ڈاکٹر عاصم سندھ کے امتحانی بورڈ کے پیچھے پڑگئے

0

ڈاکٹر عاصم نے سندھ کے امتحانی بورڈز کو ہائی جیک کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔ وزیر اعلیٰ سندھ کے نام لکھے گئے خط میں ڈاکٹر عاصم نے تمام بورڈز کو کالعدم قرار دے انہیں کیمپس کا درجہ دینے کی تجویز دی ہے۔ ماہرین تعلیم نے بورڈز کے اوپر سندھ ایجوکیشن بورڈ ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کو تعلیم دشمن قرار دیا ہے۔ اتھارٹی کے قیام کے بعد خدشہ ہے کہ بورڈز کی خود مختاری ختم ہونے کے علاوہ نقل اور دیگر دھندوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو جائے گا۔ سندھ بھر کے بورڈز کے ملازمین نے گزشتہ 20 روز سے احتجاج شروع کر رکھا ہے۔پیپلز پارٹی کے نیب زدہ رہنما ڈاکٹر عاصم نے ضیاالدین یونیورسٹی بورڈ کے قیام کے بعد تعلیم دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے سندھ بھر کے امتحانی بورڈز کی خود مختاری کو ختم کرکے اپنے منظور نظر افسران کو نوازنے کی تیاری کرلی ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین نے 24 جنوری کو وزیر اعلی سندھ کے نام ایک مکتوب لکھ کر موجودہ بورڈز کی افادیت کو کمزور بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی۔ ڈاکٹر عاصم حسین کے مطابق بورڈز میں ریٹائرڈ افسران کو 3 سال کیلئے چیئرمین بنایا جاتا ہے اور گزشتہ 4 برس سے بورڈز میں سیکرٹری اور ناظمین امتحانات بھی قائم مقام تعینات ہیں جبکہ ان بورڈز کے اوپر ایک اتھارٹی بنانے کی ضرورت ہے، جس کے بعد باقاعدہ ایک سمری منظوری کیلئے تیاری کی گئی ہے۔
سندھ ایجوکیشنل بورڈ آرڈنینس اور ایکٹ کے خاتمے کی سفارش کرتے ہوئے حکومت سندھ کی جانب سے سندھ ایجوکیشن بورڈ ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کی تجویز دی گئی ہے۔ سندھ کے تمام تعلیمی بورڈز کالعدم قرار دیکر (کیمپس) کا درجہ پائیں گے۔ یہاں چیئرمین تعلیمی بورڈز کا عہدہ تحلیل کرکے انہیں کیمپس ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کا درجہ دیا جائے گا، جو اتھارٹی کی ایگزیکٹیو کونسل کو جواب دہ اور امتحانات کے انتظام و انصراف سے متعلق اتھارٹی کی ہدایات پر عمل پیرا کروانے کا ذمہ دار ہوگا۔ اس سلسلے میں موجودہ تعلیمی بورڈ آف انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کراچی، بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کراچی، بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن (حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ، میرپور خاص) اور سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کراچی میں بتدریج بڑھتی ہوئی عدم شفافیت کی شکایات کا خاتمہ کرنے میں مدد ملنے کا دعوی کیا گیا ہے۔
