قسط نمبر 36
ترتیب و پیشکش/ ڈاکٹر فرمان فتحپوری
ایک مضمون قمر زمانئی کے مضمون ’’اے کلی‘‘ مطبوعہ مئی 1917ء کے جواب میں ہے۔ اس کا عنوان ’’پژ مردہ کلی کا جواب‘‘ ہے۔ نیاز فتح پوری نے یہ انشائیہ کہکشاں کے نام سے چھپوایا۔ دلگیر نے اس پر حسب ذیل نوٹ لکھا ہے:
اس مضمون میں جذبات کی لطافت، خیال کی نزاکت اور انداز بیان کی حلاوت خود غمازی کر رہی ہے کہ جنس لطیف کا لکھا ہوا ہے۔ صاحب مضمون اپنا اصلی نام ظاہر کرنا نہیں چاہتیں۔ لیکن وعدہ کرتی ہیں کہ نقاد میں برابر مضامین لکھتی رہیں گی۔ میں خوش ہوں کہ کلی کی طرف سے جواب پاکیزہ، خدا کرے کلی والی کو بھی پسند آئے۔
’’دلگیر‘‘
اب اصل مضمون دیکھئے:
’’پژ مردہ کلی کا جواب‘‘
مجھے نقاش فطرت نے ایک شب، ہاں صرف ایک شب زندگی بسر کرنے کے لئے دنیا میں بھیجا۔ اس سے پہلے دیکھنے والوں کی نگاہوں میں میری حقیقت کچھ نہ تھی۔ مجھے لوگ صرف ’’مجموعہ انتشار‘‘ سمجھتے تھے۔ مگر اب تو سارا عالم میرا شیدائی ہے۔ ’’کسی‘‘ سے اپنی تعریف میں نے بھی سنی، جس سے میرا مرجھایا ہوا دل پھر کھل گیا۔ اب میرے دلی جذبات بھی سنیے، جن کو صرف میں ہی بیان کرسکتی ہوں۔
تمہارے یاسمینی سینہ پر ہاں میں کھلی ضرور کھلی
تمہارے دھڑکتے ہوئے سینہ کی حدت نے مجھے قبل از وقت کھلا دیا اور مرجھا بھی گئی کہ مجھ سے تمہارا اس طرح سونا نہ دیکھا گیا۔ اب تمہیں مجھ سے گلہ ہے، شکوہ ہے۔ بیشک ہوگا۔ لیکن آہ! باوجود تمہارے شفاف سینہ پر کھلنے اور مرجھانے کے تمہیں خبر ہی نہیں کہ میں کس وقت کھلی اور کب مرجھائی۔ طرہ یہ کہ تم نے میری ننھی ننھی جبش کو بغور دیکھا اور اس وقت بھی میری خبر نہ لی۔
میں ہلتی تھی تو تمہارا دل دھڑکتا تھا۔ نہیں تمہارا دل دھڑکتا تھا تو مجھے جنبش ہوتی تھی۔ مجھ میں اتنی حس و حرکت کہاں تھی کہ سر پٹکتی۔ میں چین سے سونے والوں کی بے خبری پر رشک کر رہی تھی کہ مجھ جیسی ہزاروں کلیاں اسی طرح ہر شب تمہارے دل گداز سینہ پر کھل کر اور مرجھا کر خاک میں مل گئی ہوں گی۔
تم مہ جبیناں عالم کو کیا اور کوئی نہیں ملتا کہ ہم دل گرفتوں اور بے زبانوں کو روز ستاتے ہو، تنگ کرتے ہو۔ تمہیں ہار ہو تو ہمارا ہی ہو۔ بازو بند چاہئے تو ہماری ہی چاہئے۔ سیج بچھے تو ہماری ہی بچھے۔ سنگھار ادھورا رہ جائے جو ہم نہ ہوں۔ غرض ہمارے بغیر گل ہی نہیں۔
آہ جب تم نے میری بیتابیوں اور آہوں سے خاموش لوریوں کا سا لطف اٹھایا او سوگئیں۔ اس وقت میں یہ نہیں کہہ سکتی کہ میں ’’نقرئی چھوٹی سی کشتی تھی‘‘۔ میری بساط ہی کیا ہے۔ مگر ہاں، اتنا ضرور کہوں گی کہ تمہارا شفاف سینہ ’’سطح آب نہ تھا‘‘۔ تمام رات تم بے فکری سے سویا کیں۔ ہائے نہ میرا کھلنا دیکھا نہ مرجھانا۔ صبح ہوتے ہی تمہاری نگاہ محور سب سے پہلے مجھ دل شکستہ ہی پر پڑی۔ اس نظر التفات کا کیونکر شکریہ ادا کروں۔
اف سوتے ہوئے میں نے تمہیں جس رنگ میں پایا، جو بات دیکھی، اب اس خواب کا خیال ہی کیا۔ جب میں ہی ہمیشہ کی نیند سوگئی تو تمہارے سونے کی تعریف کس طرح کروں۔
