محمد زبیر خان
سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان نے سوات میں فرمان علی کے نام پر اسپتال بنانے کا اعلان، شہید فرمان علی کے والد کے مطالبے پر کیا ہے۔ واضح رہے کہ سوات کے رہائشی فرمان علی نے جدہ میں 2011 ء میں آنے والے بدترین سیلاب میں 14 سعودی باشندوں کی جانیں بچائیں تھیں اور مزید افراد کو بچاتے ہوئے وہ زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ فرمان علی کی شجاعت و دلیری پر سعودی حکومت نے بعدازمرگ انہیں ملک کا سب سے بڑا ’’کنگ عبدالعزیز ایوارڈ‘‘ دیا تھا۔ فرمان علی یہ ایوارڈ حاصل کرنے والے پہلے غیر ملکی تھے۔ جبکہ حکومت پاکستان کی جانب سے اس وقت کے وزیر ہائوسنگ ڈاکٹر فاروق ستار نے شہید فرمان علی کی فیملی کو ایک پلاٹ دینے کا وعدہ کیا تھا، تاہم یہ وعدہ آٹھ سال گزرنے کے بعد بھی پورا نہیں کیا گیا۔
’’امت‘‘ سے گفتگو میں شاہ فرمان کے والد کا کہنا تھا کہ اگر حکومت اب بھی وہ پلاٹ دیدے تو سعودی حکومت سے فنڈز لیکر اس پر فرمان علی کے نام سے یونیورسٹی قائم کریں گے۔ اپنے شہید بیٹے کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ فرمان علی بچپن سے ہی بہت دلیر اور جرأت مند تھا۔ سولہ سال کی عمر میں اس نے خوازہ خیلہ کے بازار میں آگ لگنے پر جان کی پروا نہ کرتے ہوئے گیس لیکج کو بند کردیا تھا۔
فرمان علی نے 2011ء میں سعودی دارالحکومت جدہ میں آنے والے بدترین سیلاب کے دوران جان پر کھیل کر چودہ افراد کو بچایا تھا۔ اس موقع پر فرمان علی کے بڑے بھائی عزیز بھی جدہ میں موجود تھے۔ انہوں نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’جس روز فرمان علی شہید ہوا، میرا ایک دوست پاکستان جارہا تھا اور میں اس کو ایئرپورٹ چھوڑنے گیا تھا۔ واپس اپنی رہائش گاہ پہنچا تو ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی۔ نہ جانے کیوں میں اس بار ش سے خوفزدہ ہوگیا تھا۔ میں نے فرمان علی کو فون کیا تو وہ اپنی دکان پر تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ خیال سے آنا، موسم خراب ہوتا جارہا ہے۔ اس نے مجھے تسلی دی اور فون بند کردیا۔ کچھ ہی دیر بعد بارش انتہائی تیز ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے سڑکیں دریا بن گئیں۔ میں نے دوبارہ فرمان علی کو فون کرکے اس کی خیریت معلوم کی اور اس کو اپنا خیال رکھنے کو کہا۔ لیکن ایک گھنٹہ ہی گزرا ہوگا کہ اطلاع ملی کہ فرمان علی شہید ہوگیا ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں، میں اپنے دوستوں کے ہمراہ وہاں پہنچ گیا، جہاں واقعہ پیش آیا تھا۔ وہاں موجود لوگوں نے بتایا کہ فرمان علی نے سیلابی ریلوں میں پھنسے کم از کم چودہ افراد کی زندگیاں بچائیں اور مزید افراد کو بچاتے ہوئے جان کی بازی ہار گیا۔ جب پانی اپنے ساتھ سب کچھ بہا کر لے جارہا تھا تو فرمان علی نے جان کی پروا کئے بغیر رسے کی مدد سے گاڑیوں میں پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالا تھا۔ ان مناظر کی لوگوں نے وڈیوز بھی بنائی تھیں۔ فرمان علی بہترین تیراک اور کراٹے ماسٹر تھا۔ وہ قیمتی انسانوں جانوں کو بچانے کیلئے اپنی ان صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اللہ کو پیارا ہوگیا تھا‘‘۔ عزیز نے مزید بتایا کہ فرمان سمیت ہم پانچ بھائی ہیں۔ فرمان علی بچپن سے ہی لوگوں کی مدد کرتا تھا اور نتائج کی پروا کئے بغیر مظلوم کے ساتھ کھڑا ہوجاتا تھا۔ ایک مرتبہ حج کے موقع پر جب چھ سو افراد رمی کے دوران شہید ہوگئے تھے تو وہاں میں بھی اپنی والدہ اور دیگر رشتہ داروں کے ہمراہ موجود تھا۔ وہاں خوف کا عالم تھا، لوگ ہمارے سامنے گررہے تھے۔ میری والدہ نے مجھ سے کہا کہ اگر موت آنی ہے تو اس کو کوئی نہیں روک سکتا۔ تم گرتے ہوئے لوگوں کو اٹھاؤ اور زخمیوں کی مدد کرو‘‘۔ عزیز نے بتایا کہ فرمان علی بھی انتہائی بہادر اور دلیر تھا۔ وہ جب سولہ سال کا تھا تو خوازہ خیلہ میں والد کے ہمراہ ان کی کریانہ کی دکان پر جاتا تھا۔ ایک روز وہاں ایل پی جی سلینڈر بھرنے والے دکان میں گیس لیک ہوئی اور آگ لگ گئی۔ اس کے قریب ہی کباب کی دکان تھی اور دوسری طرف اسلحہ کی دکان تھی۔ دکان میں گیس سے بھرے سلنڈر بھی موجود تھے۔ میرے والد سلینڈر والی دکان کی طرف بڑھے تو فرمان علی بھی ان کے ساتھ وہاں پہنچ گیا اور ان دونوں نے آگ کے شعلوں کی پروا نہ کرتے ہوئے گیس سلینڈر کا وال بند کردیا۔ ان کی بہادری سے خوازہ خیلہ کا بازار بڑی تباہی سے بچ گیا۔ وہ دونوں ہی زخمی ہوئے تھے تاہم والد زیادہ زخمی ہوئے تھے‘‘۔
فرمان علی کے چھوٹے بھائی عصمت علی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ وہ فرمان علی سے نو سال چھوٹے ہیں۔ فرمان علی تیراکی اور کراٹے ماسٹر تھے۔ ہر کوئی ان سے محبت کرتا تھا اور وہ ہر کسی کی مدد کرتے تھے۔ ان کے دوست اور کلاس فیلوز اب بھی ملتے ہیں تو فرمان علی کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔
فرمان علی کے والد عمر عزیز نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’فرمان علی بچپن ہی سے لوگوں کی مدد کرنے کا عادی تھا۔ کوئی بزرگ خاتون سامان اٹھا کر جارہی ہوتی تو وہ سامان اس سے لے لیتا تھا۔ کوئی کسی کے ساتھ ظلم کرتا تو وہ مظلوم کے ساتھ کھڑا ہوجاتا تھا۔ فرمان علی کی شہادت کے بعد سعودی حکومت نے ان کو بیٹے کیلئے سعودی عرب کا سب سے بڑا ’’شاہ عبدالعزیز ایوارڈ‘‘ دنیا کے 120 ممالک کے نمائندوں کے سامنے دیا تھا۔ فرمان علی کی تین بچیاں ہیں، جن کی سعودی حکومت خیر خبر رکھتی ہے‘‘۔ انہوں نے بتایا کہ شاہ سلمان کے حالیہ دورے سے قبل اعلیٰ سعودی اہلکار ہمارے پاس آئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ شاہ سلمان اور سعودی حکومت فرمان علی کی بچیوں کیلئے ایک گھر تعمیر کرانا چاہتی ہے۔ ہم نے انہیں کہا کہ فرمان علی کی بچیوں کو گھر اور رزق وغیرہ اللہ خود دے گا۔ ہماری خواہش ہے کہ اگر ہمارے علاقے میں فرمان علی کے نام پر اسپتال بنا دیا جائے تو ہم بہت مشکور ہوں گے۔ جس پر شاہ سلمان نے دورہ پاکستان میں اسپتال بنانے کا اعلان کیا‘‘۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت پاکستان نے بھی فرمان علی کیلئے تمغہ شجاعت کا اعلان کیا اور اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے یہ اعزاز دیا تھا۔ جبکہ اس وقت کے وزیر ہائوسنگ فاروق ستار نے فرمان علی کی بچیوں کیلئے ایک پلاٹ دینے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن وہ پلاٹ اب تک نہیں ملا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت اب بھی وہ پلاٹ دیدے تو اس پر فرمان علی کے نام سے یونیورسٹی بنائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ جب فرمان علی شہید ہوا تو اس کی بچیاں بہت چھوٹی تھیں۔ تاہم اب بڑی بیٹی نویں کلاس میں ہے۔ بچیاں بھی چاہتی ہیں کہ اگر حکومت وہ پلاٹ دیدے تو وہ اس کو یونیورسٹی کیلئے وقف کردیں گی۔ عمر عزیز نے بتایا کہ کئی سعودی امرا ان کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں اور اکثر ان سے پوچھتے ہیں کہ ان کیلئے کیاکریں۔ لیکن آج تک ہم نے ان کو کسی ذاتی کسی کام کا نہیں کہا۔ اگر حکومت اعلان کردہ پلاٹ فراہم کردے تو وہ ان سعودی امرا سے یونیورسٹی کیلئے تعاون مانگ سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