آئل کمپنیوں کے خلاف200 ارب گھپلوں کی انکوائری شروع نہ ہوسکی

0

عمران خان
ملک بھر میں کام کرنے والی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے خلاف 200 ارب روپے سے زائد گھپلوں کی تحقیقات میں ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر اسلام آباد کی جانب سے ایف آئی اے سندھ سے رپورٹ طلب کرلی گئی ہے۔ تاہم اب تک ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے کی جانب سے ان انکوائریوں پر تفتیشی افسر تعینات نہیں کئے گئے۔ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے خلاف 15انکوائریوں کی منظور ی کا لیٹر گزشتہ کئی ہفتوں سے ایڈیشنل ڈائریکٹر کے دفتر میں پڑا ہے جس پر کارروائی کو آگے نہیں بڑھایا گیا۔ ذرائع کے بقول ایف آئی اے افسران کی نااہلی کے سبب اس میگا اسکینڈل پر تحقیقات متاثر ہونے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ ذرائع کے بقول ایف آئی اے کراچی میں ان انکوائریوں پر کام شروع ہی نہیں ہوا۔ جبکہ ہیڈ کوارٹر نے اس پر ابتدائی رپورٹ بھی طلب کرلی ہے جس کے بعد جلد بازی میںتیار کرکے بھیجی جانے والی رپورٹ، کیس کو خراب کرنے کے مترادف ہوگی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئل مارکیٹنگ کمپنیاں جن میں ملکی اور غیر ملکی معروف کمپنیوں کے علاوہ بعض آئل ریفائنریاں بھی شامل ہیں، ان کے خلاف اربوں روپے کے گھپلوں کی تحقیقات میں ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے ذاتی دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔ واضح رہے کہ ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں قائم اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کا شعبہ اسی لئے قائم کیا گیا تھا کہ ملک بھر کے پانچوں زونل دفاتر میں ہونے والی ایسی اہم انکوائریاں جن کی ملکی سطح پر اہمیت ہو، انہیں زونل ڈائریکٹرز کے ماتحت کرنے کے بجائے براہ راست ڈائریکٹر جنرل کے ماتحت قائم تفتیشی یونٹ سے کرایا جائے۔ اس یونٹ میں گزشتہ برسوں میں مالی گھپلوں، کرپشن اور ٹیررازم فنڈنگ کے حوالے سے کئی انکوائریاں کی جاتی رہی ہیں۔ تاہم حالیہ عرصے میں ڈی جی ایف آئی اے کی جانب سے اس شعبے کے افسران کی جانب سے کرپشن کی اطلاعات اور بعض دیگر وجوہات کی بنا پر اس ٹیم کو ختم کرکے اس یونٹ میں جاری انکوائریوں کو ان کے متعلقہ زونل دفاتر کو بھیجوانے کا فیصلہ کیا گیا۔ جس کے بعد سندھ زون میں کئی دیگر انکوائریوں کے ساتھ ایس آئی یو سے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے خلاف تحقیقات بھی ایف آئی اے کراچی میں منتقل کردی گئی تھیں۔
ذرائع کے مطابق ملکی اور غیر ملکی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے خلاف تاریخ کی بدترین جعلسازی میں سبسڈی کی مد میں حکومت پاکستان سے 200 ارب روپے سے زائد بٹورنے کے الزامات پر تحقیقات شروع کرنے کیلئے ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر کی جانب سے ایف آئی اے کراچی کو خصوصی ٹاسک دیا گیا۔ اس کے باجود ان تحقیقات کو التوا میں رکھا گیا۔ تاہم گزشتہ مہینے اس پر ایک رپورٹ تیار کرکے اسلام آباد بھجوائی گئی جس پر آئل مارکیٹینگ کمپنیوں کے خلاف 15مختلف انکوائریوں شروع کرنے کی منظوری دی گئی جس میں شیل پاکستان، ٹوٹل پاکستان، حیسکول، او اوٹی سی، پارکو، پی ایس او، نیشنل ریفائنزی اور پاک ریفائنری سمیت دیگر آئل مارکیٹنگ کمپنیاں شامل ہیں۔
