امت رپورٹ
میئر کراچی وسیم اختر کی جانب سے لی مارکیٹ کی دکانیں ہر صورت گرانے کے اصرار پر 5 ہزار سے زائد تاجر شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ قانونی کارروائی، سیاسی جماعتوں سے رابطوں اور میئر کراچی سے ملاقاتوں کے باوجود مارکیٹ میں آپریشن کا خطرہ ٹلا نہیں ہے۔ تاجروں کو دکانیں خالی کرنے کیلئے کئی مرتبہ نوٹس جاری ہوئے اور کے ایم سی کی جانب سے ڈیڈ لائن بھی دی گئی، تاہم احتجاج کی وجہ سے انہدامی آپریشن عارضی طور پر رک گیا۔ لیکن دکانداروں کے سر پر تلوار لٹکی ہوئی ہے کہ کس وقت بھی بلڈوز آکر دکانیں مسمار کرسکتے ہیں۔ لی مارکیٹ کے تاجروں کا کہنا ہے کہ کے ایم سی افسران متبادل دکانیں یا جگہ کی فراہمی میں بھی ڈنڈی مار رہے ہیں۔ قریبی علاقوں کے بجائے مختلف علاقوں میں الگ الگ دکانیں یا جگہیں دینے کا کہا جارہا ہے، جو تاجروں کو منظور نہیں ہے۔ قریبی علاقے میں دکانیں الاٹ کئے جانے کے بعد ہی وہ مارکیٹ خالی کریں گے۔ دکانداروں کا کہنا ہے کہ اگر لی مارکیٹ کی دکانیں گرا دی گئیں تو نئی جگہ پر کاروبار جمانے میں کئی ماہ لگیں گے اور وہ اپنے اہل خانہ کو فاقوں میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے۔ تاجروں نے دھمکی دی ہے کہ اگر زبردستی دکانیں گرانے کی کوشش کی گئی تو وہ بلڈوزروں کے نیچے آکر خودکشی کر لیں گے۔
واضح رہے کہ لی مارکیٹ میں دودھ، چائے کی پتی، چپل، سندھی، بلوچی ٹوپی، الیکٹرونکس آئٹمز، کریانہ، مچھلی، گوشت، فروٹ، سبزی اور رضائی گدے کی تقریباً 1200 سے زائد کانیں ہیں اور کے ایم سی کی 702 دکانیں ہیں، جن کو مسمار کرنے سے تمام دکانیں زد میں آ کر گریں گی۔ ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان نے تاجروں سے اظہار یکجہتی کے نام پر لیاری میں سیاسی دکان کھول لی ہے، تاکہ آئندہ بلدیاتی الیکشن میں کامیابی حاصل کی جاسکے۔ جبکہ تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور اے این پی کے ذمہ دار تاجروں کی کوئی مدد کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال نومبر میں کے ایم سی کی جانب سے سپریم کورٹ کے احکامات پر تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا تھا۔ اس دوران 91 مقامات پر واقع کے ایم سی کی جن 15 ہزار دکانوں کی لیز منسوخ کی گئی تھی، ان میں لی مارکیٹ کی دکانیں بھی شامل ہیں۔ ذرائع کے بقول ایمپریس مارکیٹ کی طرح یہاں بھی برٹش دور کے کلاک ٹاور اور قدیم عمارتوں کو اجاگر کرنے کیلئے اطراف اور اندرونی حصے میں قائم دکانوں اور پتھاروں کو مسمار کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ نوٹس ملنے کے بعد لی مارکیٹ کے 5 ہزار سے زائد تاجروں نے آپریشن رکوانے کیلئے اپنے رہنمائوں کے ذریعے عدالتوں میں پٹیشنز دائر کیں، لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔ بعدازاں سیاسی پارٹیوں سے رابطے کئے اور میئر کراچی سے دو بار ملاقات کی، لیکن سب بے سود رہا۔ ذرائع کے بقول میئر وسیم اختر اس بات پر اڑے ہوئے ہیں کہ ہر صورت انہدامی کارروائی ہوگی۔
’’امت‘‘ کی جانب سے لی مارکیٹ کے سروے میں تاجروں سے بات چیت کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے رہنما جھوٹی تسلیاں دے رہے ہیں، کہ آپریشن نہیں ہوگا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے سروں پر آپریشن کی تلوار لٹک رہی ہے۔ کے ایم سی کی جانب سے دی گئی ڈیڈ لائن ختم ہوچکی ہے اور کسی بھی دن آپریشن شروع ہوسکتا ہے۔ تاجروں کا کہنا تھا کہ وہ اپنا کاروبار تباہ نہیں ہونے دیں گے اور بلڈوزروں کے آگے لیٹ کر خود کشی کرلیں گے۔ سبزی فروش نورالدین کا کہنا تھا کہ کراچی میں تاجروں کو بیروزگار کیا جا رہا ہے۔ ایک دکان سے پانچ پانچ خاندانوں کی روزی روٹی چل رہی ہے۔ اگر دکانیں گرا دی گئیں تو فوری طور پر متبادل جگہ پر کاروبار شروع نہیں کر سکتے۔ کاروبار سیٹ کرنے میں کئی ماہ لگ جائیں گے۔ آپریشن سے پہلے قریبی علاقے میں متبادل دکان یا جگہ دی جائے۔ دکاندار شیر محمد کا کہنا تھا کہ جن مارکیٹوں میں کے ایم سی کی دکانیں منہدم کرکے تاجروں کو متبادل جگہ یا دکانیں دی گئیں وہ چار ماہ میں بھی کاروبار سیٹ نہیں کرسکے ہیں۔ الیکٹرونکس کے تاجر رحمت خان نے بتایا کہ ایمپریس مارکیٹ کے متاثرہ دکانداروں کو متبادل جگہ یا دکان دینے کیلئے ساڑھے 3 ماہ بعد قرعہ اندازی ہوئی اور اس میں بھی مال کھلانے والوں کو اچھی لوکیشن کی دکانیں دیدی گئیں اور باقی دکانداروں کو ندی نالوں کے قریب جگہ دی گئی ہے۔ عبدالحمید نے بتایا کہ ان کی دکان سے تین خاندان پل رہے ہیں۔ مارکیٹ میں آپریشن ہوا تو ان کا 70 برس پرانا کاروبار برباد ہوجائے گا۔ آج کل حالات یہ ہیں کہ پریشانی کے عالم میں کوئی مالی امداد بھی نہیں کرتا۔ محمد شفیق کا کہنا تھا کہ لی مارکیٹ کے دکاندار پچھلے سال نومبر سے پریشان ہیں کہ کسی بھی دن توڑ پھوڑ شروع ہوسکتی ہے۔ دکاندار محمد خان نے کے ایم سی کی ڈیڈ لائن پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ روزی روٹی خدا کے ہاتھ میں ہے۔ جس روز انہدامی کارروائی ہوگی تو تمام تاجر بھرپور مزاحمت کریں گے۔ دکاندار وقاص نے کہا کہ کے ایم سی والے پہلے متبادل دکانیں دیں، تاجر وہاں کاروبار منتقل کرنے کے بعد مارکیٹ کا قبضہ چھوڑیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ لیز دکانوں کے مالکان اپنی جمع پونجی لگا کر بیٹھے ہیں، ایسے کس طرح جگہ خالی کرسکتے ہیں۔ دکاندار جاوید اور انور نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب لی مارکیٹ کا نمبر آ چکا ہے، جہاں تاجر پریشان ہیں، وہیں خریدار بھی کم آ رہے ہیں۔ دکاندار آصف نے دہائی دی کہ وہ اپنے بیوی بچوں اور بہن بھائیوں کیلئے دو وقت کی روٹی کما رہے ہیں، خدارا ان کے کاروبار کو برباد نہ کیا جائے۔ ایک دکان پر ملازم امان نے بتایا کہ انہیں یومیہ 700 روپے دیہاڑی ملتی ہے۔ مارکیٹ میں آپریشن ہوا تو ان سمیت سیکڑوں لوگ بیروزگار ہوجائیں گے۔ دکاندار صادق خان نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ مشینری لے کر آجائو، تاجر مر جائیں گے، لیکن دکانیں گرانے نہیں دیں گے۔ لی مارکیٹ میں سبزی مارکیٹ کے تاجر رہنما صادق پیا کا کہنا تھا کہ یہ مارکیٹ قیام پاکستان سے قبل کی ہے۔ یہاں 102 دکانیں برٹش دور کی ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد سے مارکیٹ کے کلاک ٹاور کی مرمت نہیں کرائی گئی، جو کریک ہوکر کئی حصوں میں تقسیم ہورہا ہے، تیز ہوا اور بارشوں کے دوران گر گیا تو بڑا جانی نقصان ہوسکتا ہے۔ لی مارکیٹ کے دکانداروں کو کہا جا رہا ہے کہ پہلے دکانیں گرانے دو، متبادل جگہ بعد میں دیں گے۔ لی مارکیٹ کے سامنے ٹھٹھہ بس اسٹاپ کی جگہ خالی کرا کے دیں گے۔ لیکن سرکاری کام دیر سے ہوتے ہیں، بلڈنگ کی تعمیر اور دکانوں کی الاٹمنٹ میں کئی برس لگ سکتے ہیں، اتنے عرصے تک تاجر کیا کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور اے این پی سے رابطو کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کے مرکز گئے تھے تاکہ میئر کراچی کو آپریشن نہ کرنے پر رضامند کرلیں۔ لیکن ایم کیو ایم کے رہنما بھی آسرے دے رہے ہیں۔ انہوں نے انتباہ کیا کہ اگر زبردستی آپریشن کیا گیا تو جانی نقصان کی ذمے داری بلدیہ عظمیٰ پر ہو گی۔ تاجر اپنا کاروبار کسی صورت برباد نہیں ہونے دیں گے۔ پہلے متبادل جگہ دے کر پکے کاغذات دیئے جائی پھر آپریشن کیا جائے۔ لی مارکیٹ کے تاجر رہنما شعیب بلوچ کا کہنا تھا کہ ڈیڈ لائن ختم ہو چکی ہے اور کسی بھی دن کارروائی شروع ہوسکتی ہے۔ ہر طرف سے مایوس ہونے کے بعد تاجر انہدامی کارروائی کیخلاف شدید مزاحمت کیلئے تیار ہیں۔
٭٭٭٭٭