امت رپورٹ
پاک فوج کے ترجمان نے انتباہ کیا ہے کہ بھارت اب پاکستان کے جواب کا انتظار کرے۔ جس کے بعد سے پوری پاکستانی قوم اس جوابی کارروائی کی منتظر ہے۔ تاکہ سوشل میڈیا پر واویلا کرنے والے بھارتیوں کو اس سوال کا جواب بھی مل جائے۔ جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ در اندازی کرنے والا طیارہ بچ کر کیسے نکل گیا؟
میجر جنرل آصف غفور نے ایکشن کی وارننگ بھارتی فضائی خلاف ورزی پر دی ہے۔ جس کو لے کر بھارتی میڈیا یہ پروپیگنڈہ کر رہا ہے کہ اس کے طیاروں نے پاکستان میں بمباری کرکے جیش محمد کے کیمپ کو تباہ اور 350 افراد کو ہلاک کر دیا۔ پاک فوج کے ترجمان نے ان تمام دعوئوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے چیلنج دیا ہے کہ اگر بھارتی طیاروں نے کوئی ٹھکانہ تباہ اور لوگوں کو مارا ہے تو ملبہ اور لاشیں دکھائی جائیں۔ دوسری جانب خود بھارت میں بھی ان مضحکہ خیز دعوئوں کا مذاق اڑانے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ جبکہ پاکستان کی طرف سے جوابی کارروائی کے اعلان پر بھارت میں خوف بھی پایا جاتا ہے۔ سوئیڈن میں مقیم ایک بھارتی پروفیسر نے ٹوئٹر پر اس خوف کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’پاکستان میں دو منٹ کی فضائی در اندازی کرکے مودی نے بھارت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ جب کہ اس ایکشن کے ذریعے کسی کیمپ کو تباہ نہیں کیا جاسکا‘‘۔
پاکستان میں جیش محمد کا کیمپ تباہ کر کے 350 افراد کی ہلاکت سے متعلق بھارتی دعویٰ اگرچہ بے نقاب ہوچکا ہے۔ لیکن بالخصوص سوشل میڈیا پر یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ وعدے کے مطابق بھارتی فضائی دراندازی کا فوری جواب کیوں نہیں دیا گیا؟ اور کس حکمت عملی کے تحت اس سے گریز کیا گیا؟
سیکورٹی امور سے متعلق ذرائع کا کہنا ہے کہ ہمارا ایئر ڈیفنس سسٹم فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے کسی بھی طیارے کو مارگرانے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ ایئر ڈیفنس سسٹم کو موثر ترین بنانے میں اویکس طیاروں کا اہم رول ہے۔ جو پاکستان نے چین سے لئے ہیں۔ یہ وہی اویکس طیارے ہیں جنہیں کامرہ پر حملے کے دوران دہشت گردوں نے تباہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ ذرائع کے مطابق اویکس طیاروں کی شکل میں پاکستان کے پاس Extended Battlefield Intelligence کی صلاحیت موجود ہے۔ ایکسٹنڈڈ بیٹلفیلڈ انٹیلی جنس کا مطلب ہے کہ صرف مستقل سرحد یا کنٹرول لائن تک ہی نہیں بلکہ بارڈر کے آگے تقریباً 50 کلومیٹر کے فاصلے سے بھی جب کوئی طیارہ اڑتا ہے تو اس کی ڈائریکشن کی نشاندہی ہوجاتی ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کے پاس دوسرا آپشن یہ تھا کہ جب بھارت نے دو تین منٹ کی فضائی خلاف ورزی کی تو اسی وقت واپس بھاگنے والے طیارے کو راکٹ کے ذریعے گرایا جاسکتا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ کارگل معرکے کے دوران پاکستان نے دراندازی کرنے والے بھارتی طیارے کو گرانے کے بعد اس کے پائلٹ کو بھی گرفتار کرلیا تھا۔ اسی طرح 2008ء میں ممبئی حملوں کے بعد بھی بھارت نے اپنے طیارے پاکستان کی طرف بھیجے تھے۔ لیکن ان طیاروں کو دراندازی کے باوجود کچھ گرانے سے قبل ہی پاکستانی ایف سولہ طیاروں نے مار بھگایا تھا۔