سندھ ایجوکیشن بورڈ ریگولیٹری اتھارٹی (سیبرا) ایکٹ 2019ء کا دائرہ کار مکمل سندھ میں ہوگا اور اسکا نفاذ یکدم کیا جائیگا۔ اس اتھارٹی کا صدر دفتر کراچی میں ہوگا۔ انتظامی معاملات کیلئے اتھارٹی مکمل اختیار رکھے گی، جبکہ یہ اختیار عمل درآمد کروانے کیلئے ایگزیکٹو کونسل تشکیل دی جائے گی۔ ایگزیکٹیو کونسل کی ذمہ داریوں میں شامل ہوگا کہ صوبے میں تعلیم کی ترویج و ترقی کیلئے اقدامات کرے اور شفاف طریقے سے امتحانات کا انعقاد ممکن بنائے۔ اس سلسلے میں حکومت بھی اتھارٹی کو وقتاً فوقتاً احکامات صادر کرتی رہے گی۔ کسی بھی پالیسی کے نفاذ سے متعلق ابہام پیدا ہونے کی صورت میں حکومت کا فیصلہ آخری تصور ہوگا۔ اتھارٹی کا چیئرمین (وزیر اعلیٰ)، صوبائی وزیر تعلیم (سینئر نائب چیئرمین) اور نائب چیئرمین (چیئرمین سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن) پر مشتمل ہوگا۔ اس کے علاوہ چیئرمین سندھ ایچ ای سی کی صوابدید پر تعلیم کے شعبے میں نجی سیکٹر سے تین ممتاز شخصیات شامل کی جائیں گی۔ اسپیکر سندھ اسمبلی کی صوابدید ایک صوبائی رکن سندھ اسمبلی، سندھ حکومت سے سیکریٹری اسکول ایجوکیشن، سیکریٹری خزانہ اور قانون بھی اتھارٹی کا حصہ ہوں گے۔ اتھارٹی اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ایگزیکٹو کونسل کا قیام عمل میں لائے گی۔ اس کونسل کا چیئرمین صوبائی وزیر تعلیم کو مقرر کیا جائے گا۔ صوبائی وزیر تعلیم کی صوابدید پر ایک آفیشل رکن ان کی غیر موجودگی میں کونسل کے چیئرمین کا دفتر سنبھالنے کا مجاز ہوگا۔ کسی نان آفیشل رکن کی نامزدگی بطور چیئرمین کونسل ہونے کی صورت میں یہ جزوی مدت تک عہدہ سنبھالنے کا مجاز ہوگا اور کسی بھی وقت عہدہ سے مستعفی ہوسکے گا۔ چیئرمین کونسل بھی شراکت میں آفیشنل رکن کو نامزد کرسکے گا۔ ایگزیکٹو کونسل کے قیام کا مقصد اتھارٹی کے فیصلوں اور پالیسیوں پر عمل درآمد کروانا اور اتھارٹی کے فیصلوں پر نظر ثانی کرنا ہوگا۔ کونسل کے ممبران میں چیئرپرسن (صوبائی وزیر تعلیم)، چیئرمین ایچ ای سی کی جانب سے تین ماہرین تعلیم کی نامزدگی ہوگی۔ کالعدم قرار دیئے گئے تعلیمی بورڈز کے تمام ایگزیکٹو ڈائریکٹرز، اسپیکر سندھ اسمبلی کی جانب سے ایک صوبائی رکن سندھ اسمبلی، سندھ حکومت سے سیکریٹری اسکول ایجوکیشن، سیکریٹری کالج ایجوکیشن، سیکریٹری سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن، سیکریٹری بورڈ اور یونیورسٹیز، سیکریٹری قانون اس کونسل کا حصہ ہوں گے۔
چیئرمین اتھارٹی ان فرائض پر عمل درآمد کریں گے جس کا سیبرا ایکٹ کے تحت احاطہ کیا گیا ہے۔ چیئرمین اتھارٹی کے پاس اختیار ہوگا کہ وہ کونسل کا اجلاس جب چاہیں بلائیں اور اتھارٹی کے ممبران کی میٹنگ بھی بلواسکیں گے۔ چیئرمین اتھارٹی اپنے اختیارات منیجنگ ڈائریکٹر کو تفویض کرنے کا بھی حق رکھے گا۔ اتھارٹی کی جانب سے منیجنگ ڈائریکٹر کی اسامی کیلئے کسی ایسے شخص کو موزوں قرار دیا جائے گا جس کیلئے میرٹ کا معیار اتھارٹی طے کرے گی۔ منیجنگ ڈائریکٹر چیف ایگزیکٹو اور سیکریٹری ایگزیکٹو کونسل اتھارٹی کا عہدہ بھی رکھے گا اور اتھارٹی کی جانب سے تفویض کردہ تمام اختیارات استعمال کرنے کا اہل ہوگا۔ اتھارٹی کو یہ حق حاصل ہوگا کہ کسی نااہلی اور فرائض میں کوتاہی برتنے کی صورت میں منیجنگ ڈائریکٹر کو عہدے سے برطرف کرسکے۔ منجنگ ڈائیریکٹر کی ذمہ داریوں میں شامل ہوگا کہ ایگزیکٹو کونسل کی مجموعی کارکردگی کا جائزہ لے تاکہ اتھارٹی اور کونسل کے فیصلوں پر عملدرآمد ممکن ہو۔ اس کے علاوہ پلاننگ اور ترتیب سے امتحانات کا انعقاد ممکن بنانا ہوگا جس سے شفاف طریقے سے امتحانات کا انعقاد ممکن ہوسکے۔ جبکہ مالیاتی امور پر اتھارٹی، کونسل، کالعدم بورڈز کے تمام کیمپس اور کونسل کے مجموعی انتظامی کنٹرول پر نظر ثانی کرے گا۔ کالعدم بورڈز کے تمام کیمپس میں ترقیوں اور بھرتیوں کے مراحل کا جائزہ لینا بھی ایم ڈی کی ذمہ داریوں میں شامل ہوگا۔ نصابی کمیٹی سے رابطے برقرار رکھتے ہوئے اس کے فیصلوں کو تمام سطح کے تعلیمی اداروں میں عملدرآمد کروانا بھی ایم ڈی کی ذمہ داری ہوگا۔ ایم ڈی کا دفتر ایگزیکٹیو کونسل کو جواب دہ ہوگا۔ اتھارٹی اپنے فیصلوں میں بہتری کیلئے مشیروں اور افسران کی رائے لینے کی اہل ہوگی۔ یہ افسران و مشیران پیشہ ورانہ اور تکنیکی امور کے ساتھ امور وزارت اور سیکریٹریل استعداد اور قابلیت کے حامل ہوں گے۔ کالعدم قرار دیئے گئے تعلیمی بورڈز کے ایگزیکٹیو ڈائیریکٹرز کی چیئرمین کی جگہ پر بھرتیاں اتھارٹی کی جانب سے کی جائیں گی۔ اتھارٹی کے تمام ملازمین، افسران و مشیران ڈسپلن کے پابند ہوں گے، جو معیار اتھارٹی کی جانب سے طے کیا جائے گا۔ اتھارٹی کی جانب سے مزید چند کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ ان کمیٹیوں کا جائزہ ایگزیکٹیو کونسل کی جانب سے لیا جائے گا۔ ان کمیٹیوں میں نصابی کمیٹی، فنانس کمیٹی، ترقیوں اور بھرتیوں کیلئے کمیٹی، امتحانی کمیٹی شامل ہوں گی۔ نصابی کمیٹی مختلف مضامین میں ماہرین پر مشتمل ہوگی۔
اس ایگزیکٹو کمیٹی کے اغراض و مقاصد میں شامل ہوگا کہ موجودہ نصاب کا جائزہ لے کر سفارشات مرتب کرے جس کی بدولت غیرملکی امتحانی بورڈز کے معیار کے مطابق نصاب کو ترتیب دیا جائے۔ نصاب کو موجودہ مارکیٹ ضروریات کے تحت جدت دینا بھی نصابی کمیٹی کی ایگزیکٹو کمیٹی کی ذمہ داری ہوگا۔ اس کمیٹی کی سفارشات حکومت کو بھیجی جائیں گی، تاکہ انہیں تعلیمی اداروں میں نافذ کیا جاسکے۔ کمیٹی ایگزیکٹو کونسل کو سالانہ بنیادوں پر رپورٹ کرے گی۔ فنانس کمیٹی کھاتوں کی آڈٹ شدہ تفصیلات اتھارٹی میں پیش کرے گی۔ تمام اسٹرکچر کیلئے ایک ہی بجٹ تیار کیا جائے گا، جس میں اتھارٹی، ایگزیکٹیو کونسل اور کالعدم بورڈز کے کیمپس شامل ہیں۔
