عرب امارات نے مشاورت کے بغیر بھارت کو شرکت کی دعوت دی

0

مرزا عبدالقدوس
متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زید نے او آئی سی کے ارکان ممالک کو اعتماد میں لئے بغیر بھارت کو اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی۔ جس کی وجہ سے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس کانفرنس کے ابتدائی سیشن جس میں سشما سوراج نے شریک ہونا تھا، شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یو اے ای نے او آئی سی اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ کو دعوت نامہ اپنے اقتصادی معاشی امور کو مدنظر رکھتے ہوئے بھجوایا۔ لیکن جب پاکستان کے وزیر خارجہ نے احتجاج کیا تو موقف اختیار کیا گیا کہ بھارت کو دعوت نامہ پلوامہ واقعے سے پہلے بھجوایا گیا تھا۔ اب اگر یہ دعوت واپس لی گئی تو یہ غیر سفارتی عمل ہوگا۔
وزارت خارجہ کے ذرائع کے مطابق متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زید نے او آئی سی کے جنرل سیکرٹری، تنظیم میں شامل اہم ممالک، یہاں تک کہ پاکستان کو بھی اعتماد میں لئے بغیر بھارتی وزیر خارجہ کو اہم اسلامی کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ بھجوایا۔ پاکستان کو اس کی اطلاع بھاری دفتر خارجہ کے ترجمان کے بیان سے ملی، جس میں انہوں نے بھارتی وزیر خارجہ کی اس کانفرنس میں شریک ہونے کی اطلاع دی تھی۔ اس وقت پلواما کا واقعہ ہو چکا تھا، اور پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کا آغاز بھی ہوچکا تھا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے یو اے ای کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زید سے رابطہ کر کے اس دعوت نامے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ لیکن انہیں کوئی واضح جواب نہیں ملا۔ چند دن بعد جب پاک بھارت تعلقات مزید کشیدہ ہوگئے تو پاکستان کے وزیر خارجہ نے نہ صرف شیخ عبداللہ بن زید بلکہ سیکریٹری جنرل او آئی سی، ترکی اور سعودی عرب کے متعلقہ حکام سے بھی رابطے کئے۔ اس پر متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ نے موقف اختیار کیا کہ جب بھارت کو دعوت دی گئی تھی، اس وقت آپ دونوں ممالک کے تعلقات معمول پر تھے اور موجودہ کشیدگی نہیں تھی۔ لیکن اب دعوت دینے کے بعد اسے واپس لینا مناسب نہیں ہوگا۔ گویا انہوں نے پاکستان کا موقف ماننے سے انکار کر دیا۔ یہی سبب ہے کہ شاہ محمود قریشی نے او آئی سی اجلاس کے اس سیشن میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ کیا، جس میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج موجود ہوں گی۔ معتبر ذرائع کے مطابق یو اے ای کے وزیر خارجہ اس موقع پر پاک بھارت وزائے خارجہ کی ملاقات کے بھی متمنی ہیں اور اس کے لئے کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم شیخ عبداللہ بن زید کی کامیابی کا انحصار بھارت کے رویے پر ہوگا۔ ذرائع نے بتایا کہ شاہ محمود قریشی نے یو اے ای کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ کو، جو اس کانفرنس کی میزبانی کر رہے ہیں یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ اگر وہ بھارت کا دعوت نامہ منسوخ کرنا مناسب نہیں سمجھتے تو فی الحال کانفرنس ہی منسوخ کر دیں اور پاکستان کے عوام کے جذبات اور کشمیری عوام پر جو مظالم ہو رہے ہیں ان کو بھی مدنظر رکھیں۔ لیکن یو اے ای نے جو بھارت میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہی ہے، اس کیلئے تیار نہ ہوئی۔ واضح رہے کہ ممتاز کشمیری رہنما سید علی گیلانی نے بھی او آئی سی کے وزرائے خارجہ اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ کی شرکت کو کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی قرار دیا ہے۔ جبکہ بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے اسلامی وزرائے خارجہ کانفرنس میں بھارتی وزیر خارجہ کی پہلی دفعہ شرکت کو اعزاز قرار دیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اس کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ بادنخواستہ کیا ہے۔ اگر وہ اس کانفرس کا مکمل بائیکاٹ کر دیتا تو اسے سیاسی و سفارتی ہی نہیں، معاشی میدان میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا تھا۔ سیاسی و سفارتی ماہرین نے بھی پاکستانی حکومت کے اس فیصلے کی تائید کی ہے۔ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان او آئی سی کا بنیادی اور بانی ممبر ہے۔ دنیا بھر میں تاثر یہی ہے کہ یہ پاکستان کی اپنی تنظیم ہے۔ لہذا اگر پاکستان اس کانفرنس کا بائیکاٹ کرتا تو دنیا میںکوئی اچھا تاثر نہیں جاتا۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’یو اے ای نے اگر بھارت کو دعوت دی ہے تو اس کی وجہ بھی ہے، کہ اب دنیا میں سیاسی نہیں معاشی معاملات بہت اہم ہوگئے ہیں۔ کشمیریوں پر جو مظالم ہو رہے ہیں یا بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ جو مظالم ہو رہے ہیں، اس کو نظر انداز کر کے اس کانفرنس میں بھارتی وزیر خارجہ کو بلانا اپنی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کو تحفظ دینا اور ایک بہت بڑی منڈی کو حاصل کرنا ہے۔ سعودی عرب بھی انڈیا میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ معاشی معاملات اب سیاسی معاملات پر حاوی ہو رہے ہیں۔ ہماری حکومت نے کانفرنس کا بائیکاٹ نہ کر کے اچھا فیصلہ کیا ہے۔ اور یہ فیصلہ بھی بہت اچھا ہے کہ جس سیشن میں بھارتی وزیر خارجہ ہوں گی، اس میں ہمارے وزیر خارجہ شریک نہیں ہوں گے‘‘۔ سردار آصف احمد علی نے مزید کہا کہ ’’یو اے ای حکومت کو بھی موجودہ حالات میں بھارتی وزیر خارجہ کی اس کانفرنس میں شرکت پر شرمندگی ہورہی ہوگی۔ لیکن اگر ہم اس کانفرنس کا بائیکاٹ کر دیتے تو یہ بھی نامناسب تھا۔ اب وقت اور حالات بدل گئے ہیں۔ آپ کو سب کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔ اجلاس میں شرکت کرکے قریبی دوست ممالک کو ساتھ لے کر آئندہ کے لئے ایسا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہئے کہ دنیا کا یہ احساس کہ او آئی سی پاکستان کی اپنی تنظیم ہے، عملاً سو فیصد ایسا نظر بھی آئے۔ میرے خیال میں بھارت کو او آئی سی میں مبصر کا درجہ دینے کی اگر کسی کی خواہش تھی تو بھی وہ کامیاب نہیں ہوگی‘‘۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More