1991ء میں کنٹرول لائن پر تعینات ایک سابق افسر نے بتایا کہ مقبوضہ کشمیر میں 89ء سے شروع ہونے والی آزادی کی جدوجہد اپنے عروج پر تھی۔ جس کے سبب سرحد کے دونوں طرف فوجیں لگ چکی تھیں اور جنگ کا سماں بنا ہوا تھا۔ پاکستان کے پاس انٹیلی جنس اطلاعات تھیں کہ بھارت کنٹرول لائن کے پاس قائم ایک یا دو پوسٹیں لینے کی کوشش کرے گا۔ لہٰذا وہاں تعینات پاکستانی اہلکاروں کو ہدایات تھیں کہ اگر بھارت اس نوعیت کا کوئی قدم اٹھاتا ہے تو جواب میں فوری طور پر ان کی پوسٹوں پر قبضہ کرلیا جائے۔ یعنی ہاتھ سے نکل جانے والی پوسٹوں کو چھوڑ کر اتنی ہی تعداد میں یا اس سے زیادہ بھارتی پوسٹیں کنٹرول میں لے لی جائیں۔ سابق افسر کے بقول اگر بھارت کی حالیہ فضائی دراندازی کے جواب میں پاکستان بھی اسی ٹائم فریم میں کسی اور مقام سے فضائی دراندازی کرکے دوچار بم گرادیتا تو بھارت کو جھوٹے پروپیگنڈے کا موقع نہ ملتا۔ یہ موقع ہاتھ سے نکل چکا۔ لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ بھارتی جارحیت کا جواب دینے کا حتمی فیصلہ کیا جاچکا ہے۔ سابق افسر کے مطابق پاکستان کے جوابی وار کے لئے قوم کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا اور اس جواب سے نہ صرف پاکستانی قوم کا مورال بلند ہوگا، بلکہ بھارتی پروپیگنڈہ بھی دم توڑجائے گا۔
سیکورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی جارحیت کاجواب دینا اس لئے بھی ضروری ہوگیا ہے کہ اگر ری ایکشن سے گریز کیا گیا تو پھر بھارتی جسارت بڑھ جائے گی اور بھارت اپنے تئیں یہ سوچے گا کہ وہ جب چاہے اس طرح کی جارحیت کر سکتا ہے۔ تازہ بھارتی مہم جوئی کے بعد یہ خدشہ بھی پیدا ہوگیا ہے کہ بھارت گرائونڈ کی سطح پر بھی اسی قسم کی شرارت کرے۔ کیونکہ گرائونڈ پر کنٹرول لائن کی دوسری طرف سے گولہ باری تو بھارت2014ء سے کر ہی رہا ہے۔ جھجھک ختم ہونے پر وہ فضائی خلاف ورزی کا سلسلہ بھی شروع کر سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق ان تمام عوامل کو مدنظر رکھ کر ہی جواب دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تاکہ بھارتی ممکنہ بڑھتے عزائم کو قبل از وقت روکا جاسکے۔
1971ء کی جنگ میں حصہ لینے والے ایک اور سابق افسر کے مطابق دراندازی کا جواب دینا اس لئے بھی ضروری ہے کہ کہیں اپنے مذموم عزائم کا دائرہ بڑھانے کے لئے بھارت نے دو تین منٹ کی فضائی خلاف ورزی ’’وارم اپ‘‘ ہونے کے لئے نہ کی ہو۔ سابق افسر کے بقول مشرقی پاکستان میں اگرچہ 1971ء کی جنگ دسمبر میں شروع ہوئی تھی۔ لیکن بھارت نے اس جنگ کا آغاز 21 نومبر کو ہی کردیا تھا۔ 21 نومبر کی رات بھارتی طیاروں نے 21 مقامات پر دراندازی کی تھی۔ یعنی مکمل جنگ کے لئے ایک طرح سے بھارت خود کو ’’وارم اپ‘‘ کر رہا تھا۔ اور پھر 3 دسمبر کو بھارت، دراندازی کے ان مقامات سے آگے بڑھا تھا۔ لہٰذا ابتدائی طور پر بھارتی عزائم کو روکنا بہت اہم ہے اور جوابی کارروائی کا اعلان کرکے اس حکمت عملی کو واضح بھی کردیا گیا ہے۔ بصورت دیگر اگر اس پر ہی قناعت کرلیا جاتا ہے کہ پاکستان نے بغیر نقصان پہنچائے بھارتی طیارے بھگادیئے تو اس کے نتیجے میں بھارتی حوصلے بڑھ سکتے تھے اور بھارت کی جانب سے یہ پیغام دیا جاسکتا تھا کہ وہ جس وقت چاہے اس نوعیت کی جارحیت کرسکتا ہے۔ یہ اپنے حربوں اور شاطرانہ چالوں کے ذریعے ٹمپریچر بڑھانے کا طریقہ ہوتا ہے۔ بھارت نے دراندازی کرکے درجہ حرارت بڑھا دیا ہے۔ سابق افسر نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ بھارت اس نوعیت کی دراندازی مغربی سرحد سے کرانے کی کوشش بھی کرسکتا ہے کیونکہ اوپر تلے دہشت گردی کے دو واقعات کرانے کے پیچھے گہری سازش کارفرما ہے۔ لہٰذا پاکستان کو اپنی دونوں سرحدوں کے حوالے سے الرٹ رہنے کی ضرورت ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ کیب مشن (Combat air patrol) جنگ شروع ہونے پر اختیار کیا جاتا ہے۔ جس کے تحت سارے طیارے تو فضا میں نہیں ہوتے۔ تاہم کچھ طیارے چوبیس گھنٹے Airborn (فضا) پر ہوتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں کومبیٹ ایئر پیٹرول لازمی ہوگیا ہے۔ ذرائع کے بقول بھارت کا اصل پلان ’’ٹچ اینڈ گو‘‘ والا تھا۔ تاہم ایک امکان یہ بھی ہے کہ شاید بھارت نے کوئی مقام منتخب کر رکھا ہو۔ لیکن گھبراہٹ اور جلدی میں بھارتی طیارہ ویرانے میں بم گراکر بھاگ نکلا۔
٭٭٭٭٭
Next Post