ایس اے اعظمی
برطانیہ امریکہ اور یورپی ممالک میں داعشی بیوائوں کی واپسی نے اضطراب پیدا کردیا ہے۔ امریکی و یورپی باشندوں کی اکثریت نے اپنی حکومتوں سے اپیل کی ہے کہ ہلاک دہشت گردوں کی دلہنوں کو کسی بھی قیمت پر واپس نہیں لیا جائے اور ان کی شہریت ختم کردی جائے۔ شامی کیمپ میں پناہ لینے والی ان داعش جنگجوئوں کی بیوائوں کا تعلق امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، جرمنی، فرانس اور ڈنمارک سے بتایا جاتا ہے، جن کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ داعشی بیوائوں کے حوالہ سے ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ایک جانب امریکی صدر ٹرمپ اپنے یورپی اتحادیوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ واپسی کے خواہشمند لگ بھگ 800 جنگجوئوں کو ان کے آبائی ممالک آنے کی اجازت دیں، لیکن امریکہ میں انہیں داعشی جنگجوئوں اور بیوائوں کا واپس آنا پسند نہیں۔ خبری پورٹل العراقیہ نے بتایا ہے کہ شمالی شام میں داعش کے آخری مضبوط گڑھ باغوز میں حتمی کارروائی کا آغاز ہوگیا ہے اور ایسے میں تمام داعشی بیوائیں ایک محفوظ پناہ گزین کیمپ میں پہنچ رہی ہیں جن میں یورپی داعشی بیوائوں کی تعداد 23 بتائی جاتی ہے، جن میں 13 نے واپس اپنے ممالک جانے کیلئے مہم کا آغاز کیا ہے۔ ترکی کے کنٹرول میں موجود اس پناہ گزین کیمپ میں داعش کے غیر ملکی جنگجو خاندانوںکے ڈیڑھ ہزار افراد موجود ہیں جن میں داعش کی غیر ملکی بیوائوں کے 55 اطفال بھی موجود ہیں۔ ایک اعلیٰ عراقی افسر کا کہنا ہے کہ روسی حکومت نے ایک بڑے ایکشن پلان کے تحت عراق سے ایک ہزار داعشی بچوں کی روس واپسی کا پروگرام شروع کر رکھا ہے اور اب تک 300 داعشی بچوں کو واپس ماسکو پہنچایا جاچکا ہے، جو داعش کے روسی ماں یا باپ کی اولادیں ہیں اور گزشتہ 15 برس کے دوران عراق یا شام میں پیدا ہوئے ہیں۔ انہی داعشی بیوائوں میں امریکی ریاست الباما سے تعلق رکھنے والی ایک امریکی مسلمان خاتون ہدیٰ مثنیٰ بھی ہیں، جس کی امریکی شہریت اس لئے منسوخ کردی گئی ہے کہ وہ داعشی جنگجو کی دلہن بنی۔ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پوم پیو نے بدھ کومثنیٰ کے خاندان کے رکن حسن شبلی کو بھیجے جانے والے خط میں واضح کیا کہ ہدیٰ کی شہریت واپس لے لی گئی ہے اور اس کو امریکہ ہرگز نہیں آنے دیا جائے گا۔ لیکن ہدیٰ نے اپنے وکیل کونر فنگان کے توسط سے امریکی حکام کے اس فیصلہ کو عدلیہ میں چیلنج کردیا ہے، جس کی سماعت اگلے ماہ میں منعقد کی جارہی ہے۔ وکیل کونر کا موقف ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے شہریوں کی شناخت چھینا جانا غلط طرز عمل ہے، امریکی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم کیئر نے تصدیق کی ہے کہ ان کی جانب سے داعشی بیوائوں کو قانونی امداد فراہم کی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ ہدیٰ کے علاوہ متعدد امریکی خواتین نے شام جاکر جنگجوؤں سے بیاہ رچایا تھا۔ ان میں امریکی شیرون مورین کونلی بھی شامل ہے جس نے داعش کے تیونسی جنگجو یونس سے شادی کی تھی۔ شیرون اس وقت امریکی قید میں ہے اور اس کا تعلق ڈینیور سے بتایا جاتا ہے۔ ایک اور امریکی خاتون جیلائن دلشان جس کا تعلق ریاست مسی سپی سے بتایا گیا ہے، بھی شام جارہی تھی تاکہ کسی داعشی جنگجو سے شادی کرکے گھر بسائے لیکن امریکی سیکورٹی حکام نے2015ء میں انٹیلی جنس کی مدد سے اس کو روانگی کے وقت ہی گرفتار کرلیا اور اس وقت بھی جیلائن دلشان امریکی جیل میں 12 برس کی سزا کاٹ رہی ہے، لیکن اس کی شہریت منسوخ نہیں کی گئی ہے۔ ایک اہم نام ڈینیلا گرین کا بھی ہے جو ڈیٹرائٹ ریاست میں ایف بی آئی کی ایجنٹ تھی لیکن نہ صرف اس نے شام کا سفر کیا بلکہ ایک ایک یورپی داعشی جنگجو ڈینس کاسپرٹ کے ساتھ بیاہ بھی رچا لیا تھا۔ برطانوی صحافی سیم اسٹیون سن نے بتایا ہے کہ برطانیہ میں داعشی دلہن شمیم بیگم، خدیجہ سلطانہ اور عامرہ عباس کی واپسی نے معاشرے میں زبردست حساسیت پیدا کردی ہے اور ان کی مخالفت میں ساڑھے پانچ لاکھ برطانوی شہریوں نے ایک پٹیشن دائر کرکے ہوم آفس کو بھیجی ہے، جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ان تمام کو واپس نہ آنے دیا جائے ورنہ یہ برطانوی معاشرے میں ’’جنگ کے کلچر‘‘ کو پروموٹ کریں گی۔ جبکہ داعشی بیوائوں کی واپسی کے بعد حکومت کو ان کی مانیٹرنگ پر لاکھوں پائونڈ ماہانہ بھی خرچ کرنا پڑیں گے۔ ادھر برطانوی حکام نے تسلیم کیا ہے کہ ہوم آفس ایک ایسے قانون پر غور کررہا ہے جس کے تحت تمام داعشی افراد اور خواتین کو برطانوی سرزمین پر نہ آنے دیا جائے اور اگر آئیں بھی تو سیدھا جیل میں جائیں جہاں ان کو عمر بھر قید رکھا جائے گا۔ ڈیلی ایکسپریس یو کے، کے مطابق ہوم منسٹر ساجد جاوید نے اس سلسلہ میں مذکورہ مجوزہ قانون کی تیاری کی تائید کی ہے لیکن تفصیلات بتانے سے گریز کیا ہے۔ ادھر بنگلہ دیشی صحافی مفیض الاسلام نے بتایا ہے کہ شمیم بیگم کی برطانوی شہریت منسوخ کئے جانے کی اطلاعات میں ایک اطلاع یہ بھی تھی کہ برطانوی حکومت شمیم بیگم کو اس کے والدین کے ملک یعنی بنگلہ دیش بھیجنا چاہتے تھے اور انہوں نے اس سلسلہ میں بنگلہ دیش ہائی کمیشن کو مطلع کیا تھا کہ چونکہ شمیم بیگم کے والد اور والدہ بنگالی نژاد ہیں، اس لئے اسے بنگلہ دیش جانا چاہیئے۔ لیکن اس اطلاع کی سن گن ملتے ہی بنگلہ دیشی حکومت کے کان کھڑے ہوگئے اور بنگلہ دیشی وزیر داخلہ شہر یار عالم نے برطانوی حکومت کو فوری طور پر جتا دیا کہ اگرچہ شمیم کے والدین بنگالی نژاد ہیں لیکن شمیم پیدائشی اعتبار سے برطانوی شہری ہے، اس لئے اس کو بنگلہ دیش نہ بھیجا جائے۔ واضح رہے کہ صرف برطانیہ سے نکل کر شام و عراق جانے اور داعش کا دست و بازو بننے والوں کی تعداد 400 سے زائد بتائی جاتی ہے۔ جبکہ اگر یورپی و امریکی داعشی جنگجوؤں اور خواتین کی تعداد ملائی جائے تو یہ ساڑھے 3 ہزار سے زائد بنتی ہے۔
٭٭٭٭٭
Next Post