پاکستان کے خلاف بھارت اور ایران کا مشترکہ مورچہ

0

امت رپورٹ
پاکستان کے خلاف بھارت اور ایران نے مشترکہ مورچہ لگالیا ہے۔ اس وقت نہ صرف ایران اپنے اسٹریٹجک پارٹنر بھارت کی زبان بول رہا ہے بلکہ دونوں ممالک کے حکام اندرون خانہ پاکستان کے خلاف مشترکہ حکمت عملی طے کرنے میں بھی مصروف ہیں اور اس سلسلے میں کابل حکومت کو بھی آن بورڈ لیا جارہا ہے۔ اس گٹھ جوڑ میں پلوامہ حملے کے بعد تیزی آئی ہے۔
واضح رہے کہ ایران نے پاسداران انقلاب پر خود کش حملے کے سلسلے میں نہ صرف پاکستانی سفارتکار کو طلب کیا بلکہ اسلام آباد پر حملے کی پشت پناہی کا الزام بھی لگایا ہے۔ قبل ازیں پاسداران انقلاب کے سربراہ میجر جنرل محمد علی جعفری نے ہلاک اہلکاروں کی تدفین کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی تھی اور کہا تھا کہ اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔ ماضی قریب میں بھی اس نوعیت کی بڑھکیں ماری جاچکی ہیں۔
اس دوران ایران کے نائب وزیر خارجہ سید عباس آراگچی اور بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے درمیان ہونے والی ملاقات بھی معنی خیز ہے ۔ اس ملاقات کے حوالے سے ایرانی نائب وزیر خارجہ نے ٹویٹ کی کہ پچھلے چند روز کے دوران ایران اور بھارت کو دہشت گردی کے دو حملوں کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں۔ ایرانی وزیر کے بقول سشما سوراج سے ملاقات میں اتفاق کیا گیا کہ ’’بس بہت ہوچکا ، اب دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مشترکہ کوششیں کرنی ہوں گی ‘‘۔
سیکورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ ہر حملے کو پاکستان سے جوڑنا ہمیشہ سے بھارتی وطیرہ رہا ہے تاہم ایران ، دہلی کا ہم زبان اس لئے بن رہا ہے کہ گوادر میں بھاری سعودی سرمایہ کاری سے اسے پریشانی ہے۔ سعودی عرب نے گوادر میں 8 ارب ڈالر مالیت کی آئل ریفائنری کے معاہدے پر دستخط کردیئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق گوادر میں سعودیہ کے بیٹھنے سے ایک تو اسٹریٹجک لحاظ سے ایران کو پریشانی ہے اور دوسرا دکھ یہ ستارہا ہے کہ سعودی آئل ریفائنری بن جانے سے تیل کے لئے چین کا انحصار ایران پر کم ہوجائے گا ۔ اس وقت چین اپنی ضروریات کا ایک بڑا حصہ ایرانی تیل سے پورا کر رہا ہے۔ بالخصوص سی پیک کے تناظر میں چین کو اضافی انرجی اور تیل کی ضرورت ہے ۔ مستقبل میں گوادر میں سعودی آئل ریفائنری اس کی ضرورت کو پورا کرسکے گی اور یوں ایران پر چینی انحصار خاصی حد تک کم ہوجائے گا۔
سیکورٹی ذرائع کے بقول اگرچہ پاکستان نے ہر اہم موقع پر ایران کی مدد کی۔ بالخصوص پابندیوں کے زمانے میں اندرون خانہ ایران کے ساتھ بھرپور تعاون کرتا رہا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایران کی ناک میں دم کردینے والی جند اللہ سے اس کی جان چھڑانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ لیکن اس کے باوجود تہران بھارتی خوشنودی کے لئے اپنے محسن کے خلاف الزام تراشی پر اتر آیا ہے ۔ ذرائع کے مطابق 2010ء میں ایرانی درخواست پر پاکستان کی اہم انٹیلی جنس ایجنسی نے عبدالمالک ریگی کو گرفتار کرایا تھا۔ ریگی کا طیارہ جب ایرانی فضائی حدود سے گزر رہا تھا تو بروقت انٹیلی جنس انفارمیشن موصول ہونے پر ایرانی حکام نے طیارے کو نیچے اتار کر عبدالمالک ریگی کو گرفتار کرلیا اور بعد ازاں پھانسی چڑھادیا تھا۔ عبدالمالک ریگی کی موت کے بعد ایرانی سیستان بلوچستان میں علیحدگی کی مسلح تحریک چلانے والی جنداللہ ختم ہوگئی تھی۔ بعد ازاں جند اللہ کے جانشین کے طور پر جیش العدل نے جنم لیا۔ 2012ء میں اپنے قیام سے لے کر اب تک جیش العدل ایرانی فورسز پر کئی مہلک حملے کرچکی ہے۔ یہ بات عام ہے کہ جیش العدل کو امریکی سی آئی اے کی سرپرستی حاصل ہے ۔ حال ہی میں پاسداران انقلاب پر خود کش حملہ جیش العدل کی بڑی کارروائی ہے ، جس میں ہلاکتوں کی تعداد 40 سے زائد بتائی جاتی ہے۔ ذرائع کے بقول حالیہ حملے سے لے کر ماضی قریب میں ہونے والی دیگر کارروائیوں کا الزام ایران ابتدائی طور پر امریکہ ، سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک پر لگاتا ہے لیکن اس کی تان پاکستان پر آکر ٹوٹتی ہے ۔ تہران اس احسان کو بھول جاتا ہے کہ اسے جند اللہ سے نجات پاکستان نے دلائی تھی۔ اس احسان کا صلہ ایران نے یہ دیا کہ بدنام بھارتی دہشت گرد کل بھوشن سے لے کر دیگر پاکستان مخالف عناصر کی پشت پناہی کی۔ کل بھوشن کے پاس پاسپورٹ بھی ایرانی تھا۔ پھر یہ کہ ایران اپنی چاہ بہار بندرگاہ کا سارا انتظام پاکستان کے بدترین دشمن بھارت کے حوالے کرچکا ہے۔ ملا اختر منصور کی ہلاکت بھی اس وقت ہوئی جب وہ ایران سے نکل کر پاکستان کی طرف آرہے تھے۔ اس کے نتیجے میں طالبان کے ساتھ پاکستان میں جاری مذاکرات سبوتاژ ہوئے اور بھارت نے خوشی سے بغلیں بجائیں۔ ذرائع کے مطابق دوسری جانب تہران نے دہلی کے ساتھ اسٹریٹجک معاہدہ کر رکھا ہے۔ اس اسٹریٹجک معاہدے کے تحت دونوں ممالک کسی تیسرے ملک کے خلاف ایک دوسرے کی سرزمین نہ صرف استعمال کرسکتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کی دفاعی ضروریات پوری کرنے کے پابند بھی ہیں۔ لیکن طرفہ تماشا ہے کہ پاکستان جب اپنی ضروریات کے تحت سعودی سرمایہ کاری کے معاہدے کرتا ہے یا اسلامی فوج کی سربراہی قبول کرتا ہے تو ایران کو پریشانی ہوتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ چاہ بہار کا سلسلہ تو ابھی چلا ہے۔ 2002ء سے ایران بھارت کے ساتھ مل کر سی پیک طرز کا بندرعباس نارتھ سائوتھ کوریڈور بھی بنارہا ہے۔ جس کا مقصد مکران کوسٹل کو گھیرنا ہے۔ کلبھوشن ایرانی سرزمین پر بیٹھا مکران کوسٹ کے خلاف ہی سب سے زیادہ کام کر رہا تھا۔ ذرائع کے مطابق بلوچستان میں جب مینگل ، مری اور بگٹی جیسے قبائل بھی علیحدگی پسندوں سے ہمدردی جتانا شروع ہوگئے تھے تو یہ مکران اور تربت کے بلوچ تھے جنہوں نے اپنی وفاداری ترک نہیں کی اور پاکستان کا ساتھ دیتے رہے ۔ تاہم کلبھوشن نے مکران کے ان باشندوں کو ورغلانے پر فوکس رکھا ، اس حوالے سے خاصی حد تک کامیابی بھی حاصل کی اور بعد میں اپنا فوکس پاکستانی مچھیروں پر کرلیا۔ اس کے ساتھ اپنا نیٹ ورک بی ایل اے اور کراچی میں ایم کیو ایم تک پھیلاتا رہا۔ یہ سب کچھ کلبھوشن ایرانی بندرگاہ چاہ بہار میں بیٹھ کر کر رہا تھا۔ تاہم تمام تر شواہد کے باوجود پاکستان نے اس معاملے پر اندرون خانہ تو اپنے تحفظات کا اظہار کیا لیکن سرعام ایران پر الزام تراشی سے ہمیشہ گریز کیا ۔ اس کے باوجود حالیہ خود کش حملے سے قبل بھی دو مواقع پر ایران کھلے عام پاکستان کو دھمکیاں دے چکا ہے ۔
