نمائندہ امت
بھارتی جارحیت نے پاکستان کی سیاسی قیادت کو متحد کردیا ہے۔ ملک کی سلامتی اور قومی خود مختاری کے ایشو پر تمام سیاسی جماعتوں میں مکمل اتفاق اور ہم آہنگی موجود ہے، جس کا مظاہرہ گزشتہ دو روز سے دیکھا جارہا ہے۔ اپوزیشن کی دو بڑی پارٹیوں مسلم لیگ ’’ن‘‘ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کی حکومت کے ساتھ کشیدگی اور لفظی گولہ باری پس منظر میں چلی گئی ہے۔ میاں شہباز شریف اور آصف علی زرداری نے بھارت کے ساتھ حالیہ محاذ آرائی اور انتہائی کشیدہ ماحول میں حکومت اور فوج کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کردیا ہے۔ جبکہ وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کی تجویز پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ تجویز پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے پیش کی تھی۔ وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان یہ تجویز لے کر عمران خان کے پاس گئے، جو ایک اہم اجلاس میں شریک تھے۔ اس اجلاس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر دفاع پرویز خٹک بھی موجود تھے۔ انہوں نے باہمی مشاورت سے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کے مطالبے کو تسلیم کرلیا۔ ذرائع کے مطابق اپوزیشن جماعتوں کی قیادت نے اس نازک موقع پر جس ذمہ داری اور شعور کا مظاہرہ کیا ہے، اس پر ہمیشہ ضد اور انا کی سیاست کرنے والے عمران خان کو کافی حیرت ہوئی اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ قومی سلامتی کے اس ایشو پر انہیں بھی اسی طرح کا مثبت رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم عمران خان اپوزیشن قیادت کے اس مثبت رویے سے خاصے متاثر ہوئے ہیں اور انہوں نے گزشتہ دو روز سے اپنے ساتھ مختلف اجلاسوں میں شریک سینئر وزرا سے اس کا اظہار بھی کیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر دفاع پرویز خٹک جو عمران خان کی کابینہ میں کافی تجربہ کار اور زیرک سیاستدان کے طور پر پہچانے جاتے ہیں، اپوزیشن کے رہنما بھی ان کے مثبت رویے اور تجاویز کو ہمیشہ اہمیت دیتے ہیں۔ ذرائع کے بقول عمران خان کے انتہائی قریبی کابینہ کے کئی وزرا وزیراعظم کے اشارے پر ہی اپوزیشن قیادت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، لیکن ان کے بالکل برعکس اپوزیشن کے بارے میں شاہ محمود قریشی اور پرویز خٹک کا رویہ اور بیانات ہمیشہ مصالحانہ اور مفاہمت پر مبنی ہوتے ہیں، جس کی تصدیق اسمبلی فلور پر شہباز شریف، ایاز صادق اور خورشید شاہ بھی کر چکے ہیں۔
ذرائع کے مطابق وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان جب اپوزیشن کی پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کی تجویز لے کر عمران خان کے پاس گئے تو اس اجلاس میں شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک اور اسد عمر بھی موجود تھے۔ ان وزرا نے عمران خان کو بلا تامل اس تجویز پر عمل کرنے کا مشورہ دیا اور موقف اختیار کیا کہ قومی سلامتی کے اس نازک موڑ پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہم آہنگی کی اشد ضرورت ہے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کی تجویز ہمیں دینی چاہئے تھی۔ لیکن اگر اپوزیشن نے یہ تجویز دی ہے تو یہ انتہائی مثبت اقدام ہے، جسے فوراً قبول کرنے کا اعلان کرنا چاہئے۔ اس وزیر اعظم عمران خان نے بھی مثبت رائے کا اظہار کیا۔
ذرائع نے بتایا کہ نیشنل کمانڈر اتھارٹی کے اجلاس میں ہونے والی بریفنگ اور انتہائی اہم فیصلوں کے بعد عمران خان نے موجودہ صورتحال پر تمام سیاسی قیادت کو بھی اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ادھر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے بیان دیا کہ اگر بھارت نے جنگ چھیڑی تو دہلی میں سبز ہلالی پرچم لہرائیں گے۔ جبکہ آصف علی زرداری نے کہا کہ پوری قوم فوج کی پشت پر کھڑی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن اس معاملے میں ایک ہیں۔ اے این پی کے رہنما امیر حیدر ہوتی نے کہا کہ کوئی پی ٹی آئی، پی پی پی، ن لیگ، اے این پی یا کوئی دوسری جماعت نہیں ہے۔ ہم سب پاکستانی ہیں اور پاکستان کی سا لمیت اور دفاع کے لئے ایک ہیں۔ دیگر قومی سیاسی رہنماؤں نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے، جس کو وزیر اعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کے سینئر سیاسی رہنما انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح عمران خان نے قومی اداروں خصوصاً مسلح افواج کی قیادت سے انتہائی اہم اور سنجیدہ معاملات پر مشاورت کی ہے، اسی طرح وہ سیاسی قیادت سے بھی قومی سا لمیت کے اس ایشو پر بات کریں گے۔ ذرائع کے مطابق آج جمعرات کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم عمران خان، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور مولانا اسد محمود سے بھی ڈائیلاگ کریں گے۔ گزشتہ روز بھی سینئر وفاقی وزرا نے پارلیمنٹ میں موجود حزب اختلاف کے اہم رہنماؤں سے ملاقات کی اور انہیں موجودہ کشیدہ صورتحال کے حوالے سے کئے جانے والے اہم فیصلوں پر اعتماد میں لیا۔ ذرائع کے مطابق حزب اختلاف کی قیادت نے حکومت اور فوجی قیادت کو ان کے فیصلوں پر مکمل حمایت اور تعاون کا یقین دلایا ہے۔ متعبر ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ قومی اداروں اور بعض جماعتوں کے درمیان اختلافات کے علاوہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بھی سنجیدہ نوعیت کے اختلافات ہیں، لیکن پاکستان کی سلامتی اور تحفظ کے معاملے پر سب ایک ہیں۔
٭٭٭٭٭