احمد خلیل جازم /تصاویر : محمد شاہد
تلہ گنگ کے گائوں کھچی کی شاہی جامع مسجد یوں تو مضبوطی میں اپنی مثال آپ ہے۔ لیکن اس کی تعمیر میں خاص دلچسپی کے عنصر کو بھی ملحوظ رکھا گیا تھا۔ مولانا خالد کا کہنا تھا کہ ’’جب اسد خان غازی قلعہ کوٹ سارنگ فتح کرکے دوبارہ کھچی آیا تو حافظ نور الدین مخدوم کی جانب سے مسجد کی تعمیر کی خواہش کا اظہار ہوا۔ اسد خان غازی نے آپ کے خیال و خواہش کی تائید کی اور مسجد کی تعمیر کا ارادہ کرلیا۔ اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر غازی اسد نے سرکاری اہتمام کے ساتھ میٹریل کی فراہمی کا انتظام کیا۔ دیواروں کے لیے اینٹیں اٹک قلعہ اور دہلی سے منگوائی گئیں، جو اپنی ساخت، بناوٹ اور لمبائی چوڑائی میں منفرد اور نادر تھیں۔ یہ وہ اینٹیں تھی جو عام طور پر استعمال نہیں ہوتی تھیں، بلکہ مغلیہ فن تعمیر کیلئے مختص تھیں۔ اس طرح کی اینٹیں مغلیہ قلعوں میں استعمال کی جاتیں۔ اینٹوں کی لمبائی 14 انچ، چوڑائی آٹھ انچ جبکہ ان کی موٹائی دو انچ تک ہے۔ مسالہ کے طور پر چونا اور گچ نفاست کے ساتھ استعمال کیا گیا، جو بہت مضبوط ہے۔ اتنا عرصہ گزرنے اور بارہا مسجد کی مرمت اور تزئین کی وجہ سے اینٹوں کا بیشتر ذخیرہ تو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا ہے، اس کے باوجود دیواروں میں کافی اینٹیں موجود ہیں۔ کچھ عرصہ قبل آثار قدیمہ کے لوگوں نے ویسی ہی اینٹ لے کر ضلع بھر کے مختلف بھٹوں کا دور کیا اور اس جیسی اینٹ بنوانے کی کوشش کی۔ لیکن کسی نے ویسی اینٹ بنانے کی ہامی نہ بھری اور کہا کہ اس طرز کی اینٹ بنانا ممکن نہیں ہے‘‘۔
تاریخی نوعیت کا یہ خزانہ معماروںکے حسن ذوق و انتخاب کا عکاس ہے۔ ’’امت‘‘ کی ٹیم کویہ بھی بتایا گیا کہ ’’دیواروں کی موٹائی تقریباً دو فٹ پر محیط ہے جو انتہائی مضبوط اور پائیدار ہیں۔ صدیاں گزر گئیں، لیکن ان پر وقت اثر انداز نہ ہوسکا۔ قدیم ہونے کے باوجود قائم و دائم ہیں‘‘۔ شرقی دیوار میں دو کھڑکیاںاور درمیان میں شاہی طرز کا ایک دروازہ ہے۔ مسجد کے اندورنی ہال میںتک پہنچے کیلئے مسجد کا صحن عبور کریں تو سامنے مسجد کے اندرونی سمت کیلئے تین دروازے دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ ان دروازوں کے دائیں بائیں دروازہ نما کھڑکیاں ہیں۔ ان تمام کے اوپر دیوار پر خوبصورت نقش و نگار بنائے گئے ہیں جو آنکھوں کو بہت بھلے معلوم ہوتے ہیں۔ اگرچہ مسجد کے صحن میں لوہے کے پائپ لگا کر دھوپ سے بچائو کی خاطر ترپال لگا دی گئی ہے لیکن اس ترپال نے مسجد کے حسن کو ماندکرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی، اب یہ ترپال خستگی کا شکار ہوکر چیتھڑے بن رہی ہے۔ مولانا خالد کا کہنا تھا کہ ’’یہ ترپال ہٹا کر اب یہاں دوسری ترپال لگانی ہے، لیکن وہ آٹومیٹک ترپال ہوگی جو بٹن دبانے سے کھلے گی اور پھر بند ہوگی۔ اس کیلئے تین لاکھ روپے جمع کیے گئے ہیں۔ انجینئر کو بلوا کر ایسٹی میٹ لگوایا گیا تو اس نے کہا ہے کہ یہ کام پانچ لاکھ میں ممکن ہوگا۔ چنانچہ فنڈز کی کمی کے باعث ابھی یہ معاملہ اٹکا ہواہے‘‘۔ اس سوال پر کہ مسجد کے اخراجات کیسے پورے ہوتے ہیں؟ مولاناخالد نے بتایا کہ ’’مسجد میں امامت کیلئے کسی قسم کی مالی اعانت پہلے روز سے نہیں لی جاتی۔ البتہ قصبے کے لوگ اپنے طور پر اعانت کردیتے ہیں جس سے بجلی کا بل وغیرہ نکل آتا ہے۔ دیگر اخراجات کیلئے کبھی کسی کے سامنے دست سوال نہیں پھیلایا گیا۔ خدا تعالیٰ کا اپنا نظام ہے، جب کبھی ضرورت ہوتی ہے وہ کسی نہ کسی شکل میں انتظام کر دیتا ہے‘‘۔ مسجد کے تینوں بیرونی ہال کے دروازے پہلے توسیعی دور میں یعنی 1257ھ میں بنوائے گئے تھے۔ ان دروازوں پر سبز رنگ کیاگیا ہے اور ان کی لکڑی انتہائی مضبوط ہے ۔ پہلی توسیع کے حوالے سے مولانا خالد کا بتانا تھا کہ ’’پہلی توسیع ایک سو سولہ برس بعد کی گئی۔ اس توسیع میں شاہی مسجد کا دوسرا ہال تعمیر کیا گیا۔ اس ہال کی لمبائی پہلے ہال کے برابر ہے۔ البتہ چوڑائی قدرے اس سے کم ہے ۔ یہ تین دروازے رکھے گئے جن کا انداز محرابی ہے۔ جبکہ صحن کی جانب یہ دو کھڑکیاں بنائی گئی ہیں۔ ایک کھڑکی بغلی دیوار میں بنائی گئی تھی جو بند کرد ی گئی ہے۔ کیونکہ اس طرف اب گھر ہیں‘‘۔ ہم نے وہ کھڑکی دیکھی جو ایک ڈیوڑھی نما راستے میں کھلتی تھی لیکن اب بند کردی گئی تھی۔ مسجد کا عقبی حصہ گھروں کے درمیان کھلتا ہے۔ اس کے بارے میں مولانا خالد کے والد اور مسجد کے امام پیر حبیب بخش کا کہنا تھا کہ ’’جب مسجد تعمیر ہوگئی تو یہاں مدارس کا سلسلہ قائم کردیا گیا۔ اورنگ زیب عالمگیر کو اسد خان غازی نے اطلاع دی کہ مسجد تو تعمیر ہوگئی ہے اور اب وہاں تدریس کا بڑا نظام چل رہا ہے۔ جبکہ یہ لوگ فقیر اور دنیا داری سے بالکل بیگانے ہیں۔ چنانچہ بادشاہ کی جانب سے اس علاقے میں ہمارے بزرگوں کو زمین عطیہ کے طور پر دینے کا حکم ہوا۔ اس حکم پر یہاں ہزاروں ایکڑ کی تعداد میں زمین عطیہ کی گئی۔ اس وقت یہاں چک ہوتے تھے جنہیں فارسی میں ’’چک بستہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ چنانچہ وہ چک حافظ نور الدین مخدوم کی خدمت میں پیش کئے گئے تاکہ انہیں مدارس کے اخراجات کیلئے کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانے پڑیں۔ لیکن حافظ صاحب نے ان پر کسی قسم کا قبضہ نہ کیا، ان چکوک کی باقاعدہ تحریر آج بھی موجود ہے۔ اس پر 1141ھ کی مہر ثبت ہے جس پر بندہ اسد خان غازی کا نام بھی کنندہ ہے۔ اسی طرح مسجد کی زمین کے بعد اسی علاقے میں ایک سو چھبیس کنال پر محیط زمین قبرستان کیلئے بھی وقف کردی گئی۔ اب مسجد کے ساتھ جو مکانات ہیں، یہ بھی مسجد کا ہی حصہ ہیں۔ یہ اس لیے بنوائے گئے کہ جو اساتذہ اس وقت یہاں تعلیم دے رہے تھے انہیں رہائش کی تنگی نہ ہو۔ اسی طرح امام مسجد کا مکان بھی اسی زمین پر تعمیر کیا گیا جو مسجد کیلئے وقف کی گئی۔ یہ ٹوٹل 60 مکانات تھے، جو 1974ء تک کسی نہ کسی صورت میں اپنی اصل شکل میں محفوظ رہے۔ لیکن پھر لوگو ںنے جدید تعمیرات پر اصرار کیا اور یوں وہ قدیم مکانات منہدم کرکے نئی تعمیرات کی گئیں‘‘۔
مولانا خالد کا مزید بتانا تھا کہ ’’وہ بغلی دیوار والی کھڑکی تو اس وجہ سے بند کردی گئی۔ قدیم ہال کے سامنے اس نئے توسیعی ہال کی چھت لکڑی کی ہے۔ لکڑی کے شہتیروںپر لکڑی کے بالے ہیں اور ان پر ایک قرینے سے تختیاں جمائی گئی ہیں۔آپ دیکھیں یہ سادگی کے باوجود بہت پرکشش دکھائی دیتی ہیں۔ اس چھت اور ہال کو تعمیر ہوئے ڈیڑھ صدی سے زیادہ گزر گیا ہے لیکن یہ چھت آج بھی مضبوطی سے قائم ہے‘‘۔ کیا جس وقت یہ مسجد تعمیر کی گئی تھی، اس وقت اس کے مینار وغیرہ بھی بنائے گئے تھے؟ اس حوالے سے مولانا خالد کا کہنا تھا کہ ’’نہیں، پہلی بار جب اسد خان غازی نے مسجد تعمیر کرائی تو فقط اندرونی ہال ہی تعمیر ہوا تھا۔ اس پر کسی قسم کا کوئی مینار وغیرہ تعمیر نہیں کرایا گیا تھا۔ یہ مینار تیسری توسیع کے موقع پر بنائے گئے۔ یہ مستری فتح دین نے بنائے تھے جو مقامی مستری تھا۔ پہلی اور دوسری توسیع کے موقع پر مسجد کے اوپر مینار نہیں بنائے گئے تھے۔ شاہی مسجد کی اصل تعمیر تو وہی ہے جو حافظ نور الدین مخدوم کے دور میں اسد خان نے کرائی تھی۔ تیسرا اضافہ 1378ھ میں ہوا۔ یہ اضافہ میرے داد جی حافظ میاں محمد کے دور میں ہوا۔ اس وقت تک دوسرے ہال کی بیرونی تعمیر یعنی سامنے کی دیوار خستہ حالی کا شکار ہوگئی تھی، چنانچہ اسے نہ صرف پختہ کرایا گیا، بلکہ یہ مینا کاری، نقش و نگار اور تزئین کا تمام کام بھی انہی کی زیر نگرانی ہوا۔ اگرچہ اب وہ مینا کاری وقت کی بے رحمی کا شکار ہے، اس کے باوجود آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس کاحسن قائم ہے۔ مسجد کی تعمیر کے ساتھ ساتھ گائوں کے لوگوں کی ضروریات کیلئے ایک کنواں بھی کھدوایا گیا تھا۔ چنانچہ پورا گائوں اسی کنوئیں سے پانی بھرتا تھا۔ بعد ازاں جب گھر گھر میں نلکے لگائے گئے تو کنوئیں کی اہمیت کم ہوگئی۔ بجلی کی سہولت نے اب لوگوں کو پانی کی موٹروں کی جانب مائل کردیا یوں وہ کنواں جو صحن مسجد میں اس جگہ واقع تھا، جہاں اب یہ بڑا پھول بنا ہوا ہے، پون صدی تک اپنی خدما ت پیش کرنے کے بعد بند کردیا گیا‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