ادھر مودی نے تازہ گیدڑ بھبھکی دی ہے کہ ’’بات چیت کا وقت ختم ہوگیا، اب کارروائی کا وقت ہے‘‘۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ بھارتی جنگی جنون بڑھتا جارہا ہے تاہم یہ مشکل دکھائی دیتا ہے کہ بدلہ لینے کی آڑ میں بھارت کوئی زمینی کارروائی کرے یا سرجیکل اسٹرائیک کا خطرہ مول لے کیونکہ اسے پاکستان کی طرف سے بھرپور جوابی کارروائی کا خوف ہے۔ تاہم ماضی کی طرح بھارت بدلے کے نام پر دہشت گردی کی کارروائی کراسکتا ہے۔ ذرائع کے بقول چونکہ پلوامہ میں بھارتی پیرا ملٹری فورسز کو نشانہ بنایا گیا لہٰذا بھارت بھی اسی قسم کے ٹارگٹ کا انتخاب کرسکتا ہے ۔ جس میں ’’را‘‘ اور ’’این ڈی ایس ‘‘کے علاوہ ایرانی انٹیلی جنس کے ملوث ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کیونکہ تینوں اس وقت ایک ہی آگ میں جل رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پاکستان میں اس نوعیت کی دہشت گردی کرائی جاتی ہے تو یقینی طور پر اسے امریکی سی آئی اے کی سرپرستی حاصل ہوگی۔ مہران بیس پر ہونے والے دہشت گرد حملے میں ٹارگٹ کی گائیڈ لائن کے لئے امریکی سیٹلائٹ کمیونیکیشن استعمال ہوئی تھی۔ جبکہ ماضی میں پاکستان میں ہونے والی بعض دیگر کارروائیوں میں بھی اسی نوعیت کی امریکی انوالومنٹ کے شواہد موجود ہیں۔ ذرائع کے مطابق جہاں بھارت نے سرحد پر فوج الرٹ کردی ہے وہیں طورخم بارڈر پر افغان فوج کی نقل و حرکت کی اطلاعات بھی موصول ہورہی ہیں۔ یہ پاکستان پر دوطرفہ دبائو بڑھانے کا ہتھکنڈہ ہے۔
دوسری جانب امریکی ناظم الامور پال جونز نے دو روز قبل پاکستان کی سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ سے ملاقات کرکے انہیں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ’’ایک اہم پیغام‘‘ پہنچایا۔ دفتر خارجہ کے ذرائع کے بقول یہ ملاقات پلوامہ حملے کے بعد ہوئی لیکن اس کے تفصیلات ظاہر نہیں کی گئی ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جس طرح ممبئی حملوں کے بعد بھارت میں جنگی جنون پیدا ہوگیا تھا تو اس وقت امریکہ نے پاکستان کو مشورہ دیا تھا کہ بھارتی غم و غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے وہ آزاد کشمیر کے کسی مخصوص مقام پر بھارت کو سرجیکل اسٹرائیک کرنے کی اجازت دیدے، امریکی ناظم الامور شاید اسی نوعیت کا کوئی پیغام لائے ہوں۔ ذرائع نے بتایا کہ ممبئی حملوں کے بعد امریکہ کی جانب سے براہ راست یہ تجویز آئی تھی جسے اس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی نے یکسر مسترد کردیا تھا۔ اس کے باوجود آزاد کشمیر میں سرجیکل اسٹرائیک کے لئے بھارتی طیارے فضا میں بلند ہوگئے تھے۔ لیکن جب ان کا راستہ روکنے کے لئے پاکستان نے اپنے ایف سولہ اڑائے تو بھارتی طیارے بھاگ نکلے ۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More