ترتیب و پیشکش
ڈاکٹر فرمان فتحپوری
ماہ نامہ ’’نقاد‘‘ اپنے زمانے کا ایک اہم اور مقبول پرچہ تھا۔ اس کے بانی و مدیر شاہ نظام الدین دلگیر تھے۔ سوا دو سال کے بعد جوائنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے اس میں قمر زمانی بھی شریک ہوگئیں تھیں۔ اس کے معاصر پرچوں میں دلگداز، مرقع عالم، المعارف، ادیب مخزن، دکن ریویو، اردوئے معلیٰ، زمانہ، علی گڑھ منتھلی، الندوہ، عصر جدید، پنجاب ریویو، الناظر، لسان العصر، زبان، مشورہ، صلائی عام، تمدن، نظام المشائخ، اودھ ریویو، العصر اور معیار، خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ مارچ 1914ء کے نقاد میں ایک مضمون بہ عنوان اردو جرائد پر ایک نظر شائع ہوا ہے۔ اس میں معاصر پرچوں کا ذکر تفصیل سے آیا ہے۔ آخری سطور میں لکھا ہے کہ ’’مندرجہ بالارسائل میں اب ’’العصر‘‘ زمانہ، علی گڑھ منتھلی، الناصر، صلائے عام، تمدن، نظام الدین مشائخ، نقاد، خاتون اور عصمت جاری ہیں۔ باقی افسوس ہے کہ بند ہوگئے۔ ’’علی گڑھ منتھلی‘‘ کی وہ شان باقی نہیں رہی جو پہلے تھی۔ ’’صلائے عام‘‘ کبھی وقت بھی شائع نہیں ہوا۔ ’’العصر‘‘ ستمبر 1913ء سے شائع نہیںہوا۔ اس کی زندگی کا خدا حافظ ہے۔ زمانہ، تمدن، خاتون اور عصمت نہایت بے قاعدہ شائع ہوتے ہیں اور ہمیشہ ایک دو ماہ کی تعویق کے ساتھ ملتے ہیں۔‘‘
اس وقت تمام ہندوستان کے طول و عرض میں بوقت ایشوع رسائل صرف تین ہیں:۔
1۔ نظام المشائخ
2۔ الناظر
3۔ نقاد
جو ماہوار وقت پر شائع ہوتے ہیں۔
نقاد کے لکھنے والوں کا حلقہ خاصا وسیع تھا اور اس میں نئے پرانے سبھی اچھے لکھنے والے شامل تھے۔ نقاد کا پہلا شمارہ جنوری 191ء میں نکلا تھا۔ اس پرچے میں مہدی افادی، ریاض خیر آبادی نیاز فتح پوری اکبر الہ آبادی سیماب اکبرآبادی، ارشد تھانوی، پیارے لال شنکر میرٹھی۔ باغ اکبر آبادی، نواب شمشیر بہادر، اخگر، شوق قدوائی، شاداب اکبر آبادی، سعید احمد مارہروی اور خان بہادر سلطان احمد اور بعض دوسرے ادیبوں کے نام نظر آتے ہیں۔ دوسرے پرچے میں مولانا حسرت موہانی، ضیائے عباس ہاشمی، قمرالحسن بدایوانی، حیات بخش رسا اور واصف اکبر آبادی، تیسرے پرچے میں عبدالرؤف فتح پوری، مولانا شبلی نعمانی، شہیر مچھلی شہری، چوتھے میں مولانا حامد حسین قادری، چٹھے میں عزیز لکھنوی بیخودالہ آبادی، ساتویں میں راز رامپوری، آٹھویں میں سید محمد فاروق شاہپوری، محوی لکھنوی نویت رائے نظر، محمد اسماعیل، ذبیح، شفیق عماد پوری اور نویں پرچے میں خورشید علی حیدرآبادی، سید شمس اللہ قادری، باسط علی بسوانی، سید سجاد حیدر یلدرم، عبدالحلیم شرر، نظم طبا طبائی، نوح ناروی یاس ٹونکی اور سید عبدالعلی ندوی فتح پوری کے ناموں کا اضافہ ہوا ہے۔ ان ناموں سے اندازہ ہوتا ہے کہ نقاد بہت جلد علمی و ادبی حلقوں میں مقبول ہوگیا تھا اور اسے سارے ممتاز اہل قلم کی معاونت حاصل ہوگئی تھی۔ لیکن اس پرچے کو اتنی جلد چمکا دینے اور اس کے گرد سارے اچھے لکھنے والوں کو جمع کرلینے میں زیادہ دخل خود اس کے مدیر شاہ دلگیر اور ان کے یار غار نیاز فتح پوری کی کوششوں کو تھا۔ نقاد جب بند ہوگیا اور نیاز فتح پوری نے قمرزمانی کا روپ دھار کر شاہ دلگیر سے اسے دوبارہ زندہ کرایا اور جب تک شاہ دلگیر و قمرزمانی کا ڈرامہ صیغہ راز میں رہا، نقاد برابر ترقی کرتارہا۔ لیکن جیسے ہی یہ راز فاش ہوا شاہ دلگیر کو کچھ ایسا صدمہ پہنچا کہ وہ اندر سے بالکل بجھ گئے اور کچھ دنوں بعد نقاد بھی ختم ہوگیا۔
شاہ نظام الدین دلگیر جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے نیاز کے ہم عمر اور ان کے یاران نجد کے ایک رکن تھے۔ یاران نجد کے ممتاز ارکان میں سے ل احمد اور مخمود اکبر آبادی ابھی حیات ہیں۔ دونوں اردو کے نامور شاعر و ادیب ہیں۔ ل احمدکلکتے میں ہیں اور مخمود اکبر آبادی کراچی میں۔ مخمور صاحب نے میری گزارش پر 1967ء میں ایک مضمون لکھا تھا جس کو میں ’’بزم نیاز و نگار‘‘ میں شائع کیا تھا۔ اس میں مخمور صاحب نے یاران نجد کے اکثر ارکان ذکر کیا ہے۔ لیکن خدا جانے کیوں اپنے ہم وطن شاہ دلگیر اکبر آبادی کا ذکر نہیں کیا۔ جوش ملیح آبادی نے شاہ دلگیر کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’رسالہ نقاد کے مدیر خاندان مشائخ کے چشم و چراغ دراز قامت، دراز ریش، دراز دست، کوتاہ ہمت، بخل پسند، پر کیسہ، تہی دست، کثیر السواد قلیل الرماد، بخوشی میہان بکراہت میزبان، عقاب پنجہ، کبوتر مزاج، خانقاہ کی محراب میں قطب الاقطاب، حسینوں کی جناب میں پارہ سیماب، کیا کیا خصوصیات بیان کروں شاہ صاحب کے۔ وہ اس قدر تلملا جاتے تھے حسینوں کو دیکھ کر کہ ان کے حواس بجا نہ رہتے تھے۔ راہ گلی میں ان کے ساتھ چلنا پھرنا بے حد خطرناک تھا اس لئے کہ جب کسی حیسن چہرے پر ان کی نگاہ پڑ جاتی وہ اپنے ساتھی کی پسلیوں پر اس قدر زور سے کہنی مارتے تھے کہ اس بے چارے کے منہ سے چیخ نکل جاتی تھی۔ اسی طرح جب وہ جھوم جھوم کر دیوانہ وار اپنا کلام سناتے تھے زور زور سے داد دینے والے کی ران پر اپنا پہاڑ سا ہاتھ اس قدر زور سے مارتے تھے کہ وہ غریب اچھل جایا کرتا تھا۔‘‘
جوش ملیح آبادی کے ان الفاظ سے حضرت دلگیر کی شخصیت کا صرف ایک رخ سامنے آتا ہے۔ انہوں نے دلگیر کی کمزوریوں پر طنزیہ لہجے میں تو بہت کچھ لکھ دیا ہے۔ لیکن ان کے اوصاف کو نظر انداز کر گئے ہیں۔ دلگیر ہی کے ساتھ یہ تخصیص نہیں جوش صاحب نے ’’یادوں کی بارات‘‘ میں جہاں کہیں اپنے معاصرین اور احباب کا ذکر کیا ہے زیادہ تر اسی روش کو اپنایا ہے۔ ان میں بعض ایسے معاصرین بھی شامل ہیں جن کا ذکر وہ خود اس سے پہلے نہایت اچھے الفاظ میںکرچکے ہیں چنانچہ ایک جگہ حضرت دلگیر کے متعلق لکھتے ہیں:۔
