علیم خان کے جانے سے نیا بلدیاتی نظام یتیم ہوگیا

0

صوبائی وزیر بلدیات کے گرفتار اور مستعفی ہونے سے پنجاب میں لایا جانے والا مجوزہ نیا بلدیاتی نظام فی الحال یتیم ہوگیا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں نون لیگی سیٹ اپ کی جگہ لوکل باڈیز کا نیا ڈھانچہ تشکیل دینے کے لئے علیم خان کو وزیر اعظم کی جانب سے خصوصی ٹاسک ملا ہوا تھا۔ دوسری جانب پنجاب کا اگلا وزیر اعلیٰ بننے سے متعلق علیم خان کا خواب بھی بکھر گیا ہے۔ قاف لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاسی ڈیبیوکرنے والے علیم خان کی عمران خان سے 2011ء کے اوائل میں ملاقات ہوئی تھی۔ شوکت خانم میموریل اسپتال کے لئے دل کھول کر چندہ دینے کے عمل نے علیم خان کو کپتا ن سے قریب کیا۔
علیم خان کا شمار وزیر اعظم کے چہیتے لوگوں میں ہوتا ہے۔ پارٹی ذرائع کے بقول علیم خان کی طرف سے پارٹی کے لئے دل کھول کر پیسہ خرچ کرنا، اس قربت کے بنیادی اسباب میں سے ایک ہے۔ اس وقت وہ پی ٹی آئی کے ان رہنمائوں میں شامل تھے، جن پر وزیر اعظم خاصا اعتماد کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں نیا بلدیاتی نظام لانے کا اہم ٹاسک بھی وزیر اعظم نے وزیر بلدیات علیم خان کے سپرد کیا تھا۔ ذرائع کے مطابق بظاہر اس نظام کو لانے کی وجہ ’’حقیقی معنوں‘‘ میں اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی بتائی جارہی ہے۔ لیکن اصل ہدف پنجاب میں نون لیگ کے موجودہ بلدیاتی سیٹ اپ کو توڑنا ہے۔ کیونکہ تحریک انصاف کو ایک ایسے بلدیاتی سسٹم کی ضرورت ہے، جس کی طاقت کو وہ اپنے صوبائی سیٹ اپ کے متبادل کے طور پر استعمال کرسکے، جو اتحادیوں کی بلیک میلنگ کے سبب کمزور پوزیشن میں چل رہا ہے۔ تحریک انصاف کے خیال میں اضلاع اور کونسلوں میں اپنے بلدیاتی نمائندے لاکر وہ اگلا جنرل الیکشن جیتنے کے لئے پنجاب میں پارٹی کی جڑیں مضبوط کرسکتی ہے۔ نچلی سطح پر اختیارات کا یہ بلدیاتی سیٹ اپ اس وقت اپوزیشن پارٹی مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی گرفت میں ہے۔ تحریک انصاف کو بلدیاتی سسٹم کی بدولت جنرل الیکشن کے نتائج کا تجربہ خیبر پختون میں ہوچکا ہے کہ صوبائی انتخابات میں کامیابی کے لئے بلدیاتی سیٹ اپ پر کنٹرول بہت ضروری ہے۔ پی ٹی آئی اب خیبر پختون سے ملتا جلتا بلدیاتی نظام پنجاب میں بھی متعارف کرانا چاہتی ہے اور اس کی خواہش ہے کہ وہ موجودہ بلدیاتی نظام کو، جس پر اس وقت نون لیگ کا کنٹرول ہے، قبل از وقت بلدیاتی الیکشن کراکے تبدیل کردے۔ تاہم نون لیگ اس میں رکاوٹ ہے اور یہ قدم اٹھانے کے صورت میں عدالت سے رجوع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ بطور صوبائی وزیر بلدیات اس نئے سسٹم کے سرخیل علیم خان ہی تھے اور وہ چاہتے تھے کہ جلد از جلد وزیر اعظم عمران خان کی خواہشات کو عملی شکل دے کر پارٹی چیئرمین کی نظروں میں اپنی اہمیت کو مزید منوالیں۔ نئے بلدیاتی سسٹم کے حوالے سے لیگل ریویو کا کام مکمل ہوچکا تھا اور تنظیمی ڈھانچہ تیار کرنے کا کام جاری تھا کہ وزیر موصوف اندر ہوگئے۔ اب ان کی جگہ جو بھی نیا وزیر بلدیات آئے گا، اسے چیزوں کو سمجھنے میں کئی ماہ لگ جائیں گے اور نئے سرے سے کام کرنا پڑے گا۔
