نجم الحسن عارف
پچھلے برس ہونے والے عام انتخابات کو کالعدم قرار دینے اور نئے الیکشن کے مطالبے کے ساتھ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دھرنا دینے کیلئے مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت نے ہوم ورک شروع کر دیا ہے۔ مردان میں ملین مارچ کے نام سے پاور شو کرنے کے بعد قوت کا ایک اظہار صوبہ سندھ میں بھی کرنے کا امکان ہے۔ تاکہ ایک جانب جے یو آئی اور مدارس کی قوت کو متحرک کریں اور دوسری طرف اپوزیشن کی جماعتوں کو زیادہ سے زیادہ تعاون اور اشتراک پر اپنی قیادت میں اکٹھا کرنے کی کوشش کرسکیں۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں مولانا فضل الرحمان نے اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لینے کی کوشش کی ہے۔ قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف سے اس پس منظر میں مولانا کے صاحبزادے اور رکن قومی اسمبلی اسعد محمود نے ملاقات کی ہے۔ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو بھی اعتماد میں لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ تاہم ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پی پی کی جانب سے نسبتاً زیادہ گرم جوشی کے ساتھ جواب دیا گیا، جبکہ مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے فوری طور کھلی حمایت سے گریز کیا ہے۔ البتہ اصولی حمایت جاری رکھی جائے گی۔ نیز آنے والے دنوں میں نواز لیگ کی طرف سے زیادہ حمایت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کی مشکلات کے پیش نظر سیاسی خلا کو پر کرنے کیلئے مولانا فضل الرحمان خود کو آگے آنا چاہتے ہیں۔ مزید یہ کہ وہ اپنے صاحبزادے اسعد محمود کے سیاسی ورثہ منتقل کرنے کیلئے ابھی سے کام کرنا چاہتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں نواز لیگ اور پی پی نے 2018ء کے عام انتخابات کے بعد مولانا فضل الرحمان کی اسی وجہ سے کھلی حمایت کرنے سے گریز کیا تھا، کہ وہ نہیں چاہتیں کہ مولانا فضل الرحمان مکمل طور پر ان کے متبادل کے طور پر موجود ہوں۔ دونوں جماعتوں کے رویے کو مولانا نے پسند نہیں کیا تھا اور اس پر دونوں جماعتوں کے اعلیٰ قائدین کے سامنے مختلف انداز میں اظہار خفگی بھی کیا تھا۔ تاہم اب جبکہ دونوں بڑی جماعتوں کی قیادت نیب کیسز کے چنگل سے نکلنے کی امید رکھتی ہیں اور پی ٹی آئی حکومت کو ہر میدان میں اپنی ناکامی محسوس ہو رہی ہے، نواز لیگ اور پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ مولانا اگر اپنے طور پر میدان میں نکلتے ہیں تو فوری طور پر نہ سہی تو دوسرے مرحلے میں ان کی سیاسی اور اخلاقی مدد کرنے میں قباحت نہیں۔ ان حالات میں مولانا فضل الرحمان سمجھتے ہیں کہ ان کے لئے اور ان کے صاحبزادے کے لئے ملک کے اندرونی منظر نامے میں جتنی بھی گنجائش بڑھے، ان کیلئے مفید ہے۔ خصوصاً جبکہ افغانستان میں بھی منظر نامہ بدل رہا ہے اور مولانا سمیع الحق کی شہادت کے بعد صوبہ خیبر پختون میں میدان ان کیلئے صاف ہے۔ نیز صوبے کی قوم پرست جماعتیں بھی عمران خان کی حکومت سے سخت نالاں ہیں اور حکومت کے مقابلے میں اپنا وزن مولانا فضل الرحمان کے پلڑے میں ڈال سکتی ہیں۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کا خیبر پختون میں دوسری بار مسلسل حکومت قائم کرلینے کے مضمرات کے ازالے کیلئے بھی قوم پرست پارٹیاں اور مولانا فضل الرحمان ایک جیسی سوچ رکھتے ہیں۔ اس لیے جب مولانا اسلام آباد کے دھرنے کیلئے نکلیں گے تو قوم پرست جماعتوں عوامی نیشنل پارٹی، حتی کہ منظور پشتین کی پی ٹی ایم بھی اپنے انداز سے ان کی مدد کو تیار ہو سکتی ہے۔ جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کیلئے یہ سنہری موقع ہو سکتا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کی حکومتی سطح پر ناکامی کی طرف بڑھنے کے تاثر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کم از کم تیسری بڑی سیاسی جماعت کا تعارف حاصل کرنے کیلئے میدان میں اترے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان اگر ماہ اپریل میں اسلام آباد میں دھرنا دیتے ہیں تو اپوزیشن جماعتوں کے حامی اور مقامی کارکنان اپنے اپنے انداز میں جے یو آئی کی مدد کو اسی طرح پہنچ سکتے ہیں، جس طرح فیض آباد انٹر چینج پر تحریک لبیک پاکستان کی طرف سے دیئے گئے دھرنے کے موقع پر ان جماعتوں کے حامیوں نے کھانے پینے کی اشیا کی فراہمی کی ذمہ داری خود ہی اپنے ذمے لے لی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس اخلاقی مدد سے جہاں شرکائے دھرنا کے حوصلے بڑھیں گے، وہیں اس دھرنے کے طویل ہونے کا امکان بھی بڑھ سکے گا۔ جبکہ اگلے مرحلے پر اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں اپنی حمایت کے پیرائے اور انداز میں تبدیلی پیدا کر سکیں گی۔ ضروری ہو گیا تو اپوزیشن کی دوسری جماعتیں اپنے کارکنوں کو بھی کال دے دیں گی۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ذرائع کا کہنا ہے کہ امکانی طور پر مردان کے بعد صوبہ سندھ میں بھی جے یو آئی کے پلیٹ فارم سے بڑی سرگرمی کی جائے گی۔ نیز سندھ میں بھی مذہبی جماعتوں کی قیادت کو اسی طرح دعوت دی جائے گی جس طرح مردان میں ملین مارچ سے خطاب کے حوالے سے دی گئی، تاکہ شان ناموس رسالت کے حوالے سے دینی جذبے اور قوت کا بھر پور اظہار کیا جاسکے۔ ان ذرائع کے بقول جے یو آئی نے اسلام آباد میں دھرنا دینے کیلئے کسی حتمی تاریخ کا فیصلہ یا اعلان نہیں کیا ہے۔ اس سلسلے میں مشاورت کے ابھی کئی دور ہوں گے۔ اس مشاورتی عمل میں پارٹی سے باہر کی جماعتوں کے دوستوں کو بھی شریک کیا جائے گا۔ تاہم ذرائع کا کہنا تھا کہ اسلام آباد مین دھرنا امکانی طور پر ماہ اپریل میں ہوگا۔ کیونکہ اپریل میں اسلام آباد کا موسم ہر حوالے سے ساز گار ہو چکا ہو گا۔ ذرائع کے مطابق افغانستان میں طالبان کے ساتھ امریکی مذاکرات کے نئے آغاز کے بعد جے یو آئی کی صوبہ خیبر پختون سمیت پورے ملک میں اہمیت بڑھ جائے گی۔ اس ماحول میں جے یو آئی کو غیر معمولی طور پر متحرک کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
٭٭٭٭٭