں کو پادریوں کی جانب سے اجتماعی اور انفرادی طور پر زیادتیوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
٭٭٭٭٭