احمد خلیل جازم
شاہی جامع مسجد کھچی زمانے کے سرد و گرم سہتے ہوئے اب خستگی کا اظہار کرنے لگی تھی۔ چونکہ مسجد کی خدمت کرنے والے انتہائی دین دار اور فقیر منش لوگ تھے۔ اس لیے انہوں نے کبھی اس مسجدکی اہمیت کو سامنے رکھ کر کسی سے فوائد حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ جب ستّر کی دہائی کے اواخر میں مسجد کی خستگی شروع ہوئی تو امام مسجد حبیب بخش نے اس ورثے کی اہمیت کو مد نظر رکھ کر اسے حکومت کی نظروں سے گزارنے کی کوشش شروع کر دی۔ یہ کوشش بیس برس سے زائد پر محیط رہی۔ مولانا حبیب بخش کا کہنا تھا کہ ’’اسی دوران ایک خالد نامی شخص لاہور سے آیا۔ اس نے مجھے کہا کہ حضرت، مسجد پر جتنے اخراجات آئیں گے، وہ میں ادا کروں گا۔ اٹھارہ لاکھ ابھی لیں، مزید اگر پچاس لاکھ بھی ضرورت ہوں تو میں دینے کو تیار ہوں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ پرانی عمارت کو منہدم کر کے یہاں نئی اور شاندار مسجد تعمیر کرا دیں۔ میں نے معذرت کرلی۔ کیونکہ اس کی اہمیت تو اس کے قدیم ہونے میں ہے۔ ورنہ تو پاکستان بھر میں انتہائی شاندار مساجد تعمیر ہو رہی ہیں۔ لیکن اسے آثار قدیمہ کے لحاظ سے بہت اہمیت حاصل ہے۔ چنانچہ خالد صاحب کا پرپوزل رد کر دیا گیا۔ اب صورت حال یہ تھی کہ مسجد کی بیرونی دیواروں میں شگاف پڑ رہے تھے۔ چھت کے بعض حصوں کو دیمک کھا رہا تھا۔ چونا اور گج کا پلستر اپنی طاقت کھو چکا تھا۔ شدت سے یہ بات محسوس کی جا رہی تھی کہ اس تاریخی یاد گار کی بحالی کے لئے بروقت اور مناسب کوشش نہ کی گئی تو یہ شاندار اور عظیم ورثہ اپنا وجود کھو دے گا۔ آج پھر مسجد کی وہی کیفیت ہے‘‘۔
شاہی مسجد کھچی کے قائم مقام امام مسجد مولانا خالد نے ہماری توجہ مسجد کی خستگی کی جانب مبذول کرائی تو واقعی آج ایک مرتبہ پھر شاہی مسجد کی تزئین اور مرمت کی اشد ضرورت محسوس کی گئی۔ مسجد کے صحن میں سب سے پہلے تو چھائوں کے لئے آٹو میٹک ترپال کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ اس کا بیرونی حصہ ایک مرتبہ پھر خستگی کی جانب مائل ہے۔ مسجد کا اندرونی حصہ جسے آثار قدیمہ پاکستان اپنے ثقافتی ورثہ میں شامل کر چکا ہے۔ اس کی چھت سے بارش کا پانی رستا ہے اور چھت کی کڑیوں اور کونوں سے بارش کے دنوں میں پانی ایک طرف نایاب چھت کو نقصان پہنچا رہا ہے تو دوسری جانب دیواروں کے ساتھ لگے بالے بھی خراب ہو رہے ہیں۔ یہ چھت مغل طرز تعمیر کی شاہکار ہے۔ یہ اب زبوں حالی کا منظر پیش کر رہی ہے۔ رنگ و روغن کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ اس پر مستزاد مسجد کی اندرونی اور بیرونی سمت سے پلستر اکھڑ رہا ہے۔ اندرونی پلستر جو چونے اور گج سے بنا ہے۔ اس کی حالت بھی خراب ہے۔ اگرچہ پچھلی مرتبہ جب محکمہ آثار قدیمہ نے اس کی مرمت کی تھی تو اس کی دیواریں اس قدر مضبوط تھیں کہ اس پلستر کی جگہ نیا پلستر کرنے کے لئے دیواروں میں جھریاں بنانے کی کوشش کی گئی۔ بقول مولانا خالد کے، لوہے کی ہتھوڑیاں اور چھینیاں ٹیڑھی ہوگئیں۔ لیکن مسجد کی دیوار میں مناسب انداز میں جھریاں نہ ماری جا سکیں۔ ان جھریوں کی یادگار اب بھی اسد خان غازی کی تعمیر کردہ مسجد کی دیوار وں پر موجود ہیں۔ وہ نامکمل جھریاں آج بھی عہد جدید کے ہنر مندوں کا منہ چڑا رہی ہیں۔ چوتھی توسیع کے حوالے سے مولانا حبیب بخش کاکہنا تھا کہ ’’ہمارے بزرگوں نے خود کو مسجد اور درس و تدریس تک ہی محدود رکھا۔ باہر کی دنیا سے ان کا کوئی رابطہ نہیں تھا۔ اس لیے مسجد کی تزئین و مرمت میں دیر ہوتی گئی۔ ہم نے بزرگوں سے اس کی تاریخی اہمیت کے بارے میں سن رکھا تھا۔ چنانچہ اس غرض سے ابتدائی طور پر مسجد کے کچھ کوائف مجھے معلوم تھے وہ لکھ لیے اور بعد ازاں غلام عباس آف ملکوال سے ملاقات کر کے وہ شاہی اسناد جو ان کے پاس تھیں اور مسجد کے تعمیری احوال سے متعلق تھیں، حاصل کرلیں۔ ان اسناد کی فوٹو کاپیاں اور اپنی درخواست اس وقت ضلع اٹک میں متعین ڈپٹی کمشنر کو بھجوا کر بادل ناخواستہ ابتدائی کوشش شروع کر دی۔ چونکہ اس وقت تلہ گنگ ضلع اٹک میں شمار ہوتا تھا۔ اس لیے اٹک کے ڈپٹی کمشنر صاحب میری درخواست پڑھ کر بنفس نفیس کھچی آگئے۔ انہوں نے نہایت مفید مشورے دیئے اور ہمارے پاس تاریخی مخطوطے کو سنبھال کر رکھنے کی تلقین کے ساتھ ساتھ راستہ بھی بتا گئے۔ اسی بنیاد پر وفاقی محتسب اعلیٰ کو اسلام آباد درخواست دی گئی۔ اب کیا بتائیں کہ اس حوالے کس قدر کوشش کی گئی۔ صدر ضیاء الحق مرحوم کے ملٹری سیکریٹری برگیڈیئر اکرم سے مل کر درخواست صدر مملکت سے توثیق کرا کے محکمہ پنجاب آثار قدیمہ کو بھجوائی، جنہوں نے خود رابطہ کیا۔ لیکن اسی دوران ان کا حادثے میں ارتحال ہوا اور معاملہ پھر لٹک گیا۔ ایک بار پیسے منظور ہوئے تو وہ اس وقت کے وفاقی وزیر فیصل صالح حیات جھنگ اپنے بزرگوں کے مزارات کی مرمت کیلئے لے گئے۔ دوسری مرتبہ رقم منظور ہوئی تو وزیر قصوری صاحب تھے۔ جنہوں نے مسجد کے بجائے حضرت بلھے شاہؒ کے مزار پر رقم لگا دی۔ اور ہم تیسری مرتبہ پھر امید و بیم کی کیفیت میں منتظر رہے۔ آخر کار طالب حسین ڈپٹی آثار قدیمہ کی کوششوں سے 2008ء میں فنڈ منظور ہوا اور باقاعدہ مسجد کی تزئین اور مرمت کا کام شروع ہو گیا۔ طالب حسین اور ان کے رفقائے کاروں نے نہایت انہماک اور جانفشانی سے مرمت کا کام کیا۔ یوں 2010ء میں مسجد کی تزئین اور مرمت مکمل ہوگئی‘‘۔ مولانا خالد کا کہنا تھا کہ ’’اب ایک بار پھر مسجد کو مرمت کی ضرورت ہے۔ مسجد کا وضو خانہ اور لائبریری کا کام رکا ہوا ہے۔ جس کیلئے کوشش کی جارہی ہے اور امام مسجد پیرانہ سالی کے باوجود لاہور محکمہ آثار قدیمہ کے دفاترکے چکر لگا رہے ہیں۔ جب تک ہم لوگوں میں دم خم ہے ہم اس ورثے کی حفاظت کریں گے‘‘۔
مولانا خالد نے ایک اور انکشاف کر کے حیران کر دیا کہ ’’کچھی میں ان کے آبائی قبرستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سب سے زیادہ حفاظ مدفون ہیں۔ اس کے علاوہ قبرستان سے متصل آگے گھنے جنگل کی جھاڑیوں میں ان لوگوں کی قبور بھی ہیں، جنہوں نے پیدل حج بیت اللہ ادا کیا تھا۔ یہ خاصا بڑا اور قدیم قبرستان ہے۔ مقامی لوگ اس قبرستان کو ’’ولیوں کا قبرستان‘‘ بھی کہتے ہیں۔ صدیوں پرانے اس قبرستان میں ہزاروں حفاظ، سیکڑوں اولیا، علمائے کرام اور مشائخ آسودہ خاک ہیں۔ لیکن حیران کن طور پر یہ قبرستان سادگی کی ایک انوکھی مثال لیے ہوئے ہے۔ کسی قبر پر کوئی گنبد نہیں ہے۔ نہ ہی حفاظ اور علمائے کرام کی قبور پختہ کی گئی ہیں۔ یہاںکوئی میلہ منعقد ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کا عرس منایا جاتا ہے۔ کسی نے ایسا کرنے کی کوشش بھی کی تو مشائخ کھچی نے اس سے منع کر دیا۔ پورے قبرستان میں صرف حافظ نورالدین مخدوم کی قبر کے اردگرد ایک مربع احاطہ سیمنٹ سے تعمیر کیا گیا ہے۔ وہ بھی جلدی میں بنایا گیا ہے، تاکہ منع کرنے والے روکنے نہ آجائیں۔
ان قبور کے حوالے سے بعض ایسے واقعات بھی منسوب ہیں، جنہیں عقل تسلیم نہیں کرتی۔ یہاں صرف ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے۔ مولانا خالد کا کہنا تھا کہ ’’جب ہمارے دادا جی حافظ میاں محمدکا ارتحال ہوا تو میرے والد اور موجودہ پیش امام پیر حبیب بخش درس و تدریس اور تبلیغ کیلئے گئے ہوئے تھے۔ والد صاحب چیچہ وطنی پہنچے تھے کہ وہاں اطلاع ملی۔ لیکن وہ حافظ میاں محمد کا آخری دیدار نہیں کر سکے۔ واپس آئے تو بہت اداس رہتے تھے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ تین ماہ بعد شدید بارشیں شروع ہوگئیں۔ حافظ صاحب کی قبر میں پانی بھرنا شروع ہوگیا اور اتنا پانی آیا کہ سرہانے سے نکلنا شروع ہوگیا۔ اس وقت مولانا نظام الدینؒ حیات تھے۔ لوگوں نے انہیں بتایا تو انہوں نے کہا کہ قبر کھولی جائے۔ کیونکہ اس میں پانی بھر گیا ہے، لہٰذا اس کا سد باب کیا جائے۔ ہمارے ہاں قبر درمیان سے کھود کر سائیڈ پر میت رکھنے کا انصرام کیا جاتا ہے۔ چنانچہ حافظ صاحب کا جسد بھی ایک سمت رکھا گیا تھا۔ جیسے ہی پتھر ہٹائے گئے۔ اس وقت پورے گائوں نے اور میرے والد صاحب نے دیکھا کہ آپ کا جسد مبارک بالکل تر و تازہ تھا اور اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔ اس وقت میرے والد مولانا پیر حبیب بخش نے اپنے والد کے چہرے کا دیدار کیا‘‘۔ اس قبرستان کے دو حصے ہیں۔ درمیان میں ایک مسجد بھی ہے۔ دونوں جانب حفاظ اور علمائے کرام کی قبور ہیں۔ ان میں خواتین حفاظ بھی شامل ہیں اور نوجوان حافظ قرآن بھی ہیں۔ انہی میں ایک قبر حافظ اللہ بخش کی ہے۔ جو رمضان المبارک میں مصلیٰ سناتے ہوئے خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔ قبرستان میں ایک سکون اور طراوت ہے۔
کھچی گائوں اگرچہ بہت پس ماندہ اور دور دراز علاقے میں واقع ہے۔ یہاں اس بات کا یقین کرنا بھی مشکل ہے کہ ایسی قدیم اور خوبصورت مسجد بھی واقع ہو سکتی ہے، جسے چار سو برس سے زائد کا عرصہ بیت گیاہے۔ اس وقت اس مسجد کی حالت ناگفتہ ہے اور خادمین مسجد اسے کسی طرح بحال کرنے کی تگ و تاز میں مصروف ہیں۔ مولانا پیر حبیب بخش کا کہنا ہے کہ ’’ہم کوشش کر رہے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز میں آواز ملائیے۔ شاید کسی کے کان پر جوں رینگ جائے اور یہ نادر ورثہ محفوظ ہوجائے‘‘۔
آواز اٹھا دی ہے۔ باقی اس کی حفاظت کا کام پروردگار عالم کا ہے کہ یہ اسی کا گھر ہے اور وہی اس کا محافظ بھی ہے۔
٭٭٭٭٭