سرفروش

0

عباس ثاقب
میری بات سن کر سکھبیر نے احتجاج بھرے لہجے میں کہا ’’یہ تم نے کیسی بات کر دی ذاکر بھائیا؟ اتنے خطرناک کام کے لیے میں تمہیں اکیلا کیسے بھیج سکتا ہوں؟ اگر تمہارا نشانہ اچٹ گیا تو تمہارا کام پورا کرنے اور تمہیں بچا کر وہاں سے نکالنے کے لیے کوئی اور بھی تو ساتھ ہونا چاہیے ناں؟ ہم لوگ یہاں تماشا دیکھنے آئے ہیں کیا؟‘‘۔
میں نے سمجھانے کی کوشش کی ’’بھائی میں یہ بات اس لیے کر رہا ہوں کہ اکیلا بندہ مشکل سے نظروں میں آتا ہے۔ میں اچانک اسے نشانہ بناؤں گا اور کسی کے کچھ سوچنے سمجھنے سے پہلے ہی وہاں سے نکل بھاگوں گا۔ جتنے زیادہ لوگ ساتھ ہو ں گے، وہاں سے فرار ہونا اتنا ہی مشکل ہو جائے گا‘‘۔
سکھبیر نے میری بات سے اختلاف کیا ’’دیکھو بھائی۔ تمہارا منصوبہ برا نہیں۔ لیکن یہ نہ بھولو کہ وہاں پولیس والے اور مٹھو سنگھ کے کارندے بھی رکھوالی کے لیے موجود ہوں گے۔ تم ان میں سے کسی کی نظر میں بھی آسکتے ہو اور وہ تمہیں پیچھے سے باآسانی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ تمہیں کور دینے کے لیے کم ازکم ایک بندہ ضرور ساتھ ہونا چاہیے‘‘۔
میں نے کہا ’’بھائی میری اس تجویز کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ آپ لوگ نظروں میں آؤ۔ میں یہاں اجنبی ہوں۔ مجھے کوئی نہیں پہچان سکتا۔ لیکن آپ لوگ شناخت ہوگئے تو شدید مشکل میں گرفتار ہوجاؤ گے‘‘۔
سکھبیر نے کہا ’’بھائیا جی تم ہماری فکر نہ کرو۔ جان دینے کا سوچ کر ہی ہرمندر صاحب سے نکلے ہیں۔ کوئی پیچھے آیا تو اس سے نمٹ لیں گے۔ میں خود تمہارے ساتھ پنڈال میں جاؤں گا۔ جہاں تک پہچانے جانے کا سوال ہے۔ تمہاری بات رکھنے کے لیے میں چادر کی بکل باندھ کر منہ چھپائے رکھوں گا‘‘۔
میں نے اسے مزید سمجھانا بے سود سمجھا۔ اس دوران ہم حویلی کے بہت قریب پہنچ چکے تھے۔ نیم پختہ سڑک مٹھو سنگھ کے عالی شان ٹھکانے کے پہلو میں مڑ کر پیچھے کی طرف آگے بڑھی اور حویلی کا نصف چکر کاٹ کر لگ بھگ ایک کنال پر بنے پنڈال کے پاس کھڑے کئی تانگوں، بیل اور گدھا گاڑیوں اور چار پانچ موٹر سائیکلوں کے پاس جاکر رک گئی۔
میں نے لگ بھگ تین فٹ اونچی چار دیواری والے پنڈال کے اندر نظر دوڑائی۔ مجھے اس وقت وہاں پچیس تیس کے قریب افراد چٹائیوں پر بیٹھے نظر آئے۔ البتہ سامنے ایک فٹ کے قریب بلند چبوترے پر بچھے قالین پر رکھے چار مونڈھوں اور بید کی ڈوریوں والی قیمتی کرسی پر اس وقت کوئی موجود نہیں تھا۔ کرسی کے سامنے رکھی بھاری نقشیں میز بھی بالکل خالی تھی۔ مجھے وہاں کوئی پولیس اہلکار یا مسلح کارندہ بھی دکھائی نہیں دیا۔
مجھ سے پہلے سکھبیر نے ردِ عمل ظاہر کیا۔ اس کا مخاطب مہتاب سنگھ تھا ’’یار وہ تو ہے ہی نہیں۔ لگتا ہے آج دربار نہیں لگائے گا وہ سور کی اولاد‘‘۔
مہتاب سنگھ نے کہا ’’نہیں بھائیا جی۔ ایسی بات ہوتی تو اتنے بندے یہاں کیوں ہوتے؟ شاید لوگ آگے والی جگہ قابو میں کرنے کے لیے وقت سے پہلے آجاتے ہوں گے۔ وہ ضرور آئے گا۔ بس ہمیں انتظار کرنا پڑے گا‘‘۔
میں نے سکھبیر سے کہا ’’یار میرا خیال ہے یہ اپنا مہتاب ٹھیک کہہ رہا ہے۔ اور یہ تو ہمارے حق میں اچھا ہے۔ ہم مٹھو سنگھ یا اس کے کارندوں کی نظروں میں آئے بغیر لوگوں کے ہجوم میں شامل ہوکر بیٹھ جائیں گے اور اچانک اپنا کام کرکے نکل بھاگیں گے‘‘۔
