تحریک لبیک پاکستان پر پابندی کی کوشش پہلے بھی کامیاب نہیں ہوسکی تھی۔ پابندی لگوانے کیلئے الیکشن کمیشن میں کوششیں کی جا چکی ہیں۔ پی ٹی آئی رہنمائوں کی طرح مسلم لیگ کے رہنما بھی ٹی ایل پی پر پابندی کے خواہاں ہیں۔ تحریک لبیک الیکشن کمیشن کے ہر سوال کا جواب دے گی۔
ماضی کی طرح ایک بار پھر تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور وفاقی وزیر برائے اطلاعات فواد چوہدری کی جانب سے خواہش ظاہر کی گئی ہے کہ تحریک لبیک کی مرکزی قیادت کے جیلوں میں جانے کے بعد ان کی جماعت کا مستقبل مکمل طور پر ختم ہو گیا ہے۔ فواد چوہدری کا یہ بیان بھی جاری ہوا کہ حکومت اور ادارے اس حوالے سے ایک پیج پر ہیں کہ ٹی ایل پی پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔ تحریک لبیک کی قیادت نے جس طرح کے بیانات جاری کئے تھے، اس کے بعد ان کو، انہی کیسز کے تناظر میں جیلوں میں ڈالا گیا تھا۔ تاہم اب ضمانتیں ملنا شروع ہوگئی ہیں اور اب اس کے بعد ان کا مستقبل کسی بھی طرح کا نہیں رہے گا۔
معلوم رہے کہ سابق وزیر مملکت رانا محمد افضل خان بھی اس خواہش کا اظہار کرچکے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف قومی اسمبلی میں ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دینے کی قرارداد لائے۔ مسلم لیگ ’’ن‘‘ اس کی حمایت کرے گی۔ پی ٹی آئی اگر آرٹیکل 17 لائے گی تو نون لیگ خیر مقدم کرے گی۔ واضح رہے کہ ایک برس قبل مسلم لیگی حکومت کے آخری دنوں میں تحریک لبیک کی جانب سے اسمبلی کے باہر سخت اپوزیشن کا کردار اداد کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے ماضی کی حکومت اسی طرح کے جذبات کا اظہار کر رہی تھی۔ جس طرح تحریک انصاف کی حکومت اظہار کر رہی ہے۔ تاہم ٹی ایل پی پر پابندی لگانا اتنا آسان نہیں کہ اب اس کے دو منتخب ارکان سندھ اسمبلی میں موجود ہیں اور ہر اہم ایشو پر وہ بھرپور تحفظات کا اظہار اور احتجاج کرتے ہیں۔
وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے تحریک لبیک کراچی کے امیر علامہ رضی حسینی نقشبندی کا کہنا ہے کہ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے، اسی لئے وہ اس طرح کے بیانات دے رہی ہے۔ لیکن ان کی ایسی کوئی خواہش پوری نہیں ہونے دی جائے گی۔ حکومت کی جانب سے ڈیل کی خبریں پھیلانا اس بات کا ثبوت ہے کہ قائدین کی رہائی کا وقت قریب آگیا ہے۔ علامہ خادم حسین رضوی نے کوئی جرم نہیں کیا، کوئی بغاوت نہیں کی، کوئی دہشت گردی نہیں کی، کوئی غداری نہیں کی۔ حکومت کے لیے ان کو زیادہ دیر جیل میں قید رکھنا ممکن نہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ علامہ خادم رضوی ملعونہ آسیہ کے مسئلے پر نہ کوئی ڈیل کریں گے اور نہ ہی کوئی ڈھیل دیں گے۔ تحریک لبیک پاکستان کے خلاف سیاسی بنیادوں پر مقدمات قائم کئے گئے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ ٹی ایل پی کے خلاف قائم مقدمات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ تحریک لبیک کی لیگل ٹیمیں عدالت میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ اگر حکومت نے ایسا کوئی بھی اقدام اٹھایا تو اس کا بھر پور قانوی دفاع کیا جائے گا۔ علامہ رضی حسینی نقشبندی کا مزید کہنا تھا کہ ’’غیر سیاسی ہتھکنڈوں کے ذریعے ٹی ایل پی کا سیاسی راستہ روکا جارہا ہے۔ پُرامن احتجاج کے دوران ٹی ایل پی کے کارکنان پر گولیاں برسائی گئیں، لیکن ہم نے اپنے کارکنوں کو صبر و تحمل کا درس دیا۔ ہم نے کبھی ریاست کی رٹ کو چیلنج نہیں کیا۔ ہم نے اپنے کارکنان کو ریاست سے محبت کا درس دیا ہے۔ پاکستان کی حفاظت کی تلقین کی ہے۔ لیکن پھر بھی ہم پر دہشت گردی کے مقدمے بنائے گئے، جو یہ ظلم ہے۔ ٹی ایل پی جیسی پرامن تحریک پر دہشت گردی کے مقدمے بنانے والی حکومت خود دہشت گرد ہے۔ جس کی وجہ سے فواد چوہدری اس طرح کے بیانات دے رہے ہیں‘‘۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی نومبر 2018ء میں فیض آباد دھرنا کیس میں سپریم کورٹ میں رٹ دائر کرائی گئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ تحریک لبیک نے انتخابی اخراجات کی تفصیلات الیکشن کمیشن میں جمع کروائیں نہ ہی فنڈنگ کی معلومات جمع کرائی ہیں۔ اس حوالے سے تحریک لبیک پاکستان کو نوٹس بھی جاری کیا جا چکا ہے۔ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ تحریک لبیک نے 23 مارچ2017ء کو پارٹی رجسٹر کرانے کی درخواست الیکشن کمیشن کو دی تھی۔ درخواست موصول ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی کمیٹی نے پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے تحت تحریک لبیک کو رجسٹر کیا تھا۔ تحریک لبیک پارٹی کے مرکزی امیر حافظ خادم حسین رضوی کے نام پر رجسٹرڈ ہے۔ مزید بتایا گیا کہ تحریک لبیک پاکستان نے اس نام پر اعتراض کرتے ہوئے استدعا کی کہ پارٹی کو تحریک لبیک یا رسول اللہ کے نام سے رجسٹر کیا جائے۔ تحریک لبیک نے 2000 پارٹی کارکنوں کی فہرست اور2 لاکھ روپے فیس بھی جمع کروائی۔ خادم رضوی نے بیان حلفی جمع کروایا کہ کسی بھی غلط اورغیر قانونی ذرائع سے پارٹی کو فنڈنگ نہیں ہوتی۔ لیکن 60 روز بعد بھی تحریک لبیک پارٹی فنڈنگ کی تفصیلات الیکشن کمیشن کو جمع نہیں کرواسکی۔ تحریک لبیک پاکستان کو اس سلسلے میں نوٹس بھی جاری کیا جا چکا ہے۔ تاہم تاحال اس نوٹس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ اس کے بعد بھی پارٹی پر پابندی لگوانے کے بیانات منظر عام پر آئے تھے، مگر کوئی بھی عملی پیش رفت نہیں ہو سکی تھی۔
اس حوالے سے تحریک لبیک پاکستان کے لیگل ایڈوائزر ناصر منہاس ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ حکومت کسی بھی صورت تحریک لبیک کو کالعدم قرار نہیں دے سکتی، کیونکہ یہ ایک رجسٹرڈ جماعت ہے۔ پابندی لگانے کیلئے الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا جائے گا، جس کے بعد سپریم کورٹ اس پر پابندی عائد کر سکتی ہے۔ ٹی ایل پی نے الیکشن میں قومی اسمبلی کے 22 لاکھ ووٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں 19 لاکھ ووٹ حاصل کئے ہیں۔ یہ ایک سیاسی جماعت ہے۔ جس نے گوشوارے جمع کرائے ہوئے ہیں۔ فواد چوہدری کا بیان آئین کی خلاف ورزری ہے۔ یہ ایک آرگنائزیشن نہیں، بلکہ سیاسی جماعت ہے جو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہے اور لاکھوں لوگ اس سے وابستہ ہیں۔ فواد چوہدری نے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا ہے۔ جس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔
تحریک لبیک کے مرکزی ترجمان پیر اعجاز اشرفی کا کہنا ہے کہ فواد چوہدری وزیر اطلاعات کم اور وزیر فسادات زیادہ ہے۔ تحریک لبیک اسلامیان پاکستان کی جماعت ہے۔ اس کو کسی صورت کالعدم نہیں کیا جا سکتا۔ الیکشن کمیشن کا طلبی نامہ جو آیا ہے، اس حوالے سے قانونی تقاضا پورا کیا جائے گا۔
’’امت‘‘ نے وزیر اطلاعات فواد چوہدری سے بھی رابطہ کیا، تاہم انہوں نے فون ریسیو نہیں کیا۔