ذرائع نے بتایا کہ نئے بلدیاتی نظام پر دن رات کام کرنے والے علیم خان دراصل پنجاب کا اگلا وزیر اعلیٰ بننے کے خواہش مند تھے۔ یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے امیدواروں کے لئے جو نام زیر گردش رہے، ان میں ایک نام علیم خان کا بھی تھا۔ لیکن قرعہ فال عثمان بزدار کے نام کھلا۔ ذرائع کے بقول یہی وجہ ہے کہ علیم خان نے آج تک دل سے عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ تسلیم نہیں کیا تھا۔ علیم خان کا خیال تھا کہ 25 جولائی کے عام انتخابات کے دوران پنجاب میں پارٹی کے جلسوں اور انتخابی مہم پر جتنی محنت اور پیسہ انہوں نے لگایا، اس کے بدلے میں وزارت اعلیٰ پر پہلا حق ان کا تھا۔ ذرائع کے بقول دل میں وزارت اعلیٰ پنجاب کی خواہش چھپائے علیم خان اب بھی اس منصب کو حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے اور اس سلسلے میں باقاعدہ لابنگ کر رہے تھے۔ علیم خان کا خیال تھا کہ مختلف حلقوں کی طرف سے آنے والے دبائو پر بالآخر وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو جلد یا بدیر ہٹانا پڑے گا اور یوں ایک بار پھر ان کے لئے یہ منصب حاصل کرنے کا راستہ کھل جائے گا۔ ذرائع کے مطابق علیم خان کی کوشش تھی کہ اس نئے متوقع چانس سے قبل وہ کسی طرح پنجاب میں نئے بلدیاتی نظام کا ٹاسک پورا کر کے وزیر اعظم کے سامنے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوالیں تو بزدار کے جانے کی صورت میں وزارت اعلیٰ کا حصول ان کے لئے آسان ہوجائے گا۔ لیکن تقدیر کے ٹائپ رائٹر نے ٹِک ٹِک کرکے ان کے ماتھے پر نیب کی سلاخیں لکھ دیں۔ لاہور میں ایسے ایک سے زائد صحافی موجود ہیں، جو وزارت اعلیٰ کے حصول کے لئے علیم خان کی لابنگ سے واقف ہیں۔ اس لابنگ کے لئے علیم خان میڈیا کو اہم ترین ٹول تصور کرتے تھے اور مہینے میں ایک یا دو بار میڈیا کے لوگوں سے ملاقات اور انہیں کھانا کھلانا ان کا معمول تھا۔ ملاقاتیں کرنے والے ایک صحافی کے بقول ایسا کئی بار ہوا کہ علیم خان نے اپنے بعض قریبی صحافیوں سے فرمائش کی کہ وہ فلاں ایشو کے حوالے سے وزیر اعلیٰ بزدار کی کارکردگی پر سوال اٹھائیں۔ ذرائع کے مطابق نجی محفلوں میں کی جانے والی یہ باتیں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے کانوں تک بھی پہنچتی رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم نہ ہو سکے۔ حتیٰ کہ تین ساڑھے تین ماہ قبل وزیر اعظم عمران خان نے علیم خان کو وزیر اعلیٰ پنجاب کا کیمپ آفس چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔ کیونکہ انہیں شکایات مل رہی تھیں کہ علیم خان، وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے۔ ذرائع کے بقول وزیر اعظم کے اس اقدام پر علیم خان نے سبکی محسوس کی تھی۔ لیکن چونکہ سونے کی چڑیا کو ناراض کرنا کوئی بھی افورڈ نہیں کرسکتا، چنانچہ گزشتہ ماہ صوبائی وزیر بلدیات علیم خان کو ترقی و منصوبہ بندی کی وزارت کا اضافی قلمدان بھی سونپ دیا گیا تھا۔ اس سے ان کی طاقت اور اختیارات میں اضافہ ہوا، اور علیم خان نے پنجاب میں بیرونی سرمایہ کاری لانے کے لئے چینی کمپنیوں کے عہدیداروں سے ملاقاتیں بھی شروع کردی تھیں۔ اس سلسلے میں اپنی گرفتاری سے تین روز پہلے علیم خان نے چینی انجینئرنگ کارپوریشن کے ایک اعلیٰ سطح کے وفد سے ملاقات کی۔ اس موقع پر پنجاب میں انرجی سیکٹر کے منصوبوں پر بات ہوئی اور چینی وفد نے جلد معاہدوں کی یقین دہانی کرائی تھی۔ ان ملاقاتوں سے واقف ایک ذریعے کے بقول کرپشن کے الزام میں علیم خان کی گرفتاری کے بعد اب یہ چینی وفد بھی سوچ رہا ہے کہ شکر ہے بچ گئے۔ کیونکہ چین میں کرپشن کو اب ایک ناقابل قبول برائی کے طور پر لیا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق بالخصوص نیا قلمدان ملنے کے بعد سے علیم خان نے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے رابطے بھی بڑھادیئے تھے۔ اس سلسلے میں ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے نمائندوں سے آئندہ ہفتے ان کی ملاقاتیں طے کی تھیں۔ یوں کرپشن الزامات پر موصوف وزیر کی گرفتاری سے پاکستان کا امیج بھی متاثر ہوا ہے۔ ذریعے کے بقول علیم خان کے جانے سے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے ذمہ داران خاصے خوش ہیں۔ علیم خان نے مینجمنٹ کے صف اول کے افسران کو فارغ کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ تاہم یہ خطرہ ٹل گیا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل اگرچہ بزدار اور علیم خان میں صلح کرادی گئی تھی۔ لیکن دونوں کے درمیان جاری سردمہری کا پوری طرح خاتمہ نہیں ہوسکا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ علیم خان کے اندر ہوجانے کے بعد نیا وزیر بلدیات آنے تک یہ قلمدان وزیر اعلیٰ پنجاب کے پاس رہے گا۔
عمران خان سے علیم خان کی رسم و راہ کا آغاز 2011ء کے وسط میں ہوا تھا۔ یہ لاہور میں پی ٹی آئی کے تاریخی جلسے سے چند ماہ قبل کی بات ہے۔ پی ٹی آئی کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا ’’گرمیوں کی ایک رات ہم ’’خان ‘‘ کو گھر ڈراپ کرنے کے لئے راستے میں تھے کہ انہوں نے موبائل پر کسی کو فون کیا اور پھر مجھے کہا کہ ایک بندے سے تمہیں ملوانا ہے۔ وہ بہت لوڈڈ (یعنی پیسے والا) ہے۔ شوکت خانم اسپتال کے لئے ایک بڑے عرصے سے پیسے دے رہا ہے۔ قاف لیگ کا منسٹر رہ چکا ہے۔ اس نے بڑا لمبا مال کمایا ہے۔ اب پی ٹی آئی میں آنا چاہتا ہے۔ لہٰذا یہ گھاٹے کا سودا نہیں۔ یہ بات کہہ کے ’’خان‘‘ نے دوبارہ فون کیا تو دوسری جانب موجود شخص نے بتایا کہ وہ اسلام آباد سے لاہور کے لئے نکل چکا ہے اور اس وقت موٹر وے پر ہے۔ تاہم ’’خان‘‘ نے اسے فوری واپس آنے کا کہا۔ بعد ازاں رات بارہ سوا بارہ بجے کے قریب ہم سب عمران خان کی رہائش گاہ بنی گالا میں بیٹھے تھے۔ یہ علیم خان سے میری پہلی ملاقات تھی۔ کوئی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ گپ شپ ہوتی رہی۔ علیم خان کہہ رہا تھا کہ مجھے بتائو میڈیا کمپین کے لئے آپ کو کتنی فنڈنگ چاہئے؟‘‘۔
عہدیدار کے مطابق اس کے بعد سے علیم خان اور عمران خان کے تعلقات مضبوط ہونا شروع ہوگئے۔ یہاں تک کہ اکتوبر 2011ء کا مہینہ آگیا۔ اور لاہور میں پی ٹی آئی نے ایک بڑا سیاسی جلسہ کیا۔ یہ جلسہ پی ٹی آئی کی اٹھان کی طرف پہلا قدم تھا۔ جلسے کے تمام اخراجات علیم خان نے برداشت کئے۔ اس کے بعد پارٹی کے دیگر جلسے جلوسوں اور تقریبات سے لے کر دھرنے تک کا خرچہ علیم خان اپنی جیب سے دیتے رہے۔ اس کی بدولت تحریک انصاف میں ان کی جگہ بھی مضبوط ہوتی گئی۔ 2012ء میں علیم خان نے قاف لیگ کو چھوڑ کر تحریک انصاف میں باقاعدہ شمولیت اختیار کرلی اور اگلے ہی برس انہیں پی ٹی آئی لاہور کا نائب صدر بنادیا گیا۔ پی ٹی آئی میں علیم خان کی شمولیت اور عروج کا عرصہ محض چھ سال پر محیط ہے۔ عہدیدار کے مطابق علیم خان کی پارٹی میں اس قدر انوسٹمنٹ ہے کہ عمران خان اپنی خواہش پر انہیں قربانی کا بکرا بنانے کا رسک نہیں لے سکتے۔ کیونکہ اس صورت میں علیم خان کسی بھی وقت بم کی طرح پھٹ سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ کارروائی کہیں اور سے ڈالی گئی ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More