ایف آئی اے ذرائع کے بقول کمپنیوں کے خلاف تحقیقات میں لوٹی گئی رقم کا ابتدائی تخمینہ 2004ء سے 2008ء کے دوران ہونے والی سیل پر لگایا گیا ہے جبکہ مزید تحقیقات کا دائرہ اگلے تین برسوں یعنی 2001ء تک پھلانے کی سفارش بھی ابتدائی رپورٹ میں کی گئی جس پر تمام کمپنیوں کے خلاف علیحدہ علیحدہ تحقیقات کیلئے انکوائری آفیسرز کو مارک کرنے کی ہدایات دی گئیں۔ ایف بی آر ذرائع کے مطابق آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے حوالے سے اس معاملے پر گزشتہ برسوں سے معاملات ایف بی آر کے لارج ٹیکس پیئرز یونٹ (ایل ٹی یو ) میں التوا کا شکار تھے، جس پر پہلے کمپنیوں کو شوکاز نوٹس ارسال کرنے اور ان سے ٹیکس وصولی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ تاہم بعد ازاں اس معاملے کو روک دیا گیا تھا، جبکہ ایف بی آر سے ہی اس معاملے کو مزید تحقیقات کیلئے ایف آئی اے تک پہنچنے میں مزید وقت لگا۔ اس کے بعد ایف آئی اے میں جب اس پر ابتدائی تحقیقات شروع کی گئیں اور اس ضمن میں ریکارڈ حاصل کیا گیا تو، معاملے کی بھنک آئل مارکیٹنگ کمپنیوں تک بھی پہنچ گئی جس کے بعد ایف بی آر کی جانب سے ایک بار پھر ان کمپنیوں کو شوکاز نوٹس اور ریکوری نوٹس ارسال کرنے کا سلسلہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ جبکہ دوسری جانب ان کمپنیوں کی جانب سے بھی تحقیقات اور مزید کارروائی سے بچنے کیلئے معاملے کو ایف بی آر میں ہی طے کرکے کم سے کم رقم ادا کرکے ختم کرنے پر رضامندی ظاہر کی گئی۔ تاہم اس وقت تک دیر ہوچکی تھی اور اس معاملے میں جعلسازی کا کرمنل پہلو سامنے آنے کی وجہ سے اسے ایف آئی اے میں ہی زیر تفتیش رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ذرائع کے بقول مذکورہ تحقیقات اب تک آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے خلاف ٹیکس چوری اور سبسڈی کی مد میں جعلسازی سے اربوں روپے زائد حاصل کرنے کے حوالے سے سب سے بڑی تحقیقات ہے، جس کو آسان بنانے کیلئے ابتدائی تخمینہ لگانے کے بعد علیحدہ علیحدہ انکوائری آفیسرز کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ تاکہ ہر افسر ایک کمپنی پر تحقیقات پر توجہ مرکوز کرکے تحقیقات کو جلد از جلد حتمی شکل دے سکے۔ ذرائع کے بقول مذکورہ کمپنیوں کی جانب سے کئی برسوں تک سالانہ جو فروخت ظاہر کی جا تی رہی، اتنی مقدار ان کے پاس ذخیرہ کرنے کی صلاحیت اور گنجائش ہی نہیں تھی۔ تاہم اس پہلو کو نظر انداز کیا جاتا رہا اور جتنی بھی فروخت کمپنیوں کی جانب سے ظاہر کی جاتی رہی، اس پر ان کو سبسڈی کی مد میں قومی خزانے سے رقم دی جاتی رہی۔ ان تحقیقات میں انٹرنل پرچیز کے پہلو کو بھی شامل کیا گیا ہے جس میں دونوں ریفائنریز کا کردار اہم ہے۔
ذرائع کے مطابق ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں عام شہریوں کیلئے مستحکم رکھنے کیلئے عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی قیمتوں کے دوران آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو پٹرولیم مصنوعات کی فروخت پر حکومت کی جانب سے سبسڈی کی صورت میں خصوصی مراعات دی جاتی رہی ہیں۔ تاکہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو کم قیمت پر پٹرول اور ڈیزل فروخت کرنے سے ہونے والے نقصان کا ازالہ حکومتی فنڈ سے کیا جاسکے۔ تاہم اسی سبسڈی سے ناجائز فائدہ اٹھانے کیلئے کمپنیوں پر حقیقت سے کہیں زیادہ سیل یعنی فروخت ظاہر کرنے کے الزامات ہیں جس پر تحقیقات کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔
ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ منیر احمد شیخ کے مطابق اس معاملے پر تفتیش اسلام آباد سے موصول ہونے والی معلومات اور ہدایات کی روشنی میں شروع کی گئیں اور اب تک ہونے والی تفتیش پر مبنی ایک پیش رفت رپورٹ مزید کارروائی کو آگے بڑھانے کیلئے اسلام آباد ہیڈ کواٹر کو ارسال بھی کردی گئی ہے۔ جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر عبدالسلام شیخ کے دفتر میں اس پر اب تک انکوائری افسر مقرر نہیں کئے گئے ہیں جو سمجھ سے بالاتر ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More