کراچی (اسٹاف رپورٹر)پولیس معاملات میں با اختیارآئی جی سندھ پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کو کھٹکنے لگا ہے۔ پولیس پر سیاسی کنٹرول کے اصل ہدف اور آئندہ بلدیاتی انتخابات کےپیش نظر پی پی نے ارشاد رانجھانی ہلاکت کا معاملہ سیاسی ایجنڈا کا حصہ بنا لیا ہے ۔ پروفیشنل کراچی پولیس چیف بھی حکومت کا ہدف ہیں ۔اعلیٰ پولیس افسران بھی فورس کو پیشہ وارانہ بنیاد پر استوار کرنے اور سیاسی دباؤ کا شکار نہ ہونےکیلئے پر عزم ہیں ۔ پولیس افسران کی جانب سے بھینس کالونی میں ارشاد رانجھانی قتل معاملے کی تفتیش پر حکام سے بھی سیاسی حکومت ناراض ہے ۔وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی جانب سے گزشتہ روز آئی جی سندھ کو لکھا گیا خط بھی اسی حکمت عملی کی کڑی ہے ۔باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے آئی جی سندھ کو پولیس افسران کے تقرر و تبادلوں سمیت روزمرہ کے انتظامی امور میں با اختیار بنائے جانے سے پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت سخت پریشان ہے اور اس کی پسند نا پسند کا معاملہ بڑی حد تک متاثر ہوا ہے۔ ارشاد رانجھانی معاملے پر پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی میں ایسے واقعات پہلے بھی پیش آتے رہے ہیں۔اعلیٰ پولیس افسران ڈاکوؤں کو پکڑ کر مارنے والے شہریوں کو شاباشی دیتے رہے ہیں ۔ایسے واقعات میں بعض اوقات حکومت سندھ آئی جی سندھ سے رپورٹ طلب کرنے کے ساتھ اپنا رد عمل بھی دیتی رہی لیکن ارشاد رانجھانی کی ہلاکت پر جس طرح کا شدید رد عمل آیا ہے، اس سے پہلے کسی واقعہ پر نہیں آیا۔سندھ پولیس کے اعلیٰ سطح کے ذرائع کا کہنا تھا کہ سابق ایس ایس پی راؤ انوار کی کارروائیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ جب نقیب اللہ کے قتل کا واقع پیش آیا تو راؤ انوار کو بہادر بچہ تک کہا گیا تھا جس سے ماورائے عدالت قتل کرنے والے اہلکاروں کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ اس وقت اور موجودہ وقت میں فرق یہ ہے کہ اس وقت پولیس میں تقرر و تبادلوں سمیت تمام انتظامی امور کسی نہ کسی طرح حکومت کے کنٹرول میں رہتے تھے لیکن انتظامی امور میں آئی جی سندھ کو با اختیار بنائے جانے کے بعد سے اعلیٰ صوبائی حکام کا رویہ کچھ اور ہے۔پی پی رواں سال بلدیاتی انتخابات کی بھر پور تیاری کر رہی ہے۔ ارشاد رانجھانی واقعے پر قوم پرستوں کے رد عمل کے پیش نظر پیپلز پارٹی کی قیادت نے بھی اس معاملے میں پیچھے نہ رہنے، پولیس کو دباؤ میں لانے کے ساتھ اس معاملے کو سیاسی ایجنڈے کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس سلسلے میں پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے نام شائع نہ کرنے کہ شرط پر بتایا کہ پہلے پولیس کی کسی کوتاہی،سیاسی مداخلت کو مرحلہ وار دبانے کی حکمت عملی اپنائی جاتی تھی۔ پویس میں جب بھی سیاسی مداخلت ہوئی تو پولیس افسران و اہلکاروں کی غفلت و کوتاہی کے معاملات میں زیادہ ابھر کر آتے ہیں۔