امت رپورٹ
پاکستان کے خلاف بھارتی تجارتی جنگ کھل کر بے نقاب ہوگئی ہے، جس کے تحت وہ مختلف عالمی مالی اداروں کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ پلوامہ حملہ کو جواز بناکر بھارت پہلے ہی پاکستان سے ’’پسندیدہ ترین ملک‘‘ کا درجہ واپس لے چکا ہے۔ بعد ازاں بھارت نے پاکستان کی درآمدی اشیاء پر 200 فیصد کسٹم ڈیوٹی بھی لگادی۔ بھارتی ذرائع ابلاغ اور ’’امت ‘‘ کو اپنے ذرائع سے حاصل معلومات کے مطابق بھارت کا اصل ہدف پاکستان کو آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ پیکج سے محروم کرنا اور پاکستان کا نام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ میں برقرار رکھوانا یا بلیک لسٹ میں ڈلوانا ہے۔
اس حوالے سے بھارت نے اندرون خانہ اپنی کوششوں کا سلسلہ پچھلے دوروز سے جاری رکھا ہوا ہے۔ تاہم خود غیر جانبدار بھارتی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کی ان کوششوں کا الٹا نقصان بھارت کو ہوگا۔
انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان مجموعی باہمی تجارت کا حجم اوسطاً 2.61 ارب ڈالر سالانہ ہے۔ تاہم 2017-18 کے مالی سال میں اس باہمی تجارت میں معمولی اضافہ ہوا اور یہ بڑھ کر 2.72 ارب ڈالر تک جاپہنچی۔ اس مالی سال کے دوران بھارت نے 488.5 ملین ڈالر کی پاکستانی اشیاء امپورٹ کیں۔ جبکہ پاکستان نے 1.92 ارب ڈالر کی بھارتی اشیاء درآمد کی۔ یعنی بھارت سے ایکسپورٹ کی جانے والی پروڈکٹس کا حجم پاکستانی ایکسپورٹ کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔ پاکستان میں ایکسپورٹ ایسوسی ایشنز سے وابستہ عہدیدار مہر محمد کے بقول اس تناظر میں دونوں ممالک کی باہمی تجارت متاثر ہوتی ہے تو اس کا زیادہ نقصان بھارت کو ہوگا ۔ پاکستانی درآمدی اشیا پر دو سو فیصد ڈیوٹی سے بھارت کو ہونے والے نقصان کا اظہار بھارتی پروفیسر اور تجزیہ نگار اشوک سوائن نے بھی کیا ہے۔ اشوک سوائن کہتے ہیں ’’یہ مودی کا احمقانہ اقدام ہے ۔ پاکستان بھارت کو سالانہ اوسطا 350 ملین ڈالر کی ایکسپورٹ کرتا ہے۔ (تازہ مالی سال کے دوران یہ ایکسپورٹ 488.5 ملین تک رہیں) جبکہ بھارتی ایکسپورٹ کا حجم دو سے پونے دوارب ڈالر سالانہ ہے۔ لہٰذا یہ سوچنے کی بات ہے کہ اگر جواب میں پاکستان نے بھی یہی قدم اٹھایا تو نقصان کس کا زیادہ ہوگا؟‘‘
بھارتی این ڈی ٹی وی کے مطابق مودی سرکار سمجھتی ہے کہ معاشی مشکلات کے شکار پاکستان سے ’’پسندیدہ ترین ملک‘‘ کا درجہ واپس لینے کا فیصلہ اسلام آباد کو نقصان پہنچائے گا۔ لیکن خود بھارتی ٹی وی مودی سرکار کے خیال کی نفی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مذکورہ اقدام محض علامتی ہے ، اس سے پاکستانی معیشت کو کسی بڑے دھچکے کا امکان نہیں، کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت کا حجم بہت زیادہ نہیں۔ مودی اس اقدام سے اپنے سپورٹرز کو تو مطمئن کرسکتے ہیں لیکن پاکستانی معیشت کو بڑا جھٹکا نہیں دے سکتے ۔ یاد رہے کہ بھارت نے پاکستان کو ’’پسندیدہ ترین ملک‘‘ کا اسٹیٹس 1996ء میں دیا تھا ، لیکن اس کے جواب میں تاحال پاکستان کی طرف سے بھارت کو یہ درجہ نہیں دیا گیا ہے۔
انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر کے مطابق بھارت زیادہ تر خام کاٹن ، اون، مختلف اشیا رنگنے والے رنگ ، کیمیکلز ، سبزیاں ، گوشت ، آئرن اور اسٹیل پاکستان کو ایکسپورٹ کرتا ہے۔ جبکہ پاکستان سے درآمد کی جانے والی قابل ذکر اشیا میں تازہ پھل ، سیمنٹ ، نمک ، کھاد ، چمڑا ، پیٹرولیم مصنوعات ، معدنیات اور مصالحہ جات شامل ہیں۔ مہر محمد بھارت کو قیمتی پتھر ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے مہر محمد نے بتایا کہ ’’ابھی تک قیمتی پتھروں پر بھارت کی جانب سے دوسو فیصد ڈیوٹی نہیں لگائی گئی ہے۔ اس حوالے سے بھارتی تاجروں کی ڈیمانڈ پر ہم مہینے یا دو مہینے میں شپمنٹ بھیجتے ہیں ۔ تاہم سیمنٹ اور تازہ پھلوں سمیت متعدد پاکستانی اشیا پر بھارت نے دوسو فیصد کسٹم ڈیوٹی لگادی ہے۔ لیکن اس اقدام کا دونوں طرح سے بھارت کو نقصان ہوگا۔ ظاہر ہے کہ ڈیوٹی میں اس قدر اضافے پر پاکستانی ایکسپورٹرز اپنی اشیا بھارت نہیں بھیجیں گے اور یوں پہلے پاکستانی درآمدی اشیا پر بھارت کو جو بھی ڈیوٹی مل رہی تھی وہ اس سے محروم ہوجائے گا۔ دوسری جانب ممکنہ طور پر پاکستان بھی جوابی اقدام اٹھاتا ہے تو پاکستان کو سالانہ دو ارب ڈالر کے قریب ایکسپورٹ سے دہلی کو ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ پھر یہ کہ جو اشیاء پاکستان بھارت کو بھیج رہا ہے، بے انتہا کسٹم ڈیوٹی کے بعد ایک تو پاکستانی عوام کو یہ اشیاء مناسب ریٹ میں مل سکیں گی اور دوسری جانب پاکستان کے لئے چین ، افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک کی منڈی موجود ہے۔ بھارت بھیجی جانے والی پاکستانی اشیا ء کی ان ممالک میں بھی خاصی مانگ ہے لہٰذا بھارت کا دروازہ بند ہونے کے نتیجے میں متذکرہ ممالک کی منڈی پاکستان کے لئے کھلی ہے‘‘ ۔ مہر محمد کے بقول اب بھارتی تاجروں اور عوام کو بھی یہ بات سمجھ آرہی ہے کہ محض اپنی الیکشن مہم کو کامیاب بنانے کے لئے مودی پاگل پن پر مبنی فیصلے کر رہے ہیں۔
ادھر ذرائع نے بتایا کہ بھارت کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ کسی طرح یورپی ممالک کو اس بات پر قائل کرلے کہ وہ پاکستان کا نام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی ’’گرے لسٹ ‘‘ میں برقرار رکھنے کے لئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں ۔ اس سلسلے میں سفارتی سطح پر بھارتی حکام کے مختلف یورپی ممالک سے رابطے جاری ہیں اور انہیں پلوامہ حملے کا حوالہ دے کر پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی مالی مدد کا نیٹ ورک توڑنے میں ناکام رہا ہے لہٰذا اسے ایف اے ٹی ایف کی جانب سے ریلیف نہیں ملنا چاہئے۔ اس سلسلے میں امریکی حکام بھی بھارت کے ہمنوا ہیں تاہم ذرائع کے بقول محض چند یورپی ممالک کے علاوہ متعدد ممالک کو اس حوالے سے کنوینس کرنے میں بھارت کو تاحال ناکامی کا سامنا ہے۔ ایک بھارتی ٹی وی چینل نے بھی مودی سرکار کی ان کوششوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کا اصل ہدف یہ ہے کہ پہلے سے ایف اے ٹی ایف کی ’’گرے لسٹ ‘‘ میں شامل پاکستان کو ’’بلیک لسٹ‘‘ میں شامل کرادیا جائے یا کم از کم ’’گرے لسٹ‘‘ میں پاکستان کا نام برقرار رکھا جائے۔ اگر اس کوشش میں بھارت کامیاب ہوجاتا ہے تو آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک ، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور یورپی یونین کی جانب سے پاکستان کا درجہ کم کرائے جانے کا راستہ ہموار کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ بھارتی صحافی رضا الحسن لاسکر کا اپنے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ ہے کہ پلوامہ حملے کے تناظر میں فرانس اور بھارت نے دہشت گردی کے خلاف کوششوں میں تعاون پر اتفاق کرلیا ہے، جس کے تحت فرانس اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قرارداد 1267کے تحت جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر پر پابندی لگانے کی کوششوں میں متحرک رول ادا کرے گا۔ تاہم اسلام آباد میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ جب تک ویٹو پاور رکھنے والے پانچ ممالک میں شامل چین کی سپورٹ پاکستان کو حاصل ہے، یہ بھارتی خواب پورا ہونا مشکل ہے۔ بھارتی صحافی نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ فرانس نے بھارت کو یقین دہانی کرادی ہے کہ وہ پیرس میں ہونے والے ایف اے ٹی ایف اجلاس میں پاکستان کا نام ’’گرے لسٹ‘‘ میں برقرار رکھنے کی کوشش کرے گا۔ اس سلسلے میں فرانسیسی صدر کے سفارتی مشیر فلپ ایٹی نے اور بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال کے درمیان ٹیلی فون پر تفصیلی بات چیت بھی ہوئی ہے۔
ادھر بھارتی تجزیہ کار اینشومن تیواڑی نے بتایا ہے کہ پلوامہ حملے کو جواز بناکر بھارت پاکستان کو آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ پیکج سے بھی محروم کرنے کی کوششیں کر رہا ہے ۔ تاہم تیواڑی کے بقول دہلی کی یہ کوشش پاکستان کو چین سے مزید قریب کردے گی۔ انڈیا ٹوڈے گروپ کی آن لائن ویب سائٹ ’’ڈیلی او‘‘ کے لئے لکھے گئے اپنے آرٹیکل میں تیواڑی کا کہنا ہے کہ ’’پلوامہ حملے کے بعد پاکستان کو معاشی طور پر تنہا کرنے کی بھارتی کوششوں سے آئی ایم ایف کا بیل آئوٹ پیکج مزید تاخیر کا شکار ہوسکتا ہے ، لیکن اس کے نتیجے میں پاکستان چین کے مزید نزدیک ہوجائے گا۔ اس صورت میں یہ بھارت کی سنگین سفارتی غلطی ہوگی۔ چین پہلے ہی پاکستان کو 3.5 ارب ڈالر کی مدد کا وعدہ کرچکا ہے ۔ اس پیکج کو حتمی شکل دینے کے لئے چینی حکام کی رواں ماہ کے اواخر میں اسلام آباد آمد متوقع ہے۔ اگر آئی ایم ایف کے پیکج میں مزید تاخیر ہوتی ہے تو پاکستان چین سے مزید پیکج مانگ سکتا ہے اور چین اپنے سی پیک پارٹنر کو یقیناً مایوس نہیں کرے گا۔٭
٭٭٭٭٭
Next Post