نمائندہ امت
ایک غریب خاندان کی خواتین کو جیل بھجوانے اور اس خاندان کی زندگی اجیرن کرنے پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے سینیٹر اعظم سواتی کے خلاف سوموٹو لیا تو اس مظلوم خاندان کو باعزت زندگی گزارنے کا موقع میسر آیا۔ جبکہ اعظم سواتی نے بادل نخواستہ عدالت کی شدید سرزنش کے بعد وزارت سے استعفیٰ دیا۔ ذرائع کے مطابق اعظم سواتی نے سابق چیف جسٹس کی سرزنش اور آمدہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے وزارت سے استعفیٰ دیا تھا، جو وزیر اعظم عمران خان نے میڈیا کی توجہ دلانے کے بعد کئی ہفتوں کی تاخیر سے منظور کیا۔ لیکن اعظم سواتی اب بھی پارٹی اور حکومتی امور میں پہلے کی طرح دخیل اور بااثر ہیں۔ سعودی ولی عہد کی آمد کے موقع پر وزیر اعظم ہاؤس اور ایوان صدر کی تقاریب میں جن چند سینئر وزرا کو مدعو کیا گیا تھا، اعظم سواتی وزارت سے الگ ہونے کے باوجود ان میں شامل تھے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈروں نے جب ولی عہد سے ملاقات کی تو اس ملاقات میں بھی اعظم سواتی موجود تھے۔ دیگر ممبران پارلیمنٹ میں چیئرمین سینٹ، اسپیکر قومی اسمبلی، وزیر مملکت پارلیمانی امور علی محمد خان، قائد حزب اختلاف سینیٹ آف پاکستان راجہ محمد ظفرالحق، نون لیگ کے سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر سنیٹر مشاہداللہ خان، سینیٹ کے قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز کے علاوہ اعظم سواتی بھی شامل تھے جو سینٹ میں پی ٹی آئی کے چیف وہپ ہیں، اور سرکاری مراعات بھی لے رہے ہیں۔ قانونی ماہرین کے مطابق سابق چیف جسٹس کے سوموٹو اور جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں قانونی کاروائی کی جائے تو اب بھی اعظم سواتی کی نااہلی ممکن ہے۔ اراضی تنازعہ کیس کی دوبارہ سماعت ہوئی تو ایک بار پھر وزارت کا حلف لینے کے لئے بے قرار اعظم سواتی کا سیاسی کیریئر انجام کو پہنچ سکتا ہے۔
انصاف کے دعویدار وزیر اعظم عمران خان نے اعظم سواتی کو مجبور ہوکر وزارت سے تو الگ کر دیا، لیکن سرکاری امور میں اور پارٹی معاملات میں اعظم سواتی کا اثر و رسوخ پہلے کی طرح موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ذرائع کے مطابق سابق چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد اعظم سواتی ایک بار پھر وزارت کے منصب پر فائز ہونے کے لئے موقع کی تلاش میں ہیں، کہ کب وزارتوں میں کوئی تبدیلی ہو، دو چار نئے وزرا کا حلف ہو تو وہ بھی دوبارہ حلف لیں۔ اعظم سواتی سائنس و ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر تھے۔ یہ وزارت اب بھی خالی ہے اور وزیر اعظم نے اس کا چارج کسی کو نہیں دیا۔