اچھی طرح جب صبح ہوگئی، رات ختم ہوچکی تو تم کہتی ہو۔ ’’کاش میں تجھے دیکھ سکتی، جب تجھ میں اول اول جنش شگفتگی پیدا ہوئی، میں اندازہ کرسکتی کہ تیری قبائے احرام کیونکر تار تار ہوئی‘‘۔ پیاری، اس وقت تم نے بات بھی نہ پوچھی، جب میں تڑپ تڑپ کر زبان حال سے کہہ رہی تھی
عالم عیش میں او چین سے سونے والی
چاک ہے مثل سحر دیکھ گریبان کس کا
آہ تم اب پوچھتی ہو کہ ’’میں پھر کلی ہوسکتی ہوں‘‘۔ نہیں ہوسکتی۔ میری اچھی چاہنے والی۔ فنا کے بعد بقا ممکن نہیں۔ جب مر مٹ چکی، پھر زندگی کہاں۔ سوکھنے کے بعد ہری کس طرح ہو سکتی ہوں۔ مگر تم غم نہ کرو۔ میرے لئے اپنا تنہا سا دل نہ کڑھاؤ۔ تمہیں تو ہر روز ہی مسرت حاصل رہے گی۔ تمہاری ہر رات میری نئی ہمجولیوں کے ساتھ بسر ہوگی۔ مگر ہاں نہ میرا رنگ ہوگا نہ میرا روپ اور نہ میری بو۔
یہ تمہاری وفاداری ہے کہ میرے پژمردہ ہونے پر، میرے سوکھنے پر بھی تم نے مجھے وہاں رکھا، جہاں تم کاغذ پر اب بھی خواب ہی دیکھ رہی ہو۔ اور میں اس صلہ جاں نثاری سے کتنی خوش ہوں کہ میری خاک بھی تمہارے دامن میں رہے گی۔ اگر میرا بس چلتا تو میں ہر شب نئی زندگی حاصل کرتی اور تمہارے سینہ پر بجائے دوسری کلیوں کے خود رہا کرتی۔ کیا یہ رشک مجھے فنا ہونے کے بعد بھی چین لینے دے گا۔ میری سوکھی ہوئی پتیاں جل جل کر اور خاک سیاہ ہوجائیں گی، جب یہ دیکھوں گی کہ ہر شب تمہارے دماغ کو کوئی دوسرا پھول تر و تازہ کر رہا ہے۔
تم جانتی ہو کہ میں کس باغ کا درخت اور کس شاخ کی کلی ہوں۔ نہیں۔ تمہیں کیا خبر۔ اچھا مجھ سے سنو۔
’’ایک چھوٹی سی بستی جس کا نام ’’عشق آباد‘‘ ہے۔ وہاں ایک باغ ہے (گلشن محبت)۔ کسی رنگیلے کا لگایا ہوا۔ اس کی مالک و حکمران ایک حسین شہزادی ہے۔ جس کا نازک خیالی و حسن کا تمام عالم میں شہرہ ہے۔ وہ ’’ملکہ شمس‘‘کہلاتی ہے۔ اسے پھولوں کا بے حد شوق ہے اور اس کے گلشن محبت میں پھول ہی پھول کھلے ہوئے ہیں۔ چمپا، چنبیلی، بیلا، موتیا، موگرا، جوہی، گل شبو، گلاب کے درخت اس نے اپنے دست سیمیں سے لگائے ہیں۔ جب ان درختوں میں پھول کھلے تو خود شہزادی ’’شمس‘‘ اپنی سہلیوں کے ساتھ گلشن محبت کی گل چینی کو چلی۔ باغ میں اس یوسف ثانی کے قدم رکھتے ہی تخلیہ ہوگیا۔ سہیلیوں کے ہمراہ شہزادی شمس خراماں خراماں مصروف گلگشت اور ٹہلتے ٹہلتے اس درخت کے پاس پہنچی، جس درخت کی ایک لچکدار اور جھکی ہوئی شاخ میں اسے ایک کلی نہایت ہی خوبصورت اور خوشبودار نظر آئی۔ یہاں پہنچتے ہی وہ ٹھٹکی، جھکی اور شاخ گل سے مجھے توڑ لیا۔ وہ کلی، ہائے وہی خوش نصیب کلی جسے آج تم نے اپے سینہ پر کھلا ہوا پایا۔ میں تھی۔ اب معلوم ہوا میں کون ہوں۔
تمہارے سینہ پر میں نے ایک رات بسر کی ہے۔ اسی لئے دوسری ناشگفتہ کلیوں سے افضل اور مرکز زندہ جاوید ہوگئی۔ ہاں میری اچھی محسنہ، تو مجھے وہیں بھیج جہاں مجھ سی خوش رنگ و خوشبو خوش نصیب کلی کے رہنے کے لئے اقسام ازل نے بائیں پہلو میں تنہا سا مزار میری پیدائش سے قبل بناکر تیار کر رکھا ہے۔ میں وہیں آرام کروں گی۔
’’یہی ہے اس شب کے خواب کی تعبیر‘‘
’’کہکشاں‘‘
اس پرچے میں ایک اور انشائیہ اسی انداز کا ثریا کے نام سے ملتا ہے۔ یہ شعر منشور بھی دراصل مولانا نیاز فتح پوری کی تخلیق ہے۔ (جاری ہے)
Prev Post