محمد قاسم
افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدے طے پانے کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق ایک موثر معاہدے کیلئے مرحوم ملا عمر کے بھائی ملا منان اور سراج الدین حقانی کے بھائی انس حقانی کو مذاکراتی ٹیم میں شامل کردیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق مذاکراتی ٹیم میں یہ تبدیلی طالبان کے نائب امیر اور سیاسی ونگ کے سربراہ ملا برادر نے کی ہے۔ دوسری جانب افغان صدر نے امن جرگہ بلانے کا مطالبہ کر دیا ہے، جس پر افغانستان میں مثبت ردعمل سامنے آیا ہے۔ ’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں ممکنہ جنگ بندی اور امریکی فوج کے انخلا کے معاہدے پر دستخط کرنے کیلئے طالبان نے اپنی مذاکراتی ٹیم میں بنیادی تبدیلیاں کردی ہیں۔ مذاکراتی عمل میں براہ راست طالبان کے روحانی پیشوا ملا محمد عمر کے بھائی ملا منان عمری اور سراج الدین حقانی کے بھائی انس حقانی کو شامل کیا گیا ہے۔ ملا منان 20 فروری سے قبل قطر پہنچ جائیں گے، افغان حکومت نے انہیں سفری دستاویزات مہیا کر دی ہیں۔ ’’امت‘‘ کے ذ رائع کا کہنا ہے کہ طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ اخونزادہ سے طویل مشاورت کے بعد بارہ رکنی رہبری شوریٰ نے طالبان کے سیاسی ونگ کے سربراہ اور نائب امیر ملا عبدالغنی برادر کی تجویز کو تسلیم کرتے ہوئے مذاکراتی ٹیم میں تبدیلی کی ہے۔ طالبان کے قطر دفتر کے ترجمان اور امارات میں طالبان کے سفیر سہیل شاہین کو مذاکراتی ٹیم سے علیحدہ کر دیا ہے۔ جبکہ مذاکراتی ٹیم کی سربراہی مولوی عباس استنکزئی کو دی گئی ہے۔ تاہم ان کی سرپرستی ملا عبدالغنی برادر کریں گے۔ ’’امت‘‘ کو موصول ہونے والے ملا عبدالغنی برادر کے جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ مولوی عباس استنکزئی کو مذاکراتی ٹیم کا سربراہ بنایا گیا ہے۔ جبکہ مولوی ضیاء الرحمان، مولوی عبدالسلام حنفی اور شیخ شہاب الدین دلاور ماضی کی طرح اب بھی مذاکراتی ٹیم کا حصہ ہیں۔ تاہم اب شہید امیر ملا منصور کے قریبی ساتھی عبداللطیف منصور، ملا عمر کے بھائی عبدالمنان عمری، طالبان دور کے سابق وزیر اطلاعات امیر خان متقی، طالبان کے آرمی چیف ملا فاضل، طالبان دور کے وزیر داخلہ ملا خیر اللہ خیر خواہ، طالبان انٹیلی جنس کے سربراہ مولوی مطیع الحق، حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی کے بھائی انس حقانی، طالبان دور کے وزیر سرحدات مولوی نور اللہ، مولوی محمد نبی عمری اور ملا عبدالحق کو بھی مذاکراتی ٹیم میں شامل کردیا گیا ہے۔ جبکہ محمد فاضل اخوند، مولوی دین محمد اور سہیل شاہین کو ہٹا دیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سہیل شاہین ترجمان کی حیثیت سے اپنا کام جاری رکھیں گے۔ ذرائع کے بقول انس حقانی اور ملا عبدالمنان کو ان اطلاعات کے بعد شامل کیا گیا ہے کہ امریکہ کے ساتھ مجوزہ معاہدے پر دستخط سے مولوی یعقوب جو طالبان کے جنوبی اور شمالی افغانستان کیلئے ملٹری چیف ہیں اور سراج الدین حقانی جو وسطی اور مشرقی افغانستان کیلئے طالبان کے ملٹری چیف ہیں، ان کی جانب سے مخالفت ہو سکتی ہے اور ان کے زیر اثر کمانڈر اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کر سکتے ہیں۔ تاہم اب مولوی یعقوب کے چچا مولوی منان اور سراج الدین حقانی کے بھائی انس حقانی کی مذاکراتی ٹیم میں شمولیت سے طالبان کے فیلڈ کمانڈر امریکہ کے ساتھ طے پانے والے معاہدے پر رضامند ہو جائیں گے اور معاہدے پر عملدرآمد آسان ہو جائے گا۔ ذرائع کے مطابق افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا اور افغان طالبان کی جانب سے مکمل جنگ بندی کے معاہدے پر جلد دستخط کا امکان ہے اور فوری طور پر اس کا اعلان بھی ہو جائے گا۔ دوسری جانب کابل میں روس کے سفیر الیگزینڈر مانٹس کی نے بھی کہا ہے کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدے پر دستخط کا امکان ہے۔ کیونکہ طالبان نے روس کو آگاہ کردیا ہے کہ وہ افغانستان میں جنگ بندی اور امریکی فوج کے انخلا کے منصوبے پر دستخط کیلئے تیار ہیں۔ جبکہ ’’امت‘‘ کے قریبی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان کی شوریٰ نے اپنی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ کو معاہدے پر دستخط کرنے کی اجازت دیدی ہے۔ اسی لئے مذاکراتی ٹیم میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ دوسری جانب افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے طالبان کی جانب سے افغانستان کی تمام اقوام کے ساتھ مذاکرات پر رضامندی کے بعد مطالبہ کیا ہے کہ طالبان اگر کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات نہیں کرنا چاہتے تو وہ ایک امن جرگہ بلائیں اور اس میں امن کیلئے اپنا منصوبہ پیش کریں۔ جرگے کی منظوری کے بعد حکومت اس منصوبے کو عملی شکل دینے کی پابند ہو گی۔ اشرف غنی کے اس اعلان کے بعد سابق افغان صدر حامد کرزئی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ لویہ جرگہ بلانے کی حمایت کرتے ہیں۔ کیونکہ افغان طالبان نے روس میں ہونے والے مذاکرات میں تمام افغان دھڑوں کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی تھی، اگر یہ مذاکرات لویہ جرگہ میں ہو جائیں تو ان کی زیادہ افادیت ہوگی۔ حامد کرزئی کے دفتر سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ لویہ جرگہ میں طالبان کے منصوبے کی منظوری میں مشکلات نہیں ہوں گی بلکہ یہ افغانستان کی تمام اقوام کا مشترکہ فیصلہ ہوگا۔ طالبان کے ساتھ قطر میں سابق جہادیوں اور سیاستدانوں کے مذاکرات میں طالبان کو لویہ جرگے پر راضی کیا جائے گا۔
٭٭٭٭٭