نمائندہ امت
پی ٹی وی کے معاملات پر شروع ہونے والے تنازعے نے تحریک انصاف حکومت کی ساکھ کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ تنازعہ بظاہر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری اور ایم ڈی پی ٹی وی ارشد خان کے درمیان ہے۔ لیکن اصل جھگڑا فواد چوہدری اور نعیم الحق میں ہے۔ جسے تحریک انصاف کے اندر منتخب اور غیر منتخب افراد کی لڑائی سمجھا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق فواد چوہدری کسی صورت پاکستان ٹیلی ویژن کے ایم ڈی ارشد خان کو اس عہدے پر قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی سابق وزیر اطلاعات و نشریات، رکن قومی اسمبلی مریم اورنگزیب سے ملاقات کر کے ان کی بھی سیاسی و اخلاقی حمایت حاصل کرلی ہے۔ ذرائع کے بقول مریم اورنگزیب پی ٹی وی میں اپنے لگائے گئے افراد کی ملازمتیں بچانے کی غرض سے ارشد خان کو ایم ڈی کے عہدے سے ہٹانے کیلئے پی ٹی وی یونین اور فواد چوہدری کی حمایت کر رہی ہیں۔ معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ فواد چوہدری وزارت اطلاعات میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے۔ اگر وزیر اعظم عمران خان نے ایم ڈی پی ٹی وی ارشد خان کو عہدے پر برقرار رکھتے ہوئے فواد چوہدری کو اسی وزارت پر کام جاری رکھنے کا کہا تو زیادہ امکان یہی ہے کہ فواد چوہدری مستعفی ہونے کو ترجیح دیں گے۔ تاہم اگر وزیر اعظم نے فواد چوہدری کو ان کی پسند کی کوئی دوسری وزارت دی تو وہ اس کا چارج سنبھال لیں گے۔ ذرائع کے مطابق ایم ڈی پی ٹی وی ارشد خان کی عمر 64 سال ہے اور انہوں نے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے اپنی ماہانہ تنخواہ کا پیکیج 22 لاکھ روپے منطور کرایا ہے۔ دیگر مراعات شامل کر کے ان کا ماہانہ پیکیج 25 لاکھ روپے سے تجاوز کر جاتا ہے۔ جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں 60 سال سے زائد عمر کے شخص کو کنٹریکٹ پر سرکاری ملازمت نہیں دی جا سکتی۔ اسی طرح کا کیس عطاء الحق قاسمی کے بھی خلاف تھا۔ اب ارشد خان عدلیہ کے اس فیصلے کے خلاف کس طرح اس عہدے پر فائز رہیں گے۔ یہ بہت اہم سوال ہے۔ ماہرین کے مطابق ارشد خان کا اس عہدے پر برقرار رہنا بہت مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فواد چوہدری بھی کہہ چکے ہیں کہ ارشد خان جو مرضی کرلیں، وہ اس عہدے پر برقرار نہیں رہیں گے۔
ذرائع کے مطابق فواد چوہدری کو پی ٹی آئی کے منتخب ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ جبکہ ارشد خان، جو کارپوریٹ سیکٹر کا معتبر نام ہیں، ان کا عمران خان سے قریبی تعلق ہے اور یہی ان کی اس عہدے پر تعیناتی کی وجہ بھی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ارشد خان کا تعلق ضلع جہلم میں فواد چوہدری کے انتخابی حلقے سے ہے۔ فواد چوہدری نے ہی ارشد خان کی نامزدگی کا اعلان کیا تھا۔ لیکن جب ارشد خان نے پی ٹی وی میں تبدیلیوں کا آغاز کرتے ہوئے کام شروع کیا، تو دونوں کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے۔ ادارے کی سی بی اے یونین نے ایم ڈی ارشد خان کے خلاف کیمپ لگایا تو وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے اس کیمپ میں شرکت کر کے یونین کی بھرپور حمایت کی اور ایم ڈی کے فیصلوں کو ملازمین پر ظلم قرار دیا۔ تاہم جب نعیم الحق نے عمران خان کے دوست ارشد خان کی حمایت کی تو جہانگیر ترین اور سینیٹر فیصل جاوید کھل کر فواد چوہدری کی حمایت میں سامنے آگئے۔ جہانگیر ترین نے تو یہ تک کہہ دیا کہ وزیر اعظم منتخب ارکان کے ووٹ لے کر ہی اس عہدے پر فائز ہوتا ہے۔ جبکہ سینیٹر فیصل جاوید جو اطلاعات و نشریات کی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے رکن ہیں، انہوں نے بھی فواد حسین چوہدری کے موقف کو درست قرار دیتے ہوئے، ایم ڈی ارشد خان کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیا ہے۔ ادھر فواد چوہدری اور مریم اورنگزیب شدید سیاسی اختلافات کے باوجود ٹی وی ٹاک شوز میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ شائستہ انداز میں مخاطب رہے ہیں۔ فواد چوہدری، جو اپنے مخالفین پر طنز کے تیر برساتے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے، انہوں نے سابق وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب پر نہ کبھی کرپشن اور بدعنوانی کا الزام لگایا اور نہ ان کی تضحیک کرنے کی کوشش کی۔ وہ یہ تو کہتے رہے کہ دونوں سابق حکمران جماعتوں نے پی ٹی وی، اے پی پی اور ریڈیو پاکستان میں بلاوجہ اور میرٹ کے بغیر بھرتیاں کیں۔ وہ اس سلسلے میں خورشید شاہ کا نام بھی لیتے رہے۔ لیکن مریم اورنگزیب پر کبھی فواد چوہدری نے الزام تراشی نہیں کی۔ اب مریم اورنگزیب نے ان سے ملاقات کر کے انہیں اخلاقی و سیاسی حمایت کا یقین دلایا ہے۔ ذرائع کے بقول مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے دور میں جن افراد کو پی ٹی وی میں ملازمتیں دی گئیں، ان کے بارے میں پی ٹی آئی حکومت کا اصولی فیصلہ تھا کہ کسی کا کنٹریکٹ ختم نہیں کیا جائے گا۔ البتہ جس کے کنٹریکٹ کی مدت ختم ہو جائے گی، اسے توسیع نہیں دی جائے گی۔ لیکن ارشد خان فوری طور پر کنٹریکٹ منسوخ کرنا چاہتے ہیں۔ جس پر مریم اورنگزیب کو بھی تشویش ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کے قریبی ذرائع کے مطابق وہ عمران خان کا ہر فیصلہ قبول کرلیں گے، لیکن موجودہ عہدے پر برقرار رہتے ہوئے ارشد خان کو قبول نہیں کریں گے۔ یعنی دونوں میں سے ایک ضرور جائے گا۔ ذرائع کے بقول نعیم الحق کے علاوہ وزیر اعظم ہاؤس میں بیٹھے کئی اور غیر منتخب افراد بھی فواد چوہدری کے موجودہ عہدے پر برقرار رہنے کے مخالف ہیں۔ لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی فواد چوہدری کی طرح اپنی پارٹی پالیسیوں کا موثر انداز میں دفاع کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
٭٭٭٭٭