ارشاد رانجھانی ہلاکت کے معاملے میں اعلیٰ پولیس افسران قانون کے مطابق پیشہ وارانہ ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں ۔نہ صرف رانجھانی پر فائرنگ کرنے والے یوسی چیئرمین رحیم شاہ کو گرفتار کیا گیا بلکہ اس کو بروقت اسپتال نہ پہچانے والے اہلکاروں اور افسران کے خلاف بھی کارروائی ہوئی۔ رحیم شاہ کیخلاف ثابت ہواکہ اس نے ارشاد رانجھانی کو گولی مارنے کے بعد اسپتال لے جانے نہیں دیاتھا۔پولیس افسر کا کہنا تھا کہ کوئی بھی شخص دفاع میں گولی چلاسکتا ہے لیکن اگر ڈاکو وغیرہ دوبارہ حملے کی پوزیشن میں نہ ہو تو اسے اسپتال لے جانے سے نہیں روکا جاسکتا۔ایک اور پولیس افسرنے نام شائع نہ کرنے کی شرط پرکہا کہ ارشاد رانجھانی کو پولیس کی جانب سے اسپتال کے بجائے تھانے لے جانے کے حوالے سے ایک افسر اور متعلقہ اہلکاروں کا بیان سامنے آ چکا ہے جس کے مطابق رانجھانی کو اسپتال لے جانے کے معاملے پر لوگ اتنے مشتعل تھے کہ وہ زخمی کو بھی چھیننا چاہتے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ڈاکو ان کے حوالے کیا جائے ۔پولیس اہلکاروں نےرانجھانی کو مشتعل افراد سے بچانے اور پہلے محفوظ مقام تک لانے کے لئے تھانے لے کر گئے۔ ان بیانات کی تحقیقات کر رہی ہے۔ پولیس افسر کا کہنا تھا کہ پولیس اس معاملے میں سیاسی کسی بھی دباؤ میں آئے بغیر حقائق پر مشتمل تحقیقات کر رہی ہے۔ پولیس اس معاملے میں کسی کو بچانے یاکسی بے جا قصور وار ٹھہرانے کا کام نہیں کرے گی۔اس حوالے سی اعلیٰ پولیس حکام نے واضح احکامات جاری کر رکھے ہیں۔اس معاملے کی جوڈیشل انکوائری ہونی ہے۔عدالت کے سامنے اب تمام حقائق آئیں گے۔ اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ارشا رانجھانی کے واقعے کو بہانہ بنا کر پیپلز پارٹی کی قیادت یا حکومت سندھ پولیس کو دباؤ میں لانے یا معاملے کو سیاسی ایجنڈے کا حصہ نہیں بنا رہی۔حکومت اپنی ذمہ داری پوری کر رہی ہے کیوں کہ سرعام ایک واقعہ آیا ہے اور سوشل میڈیا پر اس سلسلے میں مختلف باتیں کی جا رہی ہیں۔ حکومت سندھ اس سلسلے میں قانون کی پاسداری کو یقینی بنانا چاہتی ہے۔
٭٭٭٭٭
کراچی(رپورٹ:نواز بھٹو)سپریم کورٹ کی جانب سے پولیس کنکرنٹ لسٹ میں شامل معاملہ قرار دینے کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد سے سندھ حکومت و پولیس افسران میں دوریاں بڑھنے لگی ہیں ۔ پولیس افسران کی جانب سے سندھ حکومت کے جاری کردہ احکامات پر عمل درآمد کی رفتار سست پڑ گئی ہے ۔پولیس ایکٹ کی تیاری کی ہدایات پر پولیس حکام نے چپ سادھ لی ہے۔سندھ حکومت نے پولیس اصلاحات کیلئے لا اینڈ جسٹس کمیشن کی قائم کردہ کمیٹی کی سفارشات سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا ہے اور موقف اپنایا ہے کہ صوبے نظر انداز کر کے کیسے قومی پالیسی بن سکتی ہے ۔پولیس صوبائی معاملہ ہے۔سندھ حکومت نے پولیس کو کنکرنٹ لسٹ میں شامل قرار دینے کے عدالتی حکم کیخلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے کی تیاری کر لی ہے ۔ منگل کو سیکریٹری داخلہ عبدالکبیر قاضی نے وزیر اعلیٰ سندھ کو درخواست دائر کرنے کیلئے ماہر قانونی وکلا کی ٹیم بنانے کی سمری ارسال کر دی ہے ۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے پولیس کو کنکرنٹ لسٹ میں شامل معاملہ قرار دینے کے فیصلے اور لا اینڈ جسٹس کمیشن کی جانب سے پولیس اصلاحات کیلئے سابق آئی جی افضل شگری کی سربراہی میں قائم رپورٹ سامنے آنے کے بعد سے سندھ حکومت و پولیس حکام میں دوریاں بڑھنے لگی ہیں ۔صوبائی حکومت کے احکام پر عمل درآمد کی رفتار سست پڑ گئی۔ پولیس ایکٹ کی تیاری کے حکم پر پولیس حکام نے چپ سادھ رکھی ہے ۔سندھ حکومت نے پولیس ایکٹ 2019 کی تیاری کیلئے وزیر اعلیٰ کے مشیر بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کی سربراہی میں کمیٹی قائم کر رکھی ہے ۔کمیٹی نے صوبائی وزیر امتیاز احمد شیخ کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی قائم کی جس نے گزشتہ ماہ کے آخری ہفتے میں پولیس حکام کو پولیس آرڈر 2002 کی روشنی میں مسودہ تیار کر کے 3دن میں پیش کرنے کی ہدایت کی تھی ۔صوبائی حکام اس بات پر حیرت زدہ ہیں کہ پولیس افسران نے نہ صرف اب تک حکومت کو رپورٹ پیش نہ کی بلکہ وہ اس پر واضح جواب دینے سے بھی گریزاں ہیں البتہ آئی جی سندھ کی جانب سے محکمہ داخلہ کو سکھر اور حیدر آباد آر پی اوز کے تقرر سمیت5اسامیوں کی اپ گریڈیشن کا ریفرنس بھیجا ہے۔محکمہ داخلہ نے آرپی اوز کے تقرر پر آمادگی کا اظہار کر دیا تاہم دیگر تجاویز پر اعتراضات کر دیے ہیں۔آئی جی سندھ نے اے آئی جی ٹریفک سندھ کی پوسٹ کو آر پی اوسکھررینج،ایڈیشنل آئی جی سندھ کی پوسٹ آر پی او حیدرآباد،ڈی آئی جی سیکورٹی کی پوسٹ ڈی آئی جی آپریشن سندھ،ڈی آئی جی ٹریفک کی پوسٹ ڈی آئی جی کمپلین ری ڈریسل سندھ و ڈی آئی جی کرائم برانچ کی پوسٹ اپ گریڈ کر کے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن سندھ کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔سمری میں کہا گیا ہے کہ ان اسامیوں کی اپ گریڈیشن سے پولیس اصلاحات میں آسانی ہوگی اور خزانے پر بوجھ بھی نہیں پڑے گا۔محکمہ داخلہ سندھ نے ریفرنس پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے جوابی لیٹر میں آئی جی سندھ کو مطلع کیا ہے کہ سمری کے ساتھ آرگانوگرام ارسال کیا گیا نہ بتایا گیا کہ اسامیوں کی مجموعی تعداد کیا ہو گی۔سفارش کردہ اپ گریڈ اسامیاں بجٹ میں شامل نہیں۔ یہ بھی نہیں ان اسامیوں کے قواعد و ضوابط کیا ہوں گے اور افسران کے اختیارات کیا ہوں گے ۔ اس ضمن میں محکمہ داخلہ کے ایک اعلیٰ افسر نےسکھر اور حیدرآباد رینج کے لئے آر پی اوز کی تعیناتی کی تجویز کو اچھا قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے وزیر اعلیٰ بھی متفق ہیں ۔محکمہ داخلہ سندھ نے سابق آئی جی افضل شگری کی سربراہی میں قائم کمیٹی کی لا اینڈ جسٹس کمیشن کو بھیجی جانے والی سفارشات سے لا تعلقی کا اظہار کر دیا ہے ۔ رابطے پر سیکریٹری داخلہ سندھ عبدالکبیر قاضی نے امت کو بتایا کہ کمیٹی کی سفارشات پر اس وقت تک عمل نہیں کیا جاسکتا جب تک عدالت عظمیٰ اس ضمن میں ہدایات جاری نہ کر دے۔ہمیں عدالت سےہدایات ،کوئی آرڈر یا فیصلہ نہیں ملا۔ سندھ کا موقف واضح ہے کہ18ویں آئینی ترمیم کے تحت پولیس صوبائی معاملہ ہے، صرف حاضر سروس و ریٹائرڈ پولیس افسران کو سن کر،صوبوں کو نظر انداز کر کے کوئی پالیسی کیسے بنائی جاسکتی ہے؟۔اس معاملے میں صوبوں کو مدعو کر کے سفارشات طلب کی جاتیں لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔پولیس حکام صوبائی حکومتوں کو اعتماد میں لئے بغیر پالیسی پر عمل کر سکتے ہیں تو ان کی مرضی ہے۔ ہم خود پولیس اصلاحات چاہتے ہیں۔ اس ضمن میں جامع پالیسی مرتب ہونا اچھی بات ہوگی تاہم تمام اسٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لیا جانا چاہئے تھا۔پالیسی کو با ضابطہ طور پر قبول کر لیا گیا ہے تو اعلیٰ پولیس حکام اپ گریڈیشن کے لئے محکمہ داخلہ کو ریفرنسز بھیجنے کے بجائے وزیر اعلیٰ سندھ کو بریفنگ دیتے ۔ ہم بھی اداروں کے داخلی احتساب کے حامی ہیں لیکن اس کا کوئی طریقہ کارہونا چاہئے۔پولیس افسران ساتھی افسران کا احتساب کیسے کریں گے؟۔ دریں اثنا امت کو حاصل دستاویزات کے افضل شگری کی سربراہی میں لا وجسٹس کمیشن کی قائم کردہ کمیٹی50 سے زائد سفارشات کے ساتھ اپنی رپورٹ جنوری میں جمع کرا چکی ہے ۔ کمیٹی نے سفارش کی کہ داخلی احتساب و پولیس افسران سے متعلق شکایات نمٹانے کیلئے اضلاع سے صوبے کی سطح تک پولیس محتسب مقرر کیا جائے ۔سی پی اوکی سطح پر ایڈیشنل آئی جی کو پولیس محتسب بنایا جائے۔ وفاق میں ڈی آئی جی اسلام آباد کمیٹی کا سربراہ ہوگا۔ صوبائی کمپلینٹ اتھارٹیز سے متعلق وفاق اور متعلقہ صوبے نوٹیفکیشن جاری کریں گے۔ پولیس کے داخلی احتساب کے لئے صوبائی جسٹس کمیٹیاں بھی بنائی جائیں گی جو آزاد اور با اختیار ہوں گی ۔ ہر صوبے میں اے آئی جیز ریجنل و ایس ایس پیز ضلعی کمیٹیوں کے سربراہ ہوں گے تفتیشی عمل میں تبدیلیاں لاتے ہوئے اچھی ساکھ کے حامل افسران کو مقرر کیا جائے۔تفتیش کاروں کو عالمی اداروں سے تربیت دلائی جائے،مقامی سطح پر بھی سالانہ تربیتی کورس رکھے جائیں۔ تفتیشی اخراجات میں اضافہ کیا جائے،تفتیش کیلئے مخصوص ٹیمیں بنائی جائیں۔ فارنسک ٹیمیں تفتیش کاروں کی بھر پور معاونت کریں۔اچھے نتائج کیلئے ضروری ہے کہ تفتیشی افسران کو اختیارات کے تجاوز سے روکا جائے۔کسی بھی گرفتاری سے قبل تفتیش مکمل کی جائے۔10لاکھ کی آبادی کےحساب سے پولیس نظام بنایا جائے۔ کراچی ، لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، گوجرانوالہ، پشاور ، ملتان، حیدرآباد، اسلام آباد اور کوئٹہ کو اس فارمولے کے تحت تقسیم کیا جائے۔ بہتر کمانڈ کیلئے ٹریفک،آپریشن،لا اینڈآرڈر،انویسٹی گیشن،سیکورٹی،کمیونٹی ریلیشنز و کمیونی کیشن و ٹیکنالوجی کے سربراہ ڈی آئی جی مقرر کئے جائیں۔
٭٭٭٭٭