سرفروش

0

عباس ثاقب
منندر ککڑ کی باتیں سن کر میرا دل خوشی سے جھوم اٹھا۔ بلکہ مجھ پر لگ بھگ ہیجانی کیفیت طاری ہوگئی تھی۔ میں نے اپنے لہجے میں خوشی کی فراوانی چھپاتے ہوئے کہا۔ ’’آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں منندر جی۔ قابض فوجوں کو تگنی کا ناچ نچاکر اپنی سرزمین سے مار بھگانے کے لیے ہمیں مشین گن جیسے بھاری ہتھیاروں کی شدید ضرورت ہے۔ اگر آپ ان کے حصول میں ہماری مدد کر سکیں تو اس سے اچھی بات کوئی اور نہیں ہو سکتی۔ رقم کا انتظام کوئی مسئلہ نہیں۔ ہم اپنی جانیں بیچ کر بھی مطلوبہ رقم مہیا کریں گے‘‘۔
یہ کہہ کر میں نے سکھبیر کی طرف دیکھا۔ اس نے جدید ہتھیاروں کی خریداری کے انتظامات کا ذکر تو کیا تھا۔ لیکن تفصیلی معلومات مہیا کرنے سے کنی کترا گیا تھا۔ مجھے اس وقت بھی اس کے چہرے پر کوئی تاثرات نظر نہیں آئے۔ میں اس کے طرزِ عمل کو بخوبی سمجھ سکتا تھا۔ وہ خود کو شاید ایسی حساس معلومات آگے بڑھانے کا اہل نہیں گردانتا تھا اور چاہتا تھا کہ منندر ککڑ خود اگر مناسب سمجھے تو اس معاملے پر بات کرے۔
میں چاہتا تھا کہ منندر ککڑ اس موضوع پر مزید تفصیل سے بات کرے۔ لیکن میں نے براہ راست اس سے درخواست کرنے کے بجائے کہا۔ ’’منندر جی۔ ہم وقتاً فوقتاً گھات لگا کر ہندوستانی فوجی دستوں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے پاس اس وقت مناسب تعداد میں پکی رائفلوں اور شاٹ گنوں کے علاوہ سات آٹھ اسٹین گنیں بھی موجود ہیں۔ ہم ان چھوٹے ہتھیاروںکی مدد سے گوریلا کارروائیوں کے ذریعے انہیں اتنا جانی نقصان پہنچا چکے ہیں کہ اب وہ گھنے جنگلوں میں قدم رکھنے سے گھبراتے ہیں‘‘۔
مندر ککڑ نے تحسین بھرے لہجے میں کہا۔ ’’شاباش۔ ہمیں کشمیر سے ایسی خبریں ملتی رہتی ہیں۔ تم لوگوں کی جی داری پر کوئی شک نہیں کیا جا سکتا‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’بہت شکریہ جناب۔ بس اب جلد از جلد ہتھیار بنانے اور فروخت کرنے والوں سے ہمارے معاملات طے کروادیں۔ اس کے بدلے میں ہم بھی آپ کے مشن میں ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں‘‘۔
منندر ککڑ نے تائید میں سر ہلایا۔ ’’سکھبیر نے مجھے سب کچھ بتا دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کشمیریوں اور خالصوں کا آپس میں تعاون دونوں کے لیے وقت کی اہم ضرورت ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’تو پھر اس معاملے کو جلد از جلد باضابطہ شکل دینے کا بندوبست کریں۔ میں اپنے ساتھیوں کی طرف سے مکمل اختیار دے کر یہاں بھیجا گیا ہوں۔ سکھبیر نے بتایا ہے کہ آپ لوگوں کو اپنے جوانوں کے لیے محفوظ ٹھکانے تلاش کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ مسئلہ ہم حل کر سکتے ہیں‘‘۔
منندر ککڑ نے کہا۔ ’’یہ سچ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے پاس کسی بھی بڑی کارروائی کے بعد چھپنے کے لیے محفوظ ٹھکانوں کی کمی ہے۔ لے دے کر ہم اپنے گردواروں میں پناہ لیتے ہیں۔ لیکن خفیہ پولیس والے ہمارے اکثر گردواروں کی نگرانی کرتے ہیں۔ جبکہ مخبری کا بھی شدید خطرہ ہوتا ہے۔ میں آج ہی رات اپنے ساتھیوں کی منڈلی میں یہ معاملہ رکھوں گا۔ واہگرو نے چاہا تو منظوری مل جائے گی‘‘۔
میں نے اس کی بات پر اطمینان کے اظہار کے لیے سر ہلایا۔ اس نے میری روانگی کے ارادے کو غیر معینہ مدت کے لیے کنارے لگا دیا تھا۔ تاہم مجھے بھلا اس کی کیا پروا ہو سکتی تھی؟ جب تک ظہیر کی کشتواڑ سے واپسی نہ ہو جاتی۔ میرا منڈی گوبند گڑھ جانا کچھ اتنا ضروری نہیں تھا۔ میرے پاس حتمی اطلاعات نہیں تھیں۔ لیکن بشمبر پور کے پاس پولیس ناکے کی بدولت یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ مٹھو سنگھ جیسے طاقت ور شخص کو دن دیہاڑے، خود اس کے ٹھکانے پر اتنی دیدہ دلیری سے قتل کیے جانے پر چندی گڑھ تو کیا، دلّی تک کہرام مچ گیا ہوگا۔ اور ذمہ داروں کو پولیس والے پاگل کتوں کی طرح ڈھونڈ رہے ہوں گے۔ ایسے میں ہرمندر صاحب میرے لیے زیادہ محفوظ ٹھکانے کی حیثیت رکھتا تھا۔
منندر ککڑ خاصی دیر تک مجھ سے تبادلہ خیال کرتا رہا۔ سکھبیر بھی ہماری گفتگو میں شامل رہا۔ اس کے پوچھنے پر میں نے منندرکو بٹھنڈا اور دلّی میں ظہیر کے ساتھ اپنی مختلف سرگرمیوں کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ جبکہ ظہیر سے حاصل کردہ معلومات کی روشنی میں کشتواڑ میں ہندوستانی فوج کے خلاف گوریلا کارروائیاں بھی حتی الامکان وضاحت سے بیان کر دیں۔
منندر ککڑ نے میری بیان کردہ تفصیلات پر شاباش دی اور کہا۔ ’’تم لوگوں نے اپنی قوم کے لیے جوکچھ کیا، وہ تو تمہارا فرض تھا ہی۔ لیکن مٹھو سنگھ جیسے خطرناک سانپ کو ٹھکانے لگاکر تم نے ہماری قوم کا سچا دوست ہونے کا ثبوت دے دیا ہے۔ اس نے ہماری جدوجہد کو بہت بڑے نقصانات پہنچائے ہیں۔ شاید تمہیں پتا نہ ہو۔ یہ سور، سکھ ماں باپ کی اولاد ہونے کے باوجود نہرو سرکار سے بار بار ڈیمانڈ کرتا تھا کہ خالصتان کے لیے لڑنے والے ہمارے شیروں کا خاتمہ کرنے کے لیے ہرمندر صاحب پر فوراً چھاپا مارا جائے‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More