’’آہ شاہ صاحب تمہاری کس کس بات کو یاد کر کے روؤں تمہاری کن کن خوبیوں پر ماتم کروں، تمہارا سا ادیب، تمہارا سا نقاد، تمہارا سا صاحب نظر، تمہارا سا سخن سخ، تمہارا خلوص پرور انسان شاید اب ہندوستان نہ پیدا کرسکے گا۔ کاش اگر تم زندہ رہتے اور جوش کے سے انسان ہزار تم پر سے قربان ہوجاتے۔ مگر ظالم اور اندھی مشیت پر کس کا زور چل سکتا ہے‘‘۔
اب اگر جوش صاحب کے دونوں بیانات کو سامنے رکھیں تو یہی کہنا پڑے گا کہ ان میں سے کوئی ایک بیان ضرور غلط ہے۔ ان کے پہلے ہی بیان کو غلط اور مبالغہ آمیز کہنا پڑتا ہے۔ اس لئے کہ شاہ دلگیر کی ذات و صفات کے بارے میں دوسرے معاصرین نے جو کچھ کہا ہے وہ جوش صاحب کے پہلے بیان سے نہیں مندرجہ بالا سطروں سے مطابقت رکھتا ہے۔
افسوس کہ دلگیر کی زندگی اور فن پر اب تک کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوا۔ اس لئے یہی نہیں کہ ادب کے قاری ان کی تفصیلات و جزیات سے بے خبرہیں بلکہ غضب یہ ہے کہ لوگ ان کے نام اور کام کو یکسر بھولے جارہے ہیں۔ ان کی زندگی میں ان کا کوئی مجموعہ نثر یا مجموعہ نظم شائع نہیں ہوا۔ وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے سید انتظام الدین شاہ جمالی ایم اسی سی (علیگ) نے دلگیر کے بارے میں ساٹھ صفحے کی ایک چھوٹی سی کتاب بہ عنوان ’’داغ دلگیر‘‘ شائع کی تھی۔ یہ کتاب شاہ دلگیر کے پوتے عزیز سید اعزاز الدین شاہ ولد سید ظفر الدین شاہ مقیم کراچی کے توسط سے مجھے دیکھنے کو ملی۔ اس کی پشت پر ’’تصنیفات حضرت دلگیر‘‘ کے عنوان سے جو اشہتار ملتا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے بیٹوں نے دلگیر بک ڈپو کی جانب سے مندرجہ ذیل کتابوں کی اشاعت کا اہتمام کیا تھا:۔
1۔ آہ دلگیر (مجموعہ غزلیات)
2۔ مکاتیب دلگیر (مجموعہ مکتوبات)
3۔ مضامین دلگیر (مجموعہ مقالات)
4۔ ’’داغ دلگیر‘‘ (دلگیر کی وفات پر معاصرین کے قطعات تاریخی و تعزیتی خطوط منظومات اور مدیران اخبار و رسائل کی آرا کا مجموعہ)
5۔ دلگیر کے سو شعر
ان میں سے صرف ایک تالیف ’’داغ دلگیر‘‘ میری نظر سے گزری ہے۔ ’’داغ دلگیر‘‘ کا تاریخی بزم غم دلگیر ہے۔ بزم غم دلگیر سے 1353ھ نکلتے ہیں۔ یہی اس کتاب کی تالیف اور شاہ دلگیر کی وفات کا سال ہے۔ اس کتاب کے آغاز میں پروفیسر محمد افضال حسین قادری ایم ایس سی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے بہ عنوان ’’حیات دلگیر‘‘ کی زندگی کے مختصر حالات اس طور پر لکھ دیئے ہیں۔
٭٭٭٭٭
Prev Post