امت رپورٹ
ایم کیو ایم پاکستان بلدیاتی انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کیلئے بلیک میلنگ پر اتر آئی۔ شہر میں تجاوزات آپریشن رکوانے کے نام پر دکانداروں اور شہروں کو متحدہ کو سپورٹ کرنے کی ہدایات دی جارہی ہیں۔ عام انتخابات میں تحریک انصاف کے ہاتھوں شکست کھانے والے حلقوں میں اس حوالے سے متحدہ رہنما سرگرم ہوگئے ہیں۔ جبکہ متحدہ کے زیر اثر علاقوں میں مارکیٹوں میں جعلی ڈیمالیشن نوٹس بھجوا کر تاجروں میں سراسیمگی پھیلائی جا رہی ہے اور انہیں بہادر آباد مرکز پر رابطہ کرنے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔ علاقوں میں متحدہ کے جھنڈے اور متحدہ کے رہنماؤں کی جانب سے دکانداروں کا برے وقت میں ساتھ دینے کی یقین دہانی کے بینرز بھی لگائے جارہے ہیں۔ کورنگی ساڑھے 5 نمبر پر نالے کے اوپر 400 دکانیں گرادی گئی ہیں، جبکہ کورنگی نمبر 6 میں 2500 سے زائد دکانوں کو گرانے کیلئے نوٹس جاری کردیئے گئے۔ بعدازاں متحدہ رہنما وہاں آگئے اور مارکیٹوں کے تاجروں کو کہا کہ وہ آپریشن رکوادیں گے۔ اس طرح متحدہ رہنمائوں نے اپنے سیاسی دکان چمکانا شروع کردی ہے۔ ذرائع کے مطابق سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کے ڈی اے اور کے ایم سی میں موجود متحدہ کے بھرتی شدہ ملازمین، جعلی نوٹس دے کر لوگوں کو ہراساں کر رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں صوبائی نشست پی ایس 94 اور بلدیاتی ضمنی انتخابات میں کامیابی کے بعد ایم کیو ایم پاکستان نے آئندہ بلدیاتی انتخاب کیلئے زور لگانا شروع کردیا ہے۔ متحدہ کے پاس واحد آپشن میئر کراچی ہیں، جو کراچی میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کرا رہے ہیں اور اس آپریشن کی حمایت تحریک انصاف بھی کر چکی ہے۔ متحدہ جن نشستوں پر تحریک انصاف سے ہاری ہے، وہاں پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی علاقوں میں نہیں جا رہے ہیں۔ حالانکہ متحدہ پاکستان جن حلقوں سے ہاری ہے ان علاقوں میں ہی آپریشن تیزی سے جاری ہے۔ صدر، اولڈسٹی ایریا، شاہ فیصل کالونی کے بعد لانڈھی میں بھی آپریشن تیز کر دیا گیا ہے کہ ان حلقوں میں تحریک انصاف نے قومی و صوبائی نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اسی طرح کورنگی کے علاقے میں صوبائی نشست پی ایس 94 پر ضمنی انتخابات ہوئے تو متحدہ نے آپریشن رکوانے کے نام پر نالوں، پارکوں، فٹ پاتھ پر قائم دکانوں کے مالکان اور گھر والوں کو بلیک میل کیا اور جیت گئی۔ جبکہ کراچی میں چند روز قبل ہونے والے بلدیاتی ضمنی انتخابات میں بھی متحدہ نے میدان مار لیا تھا کہ وہ علاقوں میں آپریشن رکواتی ہے۔ سرکاری کوارٹرز، کے ایم سی کی دکانیں اور دیگر دکانوں سمیت گھر بچانے کیلئے ایک جانب متحدہ رہنما سرگرم نظر آتے ہیں تو دوسری جانب سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی SBCA، کے ڈی اے اور کے ایم سی میں نوکری کرنے والے متحدہ کے حلف یافتہ ملازمین، لوگوں کو جعلی نوٹس دیکر ان کو ہراساں کر رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر آپریشن رکوانا چاہتے ہیں تو بہادر آباد مرکز سے رجوع کیا جائے۔ ذرائع کے مطابق اردو بازار سمیت اطراف کی 5 مارکیٹوں کے ذمہ دار بہادرآباد مرکز آئے تھے، جس کے بعد مہلت دینے کے نام پر آپریشن روک دیا گیا۔ لی مارکیٹ کے تاجر رہنما شعیب بلوچ بھی بہادر آباد مرکز گئے تو وہاں ان کو آپریشن پر نظرثانی کی یقین دہانی کرائی گئی۔ اس کے ایک ماہ قبل کورنگی کا نمبر لگادیا گیا، جہاں عام انتخابات میں تحریک انصاف کے فہیم خان قومی اسمبلی کی نشست پر جیتے تھے۔ اسی لئے کورنگی ساڑھے پانچ، سو کواٹر چوک سے سیکٹر 51/C موڑ بابو بتی والے کے ہوٹل تک نالے پر بنی 400 سے زائد دکانیں، گودام، کارخانے اور گھر گراد یئے گئے۔ وہاں تاحال ملبہ موجود ہے اور دکاندار ملبے پر سامان رکھے دو وقت کی روٹی کمانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ادھر 29 جنوری سے کورنگی نمبر 6 کی مارکیٹوں، دکانداروں کو نوٹس جاری کردیئے گئے۔ نوٹس دینے والوں میں ایک نوجوان کو وسیم چٹا کے نام سے شناخت کیا گیا جو کے ایم سی کا ملازم ہے اور کورنگی کے متحدہ پاکستان سیکٹر کا سرگرم کارکن ہے۔ اسی طرح لائٹ ہائوس مارکیٹ کے سامنے مین روڈ کے کنارے دونوں اطراف قائم 2500 سے زائد دکانوں کے مالکان نوٹس ملنے پر پریشان ہوکر تحریک انصاف سے رابطہ کرنے لگے تھے۔ تاہم وہاں سے مثبت جواب نہیں ملا جس کے بعد تاجروں نے پیپلز پارٹی کے صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی سے رابطہ کیا۔ جبکہ متحدہ پاکستان کی رابطہ کیمیٹی کے ذمہ دار خواجہ اظہار، غلام جیلانی اور لانڈھی سے رکن قومی اسمبلی محمد اقبال ان تاجروں سے ہمدردی جتانے سامنے آگئے۔ کہا گیا کہ متحدہ کے رہنما یہ آپریشن رکوادیں گے۔ ’’امت‘‘ ٹیم نے صورتحال معلوم کی تو متاثرہ دکاندار رو پڑے کہ متحدہ پاکستان نے اپنے میئر کراچی کے ذریعہ ان سے انتقام لیا ہے کہ تحریک انصاف کو ووٹ دے کر کیوں کامیاب کرایا۔ میئر کراچی نے ہزاروں لوگوں کو بے گھر اور بے روزگار کردیا اور اب بلدیاتی انتخابات جیتنے کیلئے ان سے ہمدردی کررہے ہیں۔ ابو اکبر نامی دکاندار کا کہنا تھا کہ بچوں کی دو وقت کی روٹی کیلئے ملبے دکان لگا کر بیٹھا ہوا ہے۔ مرزا ہاشم کا کہنا تھا کہ اب سوائے بد دعا کے اور کیا کر سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