سکھبیر کو اگر میری بات پر کوئی اعتراض تھا بھی تو اس نے اظہار نہیں کیا۔ بلکہ چادر کی بکل مارکر جیپ کے پچھلے حصے سے نیچے اتر گیا۔ میں نے اس کی پیروی کی۔ تاہم میں نے چادر میں منہ نہیں چھپایا تھا۔ ہم دونوں نے اشارے سے اپنے دونوں ساتھیوں کو ہتھیار نکال کر تیار رہنے کو کہا اور نپے تلے قدموں سے بغیر دروازے والے داخلی راستے سے گزر کر پنڈال میں پہنچ گئے۔ وہاں پہلے سے موجود افراد میں سے صرف چند ایک نے سرسری نظروں سے ہمیں دیکھا اور پھر پہلے کی طرح آپس میں باتوں میں لگ گئے۔
ہم باقی لوگوں کے درمیان ہی موجود ایک خالی جگہ پر آلتی پالتی مارکر بیٹھ گئے۔ اسٹیج سے میرا فاصلہ دس بارہ فٹ سے زیادہ نہیں تھا اور چادر کے اندر میرا ہاتھ پستول کے دستے پر تھا۔ میری نظریں اسٹیج کے عین عقب میں حویلی کی طرف کھلنے والے راستے پر جمی ہوئی تھیں۔ سامنے ہی حویلی کا اونچا اور مضبوط عقبی دروازہ دکھائی دے رہا تھا جو اس وقت بند تھا۔
بالآخر اس دروزے میں جنبش ہوئی اور ایک پستہ قد، پلا پلایا کارندہ باہر نکلا۔ اس نے شانے پر ایک دو نالی شاٹ گن لٹکا رکھی تھی۔ وہ پنڈال کی طرف آیا اور غالباً وہاں موجود افراد کی تعداد کا تخمینہ لگاکر واپس حویلی میں چلا گیا اور دروازہ ایک بار پھر بند ہوگیا۔
سکھبیر نے سرگوشی میں مٹھو سنگھ کو گالی دے کر مایوسی کا اظہار کیا۔ میں نے اسے تسلی دی کہ یہ اچھی علامت ہے۔ جلد یا بدیر، مٹھو سنگھ ضرور پنڈال میں آئے گا۔ شاید وہ لوگوں کی تعداد میں مناسب اضافہ ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔ اس نے نیم دلی سے میری تائید کی۔ ہمیں انتظار کرتے مزید ایک گھنٹا گزر گیا۔ مگر مٹھو سنگھ نے شکل نہ دکھائی۔ البتہ اس کا وہی مسلح کارندہ اس دوران دو چکر لگا کر جا چکا تھا۔ اس دوران وہاں موجود افراد کی تعداد لگ بھگ دگنی ہوچکی تھی اور پنڈال کے ’’پارکنگ لاٹ‘‘ میں اب ایک ٹریکٹر کا بھی اضافہ ہو چکا تھا۔
خدا خدا کر کے ایک بار پھر حویلی کا دروازہ کھلا اور اس بار شاٹ گن بردار کارندے کے علاوہ تھری ناٹ تھری اینفیلڈ ٹو رائفل لٹکائے دو سنتری بھی حویلی سے برآمد ہوئے۔ ان میں سے مٹھو سنگھ کا ذاتی محافظ چبوترے کے قریب کھڑا ہوگیا۔ جبکہ دونوں سنتری عقبی دروازے کے پاس بچھی ایک بینچ پر بیٹھ گئے۔ تاہم ان تینوں پر ایک نظر ڈالنے سے اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ انہیں مٹھوسنگھ کی سلامتی کے حوالے سے کوئی اندیشہ نہیں ہے اور وہ محض رسمی کارروائی پوری کر رہے ہیں۔ میں نے اس خوش امیدی کو بمشکل ذہن سے جھٹکا کہ اس درجہ بے فکری کے باعث شاید ان کی بندوقیں پہلے سے لوڈ بھی نہ ہوں۔
سکھبیر نے میری طرف دیکھا اور پھر آنکھ کے اشارے سے مشورہ دیا کہ مٹھو سنگھ کو نشانہ بنانے کے بعد ہمیں ہجوم کے بائیں طرف سے گزر کر عقبی دروازے کی طرف بڑھنا چاہیے۔ میں نے بھی نظروں ہی نظروں میں اس کی تجویر کی تائید کی۔ کیونکہ اس طرح شاٹ گن بردار کارندے اور دونوں سنتریوں کے لیے ہم پر براہ راست گولی چلانا ممکن نہ رہتا اور ہم اس دوران میں ان پچاس ساٹھ بدحواس لوگوں کی آڑ میں چھپ کر پنڈال سے بحفاظت نکلنے میں کامیاب ہو جاتے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More