نجم الحسن عارف
بھارتی جنگی جنون نے پاک و بھارت تجارت کو لپیٹ میں لے لیا ہے اور اب تک مختلف اشیا سے بھرے 500 ٹرک واہگہ سے واپس آچکے ہیں، جن میں سے 300 ٹرک سیمنٹ کے ہیں۔ ادھر بھارت میں چائے کی پتی کے تاجروں کے علاوہ پاکستان کو سبزیاں برآمد کرنے والے بھارتی تاجروں کو بھی اربوں روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ 16 فروری سے بھارت کی طرف سے واہگہ کے باب تجارت کے راستے زمینی تجارت بند ہو چکی ہے۔ پاکستان سے تجارتی سامان لے کر واہگہ پہنچنے والے سیکڑوں ٹرک کئی روز واہگہ باب تجارت اور واہگہ کے آس پاس کھڑے رہنے کے بعد واپس چلے آئے ہیں۔ ان میں صرف سیمنٹ سے لدے تین سو ٹرک شامل ہیں۔ جبکہ ٹرکوں کی مجموعی تعداد پانچ سو کے قریب ہے۔ سیمنٹ، جپسم، خشک میوہ جات، بالخصوص چھواروں سے بھرے یہ ٹرک جمعہ کے روز سے ہی واہگہ سے واپس آنا شروع ہو گئے تھے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ واہگہ کے راستے پاک بھارت زمینی تجارت کی بندش کے باوجود پاکستان کے راستے افغان بھارت تجارت جاری ہے اور افغانستان سے سامان تجارت لے جانے والے ٹرکوں کی آمد و رفت پہلے کی طرح ہے۔
پاکستان نے بھارتی تجارتی جارحیت کی کوشش کے باوجود پورے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغانستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ تجارت میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی ہے۔ ادھر بھارت کے سبزیوں کے تاجروں کو بطور خاص بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے تجارت دشمنی پر مبنی فیصلے سے نقصان ہوا ہے اور ان کی سبزیاں اٹاری اور امرتسر کے درمیان گلنے سڑنے کے بعد کوڑے کے ڈھیروں میں تبدیل ہو گئیں۔ ’’امت‘‘ کے واہگہ بارڈر پر ذرائع نے بتایا کہ 16 فروری کو پاکستان کا تجارتی دروازہ بھارت نے بند کر دیا تھا جس کے بعد کئی روز تک سامان تجارت لانے والے سیکڑوں ٹرک سامان ’’ان لوڈ‘‘ نہ کر سکے۔ اس سلسلے میں بھارتی تجارتی سامان لانے والے تاجروں کو اربوں کا نقصان اٹھانا پڑا کہ ان کا سامان کئی روز تک اٹاری بارڈر پر ٹرکوں میں پڑا رہنے کی وجہ سے گل سڑ گیا۔ ادھر پاکستان سے بھارت کیلئے واہگہ پہنچنے والے سیکڑوں ٹرک کئی روز تک باب تجارت بند ہونے کے بعد میلوں دور تک کھڑے رہے اور پھر جمعہ کے روز سے واپس جانا شروع ہو گئے۔ جمعہ کے روز ان ٹرکوں کی واپسی شروع ہوئی اور ہفتہ کی شام تک کافی حد تک مکمل ہو گئی۔ تجارتی اداروں اور ان کی سامان برداری کرنے والی گڈز ٹرانسپورٹ کمپنیوں نے بھارتی حکومت کے جنگی عزائم کے پیش نظر کسٹم حکام سے ایشو کرائے ’’گڈز ڈکلیریشن‘‘ یعنی جی ڈیز منسوخ کرا لئے ہیں۔
’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق پاکستان سے سامان تجارت بھارت منتقل کرنے کیلئے کسٹم حکام سے متعلقہ تجارتی اداروں کو ’’جی ڈیز‘‘ لینا پڑتے ہیں۔ انہی جی ڈیز کی بنیاد پر سامان تجارت پاکستان سے بھارت لے جایا جا سکتا ہے۔ کئی روز کے انتظار اور گڈز کمپنیوں کو اضافی کرایہ دینے کے بعد تجارتی کمپنیوں نے بالآخر اپنا سامان واپس منگوا لیا۔ اتوار کے روز بھی بعض بچے کھچے ٹرک واپس جاتے رہے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق جمعہ کے روز پاکستان سے 200 کے قریب اشیائے تجارت لانے والے ٹرک واپس گئے، جبکہ اتوار کے روز تقریباً 300 ٹرک سامان سمیت نو دن بعد واہگہ سے واپس اپنے متعلقہ گوداموں کی طرف روانہ ہو گئے۔ البتہ افغانستان سے سامان تجارت کی ترسیل کرنے والے ٹرکوں کی بھارت کیلئے خدمات کا سلسلہ معمول کے مطابق جاری ہے۔ واضح رہے افغان بھارت ٹریڈ کے حوالے سے معمول کے مطابق آنے جانے والے ٹرکوں کی تعداد پانچ سے 20 تک رہتی ہے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان واہگہ پر قائم اس باب تجارت پر پاکستان کے تجارتی سامان لانے والے ٹرکوں کو ایک ایک کر کے ’’ان لوڈ‘‘ کیا جاتا ہے اور پھر ان کے ایک ایک آئمٹ کی پوری طرح جانچ کی جاتی ہے۔ یوں ایک ٹرک پر لادا گیا سامان عملاً ایک گھنٹے سے زائد منٹ تک چیکنگ کے مرحلے سے گزرتا ہے جبکہ واہگہ کے سرحدی علاقے میں داخل ہونے والے ان تجارتی ٹرکوں کیلئے لازم ہے کہ یہ 2 بجے تک متعلقہ پارکنگ ایریا میں پہنچ جائیں۔ اس کے بعض آنے والے ٹرکوں کو باب تجارت تک جانے نہیں دیا جاتا ہے۔ یہ حالیہ برسوں میں دو طرفہ کشیدگی کے باعث پہلی بار ہوا ہے کہ دونوں طرف سے آنے والے تجارتی سامان کو اچانک بھارتی فیصلے سے روک دیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان نے بھارت سے سال 2018ء کے دوران 15.83 ملین کلو گرام اشیاء درآمد کی ہیں۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ اب پاکستان کے ساتھ تجارتی معاملات میں رخنہ ڈال کر صرف پاکستان چائے کی پتی کی برآمد روک کر بھارتی حکومت نے اپنے تاجروں کا 5 ملین ڈالر کا نقصان کیا ہے۔ یاد رہے پاکستان میں برآمد ہونے والی 80 فیصد چائے کی پتی بھارت سے آتی ہے۔ جبکہ سڑکوں پر اور ٹرکوں میں گل سڑ جانے والی سبزیوں کے بھارتی تاجروں کا نقصان اس کے علاوہ ہے جنہوں نے وزیراعظم بھارت نریندر مودی کے اچانک اعلان کے باعث پاکستان کو ٹماٹروں و دیگر تازہ اشیاء کی برآمد روک دی تھی۔ اس حوالے سے موقف کیلئے اتوار کی ہفتہ وار چھٹی ہونے کی وجہ سے متعلقہ کسٹم حکام سے رابطہ نہ ہو سکا۔
٭٭٭٭٭