نجی ٹور آپریٹر حج اخراجات میں مزید کمی کے لئے تیار

0

مرزا عبدالقدوس
نجی ٹور آپریٹرز نے سرکاری اسکیم کی نسبت اب بھی تقریباً 75 ہزار روپے کم اخراجات کے ساتھ حج پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ پرائیویٹ شعبے کی وساطت سے سرکاری اسکیم کی نسبت کم اخراجات کے ساتھ حج کرایا جائے گا۔ آل پاکستان حج فورم ایسوسی ایشن کے ذرائع کے مطابق اگر حکومت پاکستان اور وزارت مذہبی امور نیک نیتی کے جذبے، میرٹ اور عوام کے مفاد کو مد نظر رکھ کر پالیسیاں تشکیل دیں تو نجی شعبہ اپنے موجودہ پیکیج سے بھی کم قیمت میں حج کرا سکتا ہے۔ ان ذرائع نے بتایا کہ سرکاری اسکیم کے تحت وزارت مذہبی امور جو خدمات اور سہولتیں اپنے حجاج کرام کو آفر کر رہی ہے، نجی ٹور آپریٹر اس سے زیادہ خدمات، سہولتیں اور آسانیاں اپنے ساتھ جانے والے حجاج کرام کو پیش کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ان کا حج پیکیج سرکاری اسکیم کی نسبت کم قیمت ہے اور یقینی بات ہے کہ نجی شعبے میں جو کمپنیاں اور ادارے یہ کام کر رہے ہیں، وہ مناسب منافع بھی کماتے ہیں۔ ذرائع کے بقول اس کا واضح مطلب ہے کہ سرکاری اسکیم میں قانونی طور پر منافع تو چونکہ نہیں ہے، لیکن حجاج سے لوٹ مار بہت ہو رہی ہے۔ بد انتظامی، لاپرواہی اور کمیشن مافیا کی اجارہ داری ہے، جس کے ذمہ دار وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری اور سیکریٹری مذہبی امور ہیں۔ ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ تمام معاملات خوش اسلوبی سے اس طریقے سے طے کئے جائیں کہ عازمین کو تمام ممکنہ سہولتیں کم سے کم اخراجات کے ساتھ میسر آئیں۔ ان ذرائع کے مطابق اس سال وزیر مذہبی امور اور سیکریٹری دونوں چونکہ نئے ہیں اور انہیں اس کام کا تجربہ نہیں ہے۔ نہ انہوں نے گہری دلچسپی لے کر معاملات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اس لئے پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ سرکاری اسکیم کے ذریعے حج ستر، پچھتر ہزار روپے مہنگا ہوگیا۔ جبکہ حجاج کرام جب یہ سعادت حاصل کر کے واپس آئیں گے تو یقیناً یہ بات بھی واضح ہو جائے گی کہ نجی شعبے کے ذریعے جانے والے حجاج کو سرکاری اسکیم سے جانے والوں کی نسبت حج کی ادائیگی اور وہاں قیام کے دوران زیادہ آسانی اور سہولتیں میسر رہیں۔
واضح رہے کہ اس سال پاکستان سے تقریباً ایک لاکھ 84 ہزار خوش نصیب حج کا فریضہ ادا کریں گے۔ ان میں سے 60 فیصد سرکاری اور 40 فیصد پرائیویٹ ٹور آپریٹر کے ذریعے حجاز مقدس روانہ ہوں گے۔ سرکاری اسکیم کے تحت حج پیکیج 4 لاکھ 56 ہزار 426 روپے ہے۔ جبکہ نجی شعبے نے 3 لاکھ 75 ہزار روپے کے اخرجات کا پیکیج دیا ہے۔ سرکاری اسکیم کے تحت گزشتہ برس کا پیکیج دو لاکھ 80 ہزار روپے تھا۔ تاہم اب وفاقی حکومت نے ڈالر اور ریال کی قیمت میں اضافے اور سعودی حکومت کی جانب سے بعض ٹیکسز کا جواز پیش کر کے اخراجات میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے اب حج کی سعادت عام آدمی کی پہنچ میں نہیں رہی ہے۔ جبکہ صاحب استطاعت افراد کیلئے بھی مقدس فریضہ مشکل بنادیا گیا ہے۔ اس سے پہلے نجی شعبے کے اخراجات زیادہ ہوتے تھے اور سرکاری اسکیم کے اخراجات کافی کم ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد سرکاری اسکیم کے تحت حج پر جانے کو ترجیح دیتی تھی۔ سابق حکومت کے دور میں پانچ سال حج کا موقع آیا اور کسی بھی سال نہ کوئی افراتفری مچی، نہ اسکینڈل بنا اور نہ ہی بد انتظامی کے حوالے سے کوئی بڑی شکایت سامنے آئی۔ لیکن موجودہ حکومت خاص طور پر وزیر مذہبی امور کی ناتجربہ کاری اور انتظامی لحاظ سے کمزروی کی وجہ سے حج پر جانے کے خواہش مند افراد شدید مایوسی اور پریشانی کا شکار ہیں۔ سرکاری ذرائع کے حوالے سے ہی یہ خبریں آرہی تھیں کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی پاکستان آمد کی موقع پر سعودی حکومت، پاکستانی حجاج کیلئے ٹیکسز میں کمی کا اعلان کر سکتی ہے، جس سے حج اخراجات میں کمی متوقع ہے۔ لیکن وزیر مذہبی امور نے یہ بیان دے کر کہ حکومت پاکستان سعودی ولی عہد سے اس بارے میں کوئی بات نہیں کرے گی، ان امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
آل پاکستان حج فورم ایسوسی ایشن کے صدر عادل بٹ نے اس بارے میں ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ… ’’ڈالر اور ریال کی قیمت میں اضافے کی آڑ میں وزارت مذہبی امور کے کرتا دھرتا افراد نے بڑے پیمانے پر بدعنوانی اور کرپشن کی ہے۔ ہم ایک عرصے سے عمرے کا کام کر رہے ہیں۔ کرنسی ریٹ میں اضافے کے باوجود ہمارے پیکیجز میں تو اتنا فرق نہیں پڑا اور نہ ہی نجی شعبے کے حج پیکیجز میں اتنا اضافہ ہوا ہے‘‘۔ ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ ’’رہائش گاہوں، ٹرانسپورٹ اور کھانے کے انتظامات کی آڑ میں بڑے پیمانے پر گڑ بڑ ہوتی ہے۔ سرکاری اسکیم کے اخراجات اور نجی شعبے کے پیکیج کا موازنہ کریں تو صورت حال سامنے آجاتی ہے۔ ہم بھی مکہ مکرمہ کے علاقوں عزیزیہ، خالدیہ اور فدائی وغیرہ میں رہائش دیتے ہیں۔ جبکہ سرکاری اسکیم کے ذریعے جانے والے حجاج کو بھی وہیں ٹھہرایا جاتا ہے۔ کھانے کا معیار اور ٹرانسپورٹ بھی یکساں ہے۔ سرکاری اسکیم کے ذریعے جانے والے حجاج کو نجی شعبے کی نسبت کوئی اضافی سہولت یا خدمت بھی فراہم نہیں کی جاتی۔ نجی شعبے کے آپریٹرز کو سعودیہ میں اپنے ذاتی اخراجات اور رہائش وغیرہ کا بندوبست بھی خود کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ وزارت مذہبی امور کے اسٹاف اور عملے کیلئے سرکاری عمارتیں موجود ہیں۔ پھر ان کے پیکیج میں فی حاجی اخراجات ستر پچھتر ہزار روپے زیادہ کیوں ہیں‘‘۔ عادل بٹ نے کہا کہ اس کی بڑی وجوہات بدانتظامی، نااہلی اور ناتجربہ کاری کے ساتھ یہ بھی ہے کہ بعض افراد بڑے پیمانے پر کرپشن میں ملوث ہیں۔ سعودی عرب میں ٹرانسپورٹ، کھانے اور عمارتوں کے حصول کے معاہدوں میں کمیشن لیا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وزیر مذہبی امور نے کہا ہے کہ حکومت آئندہ دو تین سال میں حج کو نجی شعبے کے حوالے کردے گی۔ یہ بہت اچھا فیصلہ ہے، اگر وزارت مذہبی امور انڈونیشیا کی طرح حج انتظامات نجی شعبے کے حوالے کردے اور صرف اس کی مانیٹرنگ کامیابی سے کرے تو یہ بھی اس کی بڑی کامیابی اور پاکستانی عوام کی خدمت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اب بھی صرف 800 رجسٹرڈ آپریٹرز کو کوٹہ دیا جارہا ہے۔ جبکہ 300 ٹور آپریٹرز، جن کو عمرہ کرانے کا طویل تجربہ ہے، وہ حج کوٹے کے حصول کیلئے کئی برسوں سے کوشاںہیں۔ عادل بٹ کا کہنا تھا کہ اگر ان کو حج کوٹہ برابری اور میرٹ کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے تو حج اخراجات میں مزید کمی آسکتی ہے اور نجی شعبے کی وساطت سے پاکستانی شہری موجودہ پرائیویٹ پیکیج سے بھی کم اخراجات میں حج کرسکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More