واضح رہے کہ اعظم سواتی او ان کے بیٹے عثمان سواتی نے گزشتہ سال اکتوبر میں چک شہزاد اسلام آباد میں اپنے فارم ہاؤس سے متصل سرکاری زمین پر ایک جھونپڑی میں مقیم نیاز علی کے خاندان کی خواتین پر نہ صرف تشدد کرایا بلکہ جھوٹی ایف آئی آر کے ذریعے انہیں جیل بھجوایا تھا۔ اسی کیس میں اس وقت کے آئی جی اسلام آباد جان محمد کا تبادلہ بھی ہوا۔ اس کیس کا سابق چیف جسٹس نے نوٹس لے کر جے آئی ٹی تشکیل دی تھی۔ معتبر ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ اعظم سواتی جن کا اصل نام بشیر احمد ہے، کی امریکہ، دبئی اور دیگر عرب ریاستوں میں کئی جائیدادیں اور کاروبار ہیں۔ پاکستان میں بھی اعظم سواتی کی کئی جائیدادیں اور نصف درجن بینک اکاؤنٹ ہیں۔ لیکن ٹیکس وہ صرف اس رقم پر دیتے ہیں جو رقم وہ بطور سینیٹر حکومت پاکستان سے وصول کرتے ہیں۔ 2001ء تک اعظم سواتی غیر معروف شخص تھے۔ اس سال بلدیاتی الیکشن میں روپے پیسے کے زور پر وہ ضلع ناظم سوات بنے۔ پھر اسی ’’خوبی‘‘ کی بنیاد پر جے یو آئی (ف) کی قیادت کی آنکھوں کا تارا بن کر ایوان بالا میں پہنچے اور جے یو آئی کے کوٹے پر گیلانی کابینہ کے وزیر بنے۔ انہوں نے اس وقت کے وفاقی وزیر مذہبی امور پر حج کرپشن کیس دائر کر کے شہرت حاصل کی۔ لیکن حامد سعید کاظمی کے اس الزام کا اب تک جواب نہیں دے سکے کہ اعظم سواتی جن کا امریکہ میں کاروبار ہے، امریکہ جانے سے گریزاں کیوں ہیں؟ اعظم سواتی سے بعد میں بھی بار بار یہ سوال پوچھا جاتا رہا، لیکن وہ اس سوال کو ٹال دیتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اعظم سواتی پر امریکہ میں فراڈ اور بدعنوانی کے کیسز ہیں اور انہیں امریکہ میں گرفتاری کا خدشہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ حامد سعید کاظمی کے چیلنچ کے باوجود بشیر احمد المعروف اعظم سواتی نے ابھی تک امریکہ کا رخ نہیں کیا۔
مظلوم نیاز علی جس کا تعلق باجوڑ ایجنسی سے ہے، نے قبائلی جرگہ کا اپنے گھر آنے اور اعظم سواتی کے بھائی کے جانب سے معافی مانگنے پر انہیں دل سے معاف کر دیا تھا۔ اس سے پہلے سواتی نے نیاز علی کو رقم وٖغیرہ بھی دینے کی کوشش کی، جو نیاز علی نے قبول نہیں کی تھی۔ نیاز علی اب بھی سی ڈے اے کی زمین پر اعظم سواتی کے فارم ہاؤس کے قریب رہ رہا ہے۔ سواتی کا یہ فارم اس کی بیوی طاہرہ سواتی کے نام پر ہے۔ اعلیٰ عدالت کے حکم پر سواتی نے فارم ہاؤس کے باہر کی سرکاری زمین پر وقتی طور پر غیر قانونی قبضہ ختم کردیا تھا۔ لیکن اب ان کے ملازمین اس زمین کو دوبارہ اپنے استعمال میں لے آئے ہیں۔ سواتی خاندان کی شدید خواہش اور کوشش ہے کہ فارم ہاؤس سے آگے کی سرکاری زمین بھی اسے مل جائے۔ اس مقصد کے لئے اعظم سواتی کے بیٹے عثمان نے مظلوم نیاز علی کے خاندان کی خواتین اور بچوں پر تشدد کے بعد مقدمہ بھی درج کرایا تھا۔ اس زمین کے حصول کے لئے اس نے سی ڈی اے سے بھی رابطہ کیا، لیکن سی ڈی اے نے ان کی درخواست مسترد کردی تھی۔ مقامی ذرائع کے مطابق سواتی کے فارم ہاؤس سے آگے چھ سات کنال اراضی پر اب بھی اس خاندان کی نظر ہے اور کسی مناسب موقع پر اعظم سواتی اسے اپنے نام الاٹ کرانے کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔
٭٭٭٭٭