احمد خلیل جازم
مسجد راجگان پرانے خان پور میں واقع ہے۔ نیا خان پور الگ ہے۔ پرانا خان پور راجہ جہانداد خان نے بسایا تھا۔ چونکہ پرانا خان پور ڈیم کی نذر ہوگیا ہے۔ اس لیے یہاں سے آبادی نئے خان پور شفٹ کر دی گئی ہے۔ مسجد اگرچہ اس وقت خستہ حالت میں ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس کی تعمیر میں ایک شان اور سطوت قائم ہے۔ مسجد کے صحن میں اندرونی مین دروازے کے ساتھ پتھر اور چھوٹی اینٹوں سے ممبر بنا ہوا ہے۔ مسجد کے کمرے میں داخل ہوں تو اندرونی حصہ ماہر کاریگروں کی محنت کا نظارہ پیش کرتا ہے۔ ہر دروازے کے ساتھ ایک محرابی دیوار اٹھائی گئی ہے۔ جو اسے دوسرے حصے سے الگ کرتی ہے۔ یہ دیواریں محرابی شکل کی ہیں۔ جن کی محرابیں خالی ہیں۔ چنانچہ یہ دیواریں فقط کمرے کے اندرونی حسن کو ہی مہمیز دینے پر مامور ہیں۔ چونکہ مسجد کے اوپر گنبد نہیں اس لیے چھت میں خم نہیں ہے اور یہ سیدھی ہے۔ اس میں زیادہ تر لکڑی استعمال کی گئی ہے۔ اگرچہ اتنا وقت گزر گیا ہے لیکن لکڑی ایسی مضبوط ہے جو بظاہر سیاہی مائل تو ہوگئی ہے لیکن اس میں ایک دراڑ بھی دکھائی نہیں دیتی۔ مسجد کی دیواروں پر جا بجا چراغ رکھنے کے لیے جگہ متعین کی گئی ہے۔ جو اندرونی محراب کے ساتھ ساتھ صحن میں منبر کے ساتھ والے دروازے کے ساتھ بھی بڑے محرابی چراغ دانوں کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ مسجد کے میناروں پر نظر دوڑائیں تو ان سے خستگی واضح طور پر جھلک رہی ہے۔ چونکہ ان کی عرصہ دراز سے مرمت نہیںہوئی اس لیے ان سے برادہ گرتا رہتا ہے۔ لیکن مضبوطی کا یہ عالم ہے کہ باہر سے مسالہ گر چکا لیکن اندر جو مسالہ بھرا گیا ہے وہ موجود ہے۔ اسی وجہ سے مینار پوری آب و تاب کے ساتھ کھڑے ہیں۔ مسجد کی بیرونی دیواروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا پتھر ہندوستان کے مختلف علاقوں سے منگوایا گیا تھا۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ پتھر مقامی ہے جو ٹیکسلا کے پہاڑوں کا ہے۔ راجہ شیراز کا کہنا ہے ’’مسجد کی اندورنی تعمیر میں چھوٹی اینٹ اور پتھروں کو تراش کر نفاست سے استعمال کیا گیا ہے‘‘۔
مسجد کی دیکھ بھال اور تزئین نو کے حوالے سے راجہ شیراز کا کہنا تھا کہ ’’مسجد کی تزئین اور مرمت پر جتنے بھی اخراجات آتے ہیں وہ میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے۔ میں پہلے بھی مسجد کی آرائش کراتا رہتا تھا۔ کیونکہ ایک تو یہ میرا مذہبی فریضہ ہے۔ دوسرے میرے پرکھوں کی نشانی ہے۔ لیکن اب بوجوہ مرمت کا کام رکا ہوا ہے۔ کیونکہ یہ جگہ پہلے ہی متنازعہ ہے۔ اگر مسجد پر کام شروع کرایا جاتا ہے تو پھر شاید یہ کہا جائے گا کہ میں دوبارہ اپنی زمینوں کو آباد کرنا چاہتا ہوں۔ میں انتظامیہ سے مسجد کی مرمت کے حوالے سے رابطے میں ہوں اور مجھے امید ہے کہ اس تاریخی ورثے کو بچانے کے لیے انتظامیہ تعاون کرے گئی۔ اس وقت مسجد کی ایک دیوار تقریباً گرنے کے قریب ہے۔ مسجد کے دائیں جانب تہہ خانے کی چھت گر چکی ہے۔ اسے دوبارہ تعمیر کرنا ازحد ضروری ہے‘‘۔ مسجد کے سامنے واقع قبروں کے حوالے سے راجہ شیراز نے بتایا کہ ’’یہ تمام قبریں ڈیم بننے کے بعد کی ہیں۔ یعنی جب ہماری زمینیں خالی کرائی گئیں تو ہمیں اپنا آبائی قبرستان بھی چھوڑنا پڑا۔ چنانچہ اس قبرستان میں سلطان راجہ جہانداد سمیت خاندان کے دیگر لوگوں کی قبریں دریا برد ہوگئیں۔ اب وہ قبریں ہیں تو مسجد کے قریب ہی لیکن پانی کے اندر ہیں۔ دراصل یہ علاقہ سلطان سارنگ خان کے پوتے سطان فتح خان کے نام پر آباد کیا گیا۔ جب فتح خان پیدا ہوا تو اسے یہ ریاست دادا نے تحفے میں دی تھی۔ اس وقت اس علاقے کا نام ان کے نام پر خان پور رکھا گیا۔ بعد ازاں جب سکھوں کی حکومت آئی تو انہوں نے ہمارے آبا و اجداد کو یہاں بہت تنگ کیا۔ لیکن ہمارے بزرگوں نے سکھوں کو کبھی مالیہ وغیرہ ادا نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے ان پر بے تحاشہ مظالم ہوئے‘‘۔ اس حوالے سے عقیل عباس جعفری اپنی کتاب ’’پاکستان کے سیاسی وڈیرے‘‘ میں لکھتے ہیں ’’1820ء میں ہزارہ کا علاقہ ہری سنگھ نلوہ ناظم کشمیرکے سپرد کیا گیا۔ مگر اس سے یہ انتظام نہ چل سکا۔ سردار ہری سنگھ نے ہزارہ پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے ہر ایک پر بلا تمیز حملہ کیا۔ چنانچہ گکھڑوں کی حالت خراب ہوتی گئی۔ سردار ہری سنگھ نے وقت پر نذرانہ ادا نہ کرنے پر راجہ نجف خان کو علاقے سے باہر نکال دیا‘‘۔ اسی راجہ نجف خان کے پوتا راجہ جہانداد خان تھا۔ جس کی اگرچہ بعد میںغلطی معاف ہوگئی تھی اور اسے جاگیر عطا ہوئی۔ لیکن یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ گکھڑوں نے سکھوں کو مالیہ کبھی نہیں دیا تھا۔ شیراز حیدر نے بتایا ’’جس وقت راجہ حیدر بخش کا انتقال ہوا تو سکھوں نے ہمارے علاقے اور گھربار پر قبضہ کرلیا۔ راجہ حیدر بخش کی بیوی ’اجی صاحب جان‘ جو راجہ جہانداد کی ماں تھی، نے سکھوں سے لڑائی کی اور اپنی زمینیں واگزار کرائیں۔ اس وقت راجہ جہانداد سات برس کا تھا‘‘۔ پاکستان کے سیاسی وڈیرے میں عقیل عباس جعفری مزید لکھتے ہیں کہ ’’راجہ حیدر بخش کا بیٹا راجہ جہانداد خان تھا۔ اسے انگریزوں نے 1877ء میں ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر اور اس کی سالانہ تنخواہ 4800 روپے مقرر کی۔ راجہ جہانداد نے کابل میں پولیٹیکل افسر کے فرائض بھی انجام دئیے۔ جس کے صلے میں اس کو خان بہادر کا خطاب اور چھ سوروپے کی جاگیر عطا ہوئی‘‘۔ راجہ جہانداد نے خان پور میں جب اپنا محل تعمیر کیا تو اس کے ساتھ مسجد کی تعمیر بھی ضروری سمجھی‘‘۔ اس حوالے سے راجہ شیراز حیدر کا کہنا ہے ’’جب محل تعمیر ہوا تو ساتھ ہی مسجد کی تعمیر کے لیے کراچی، پشاور، کشمیر اور پوٹھوہار سے علمائے کرام کو دعوت دی گئی کہ وہ خان پور آئیں اور مسجد کے سنگ بنیاد کی تقریب میں شرکت کریں۔ اس وقت قریباً آٹھ دس ہزار کے قریب لوگ خان پور میں آئے۔ چونکہ راجہ جہانداد کے ریاستی نظام میں مذہبی کونسل بھی موجود تھی۔ چنانچہ اسی کے تحت اس مسجد کی تعمیر شروع ہونی تھی۔ مسجد کا کل رقبہ چار کنال کے قریب ہے۔ میرے بڑے دادا راجہ جہانداد کے بارے میں یہ شہرت تھی کہ وہ انتہائی پرہیزگار اور تہجدگزار شخص تھے۔ انہوں نے سُچی داڑھی رکھی ہوئی تھی۔ چہرے پر کبھی استرا نہیں لگنے دیا۔ علمائے دین ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ چنانچہ بڑے بڑے علمائے دین اور معززین مسجد کے سنگ بنیاد کے موقع پر پہنچ گئے۔ جب مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے کا وقت آیا تو راجہ جہانداد نے کہا کہ اس کا سنگ بنیاد وہ شخص رکھے جس نے ساری زندگی کوئی شرعی عیب نہ کیا ہو۔ جس نے کبھی کسی غیر محرم عورت کی شکل نہ دیکھی ہو۔ اس پر پنڈال میں سناٹا چھا گیا۔ کوئی بھی آگے نہ بڑھا۔ اس موقع پر راجہ جہانداد نے پنڈال کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ لوگ گواہ رہیں کہ میں نے ساری زندگی کبھی کوئی شرعی عیب نہیں کیا اور سوائے اپنی دو منکوحہ بیویوں کے نہ ہی کسی غیر محرم عورت کی شکل دیکھی ہے۔ چنانچہ انہوں نے خود آگے بڑھ کر مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔ بعد ازاں جب تک راجہ جہانداد زندہ رہے انہوں نے خود ہی اس مسجد میں امامت کے فرائض بھی نبھائے۔ بلکہ جب ان کا آخری وقت قریب آیا تو اس روز عید کا خطبہ دیا اور نماز پڑھائی اور لوگوں سے استدعا کی کہ میرے لیے ایک دعا کریں کہ مجھے رب العزت کل کا سورج نہ دکھائے۔ لوگوں نے کہا کہ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ راجہ جہاندادنے کہا کہ اگر کل کا سورج میں نے دیکھ لیا تو میری عمر تریسٹھ برس سے بڑھ جائے گی۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ آقائے دو عالمؐ سے ایک دن بھی میری عمر زائد ہوگئی تو یہ گستاخی کے زمرے میں آئے گا۔ وہی دن تھا۔ سارا دن لوگوں سے عید ملتے رہے اور شام کے وقت میں تھوڑی دیر کے لیے قیلولہ کرنے کے لیے کمرے میں گئے۔ آدھے پونے گھنٹے بعد جب انہیں اٹھایا گیا تو جان جانِ آفرین کے سپرد کر چکے تھے۔ خدا نے ان کی خواہش کا مان رکھ لیا تھا۔ اس کے بعد ان کی تدفین کنڈاں والا باغ میں ہوئی۔ بعد ازاں ان کی دو بیگمات اور تین بیٹوں کی تدفین بھی وہیں ہوئی۔ پھر جب ڈیم بنا تو اس وقت سے وہ قبریں پانی سے باہر نہیں نکل سکیں۔ البتہ مسجد کے ساتھ جو قبریں ہیں، یہ ڈیم بننے کے بعد کی ہیں۔ جب ایوب خان نے یہاں ڈیم بنانے کا عندیہ دیا تو اس وقت سب لوگ زندہ تھے۔ چنانچہ پھر انہیں مسجد کے سامنے جو قطعہ ہے اس میں دفن کیا۔ مسجد تک تو پانی کبھی نہیں آسکا۔ اس وجہ سے بعد میں بننے والی قبریں اب تک محفوظ ہیں‘‘۔
مسجد راجگان اسی راجہ جہانداد کی نشانی ہے جو متقی اور پرہیزگار مشہور تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ڈیڑھ صدی گزرنے کے باوجود آج بھی یہ مسجد اور اس کا نام قائم ہے۔ اگرچہ اب اس پر خستگی نے ڈیرے ڈالنے شروع کردئیے ہیں اس کے باوجود اس کا فن تعمیر دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ جس نے بھی یہ مسجد تعمیر کرائی تھی اس نے اس کی نفاست میں کوئی کمی نہ ہونے کا عہد کر کے اسے تعمیر کرایا۔ مسجد راجگان کے اندر جو چھت ہے اس میں دیار کی لکڑی استعمال کی گئی ہے۔ شیراز حیدر کے بقول ’’اس مسجد اور محل کی تعمیر دس برسوں میں مکمل ہوئی اور اس وقت 1872ء میں اس پر ساڑھے دس لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ مسجد اور محل کے لیے لکڑی وادی لیپہ سے منگوائی گئی تھی۔ اسی لکڑی سے دروازے بھی بنائے گئے۔ بلجیم سے شیشہ منگوا کر مسجد اور محل میں لگوایا گیا۔ کھڑکیوں اور دروازوں پر بھی یہی شیشہ لگوایا گیا تھا، جو رفتہ رفتہ ٹوٹ کر ختم ہوگیا۔ مسجد کے دروازوں پر جو ہک لگائے گئے، وہ فرانس سے منگوائے گئے تھے۔ یہ سب کچھ زمانے کی دست برد کا شکار ہوگیا ہے۔ واپڈا والوں نے جب ہمارا محل گرایا تو اس کے بعد مسجد بھی گرانا چاہتے تھے۔ لیکن مقامی لوگ آڑے آگئے‘‘۔ مسجد خدا کا گھر ہے اور اپنے گھر کی حفاظت خدا خود کرتا ہے۔ مسجد راجگان کو آج تزئین و مرمت کی سخت ضرورت ہے۔ اگر جلد از جلد اس سلسلے میں اقدامات نہ کیے گئے تو وہ دن دور نہیں جب یہ مسجد کھنڈر میں تبدیل ہوجائے گی۔ راجہ شیراز حیدر اس حوالے سے خاصے متحرک ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’’جو تہہ خانہ گرا ہے۔ اس پر دس سے بارہ لاکھ روپے خرچ ہوں گے، جو میں نے الگ رکھے ہوئے ہیں۔ باقی مسجد کی مرمت پر جو اخراجات آئیں گے وہ بھی میں کرنے کو تیار ہوں۔ صرف اجازت ملنے کی دیر ہے اور یہ اجازت واپڈا سے ملے، جس کے لیے پہلے ہی درخواست سے رکھی ہے‘‘۔
٭٭٭٭٭