ترقی و تقرریوں (اپائنمنٹ و پروموشن) کی کمیٹی ایگزیکٹیو کونسل اراکین پر مشتمل ہوگی۔کالعدم بورڈ کے تمام کیمپس میں یہ کام اس طور انجام دیا جائے گا کہ ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کی تقرری اتھارٹی کی جانب سے بذریعہ کونسل ہوگی جبکہ باقی پوزیشنز اپائنمنٹ کمیٹی کی سفارش پر بھری جائیں گی جس کیلئے کونسل کی منظوری درکار ہوگی۔ کیمپس میں موجودہ ملازمین کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں ترقیوں اور براہ راست بھرتیوں میں توازن قائم رکھا جائے گا۔ امتحانات کے انعقاد کیلئے کمیٹی ایگزیکٹو کونسل کی منظوری سے تشکیل پائے گی، جس میں تعلیمی بورڈز کے معاملات پر ماہرین شامل ہوں گے۔ کنٹرولر امتحانات کی بھرتی ایگزیکٹو کونسل کی سفارش پر ہوگی، جبکہ امتحانات کے حتمی مراحل تک کے تمام معاملات کی نگرانی (تمام کیمپس میں) ڈپٹی کنٹرولر کی مدد اور اعانت سے کی جائیگی۔ اتھارٹی کے قیام کی سب سے اولین وجہ ان تمام شکایات کا خاتمہ ہے جو امتحانات کے غیر شفاف انعقاد سے متعلق کی جارہی ہیں۔
اس سلسلے میں اتھارٹی موجودہ تعلیمی بورڈز اور درج بالا کالعدم بورڈز کی تمام کارکردگی کا جائزہ لے گی۔ تمام کالعدم قرار دیئے گئے بورڈز کیلئے یکساں معیاری پالیسی کا اطلاق ممکن بنایا جائے گا۔ اتھارٹی بذریعہ ایگزیکٹو کونسل ایک اعلیٰ امتحانی سیل قائم کرے گی، جس میں ایک کنٹرول آف ایگزامنیشن ہوگا۔ تاہم کالعدم قرار دیئے گئے بورڈز کا ایک ایک ڈپٹی کنٹرول مقرر کیا جائے گا، جس کی اہم ذمہ داری ہوگی کہ امتحانات کا انعقاد اتھارٹی کے مرتب کردہ اصولوں پر ممکن بنائے۔
اتھارٹی کی ری اسٹرکچرنگ کے سلسلے میں تمام موجودہ تعلیمی بورڈز جس موجودہ قوانین کے تحت قائم کررہے ہیں، انہیں کالعدم قرار دیا جائے گا۔ ان کا درجہ خودمختار اداروں کے طور پر ختم کرکے اتھارٹی کے ماتحت اداروں کے طور پر مسودے میں لیا جائے گا۔ تعلیمی بورڈز کے بورڈ آف گورنرز تحلیل ہوجائیں گے۔ چیئرمین تعلیمی بورڈز کا عہدہ کیمپس ایگزیکٹو ڈائیریکٹر کے مساوی ہوگا، جو ایگزیکٹو کونسل کو جواب دہ ہوگا۔ اس طرح ہر کیمپس (سابقہ تعلیمی بورڈ) کونسل کے ذریعے اتھارٹی کے ماتحت کام کرے گا۔ اتھارٹی اور کونسل کی مختلف نشستوں/ افسران/ دفاتر/ عہدوں کیلئے کراچی میں موزوں جگہوں پر آفس قائم کئے جائیں گے۔
ادھر مذکورہ مسودہ کیلئے اسمبلی میں سمری بھجی جائے گی جس کے بعد صوبائی کابینہ سے اس کی منظوری لی جائے، اسے گورنر سے منظور کرانے کے بعد وزیر اعلی نافذ کردیں گے۔ تاہم اس سے بچوں کو پاس کرانا، نقل کرانا، پرچوں کو قبل از وقت معلوم کرانا اور بورڈز کی اتھارٹی کو ختم کرنے سمیت دیگر کمزوریاں جنم لیں گی اور سب سے بڑھ کر کہ بورڈزز میں سیاسی اثرورسوخ بڑھ جائے گا۔ اس حوالے سے سندھ بھر کے بورڈز کے ملازمین کی جانب سے گزشتہ 20 روز سے اپنے اپنے بورڈز میں مسلسل احتجاج کیا جارہا ہے۔ گزشتہ روز کراچی پریس کلب میں ملازمین کے نمائندوں جن میں اعجاز علی کاکا حیدرآباد بورڈ، شکیل احمد کراچی انٹر بورڈ، عبدالوہاب لاکھو میٹرک بورڈ کراچی، آغا سعید ٹیکنیکل بورڈ، غلام مصطفی پیرزادہ سکھر بورڈ، محمد علی ڈیپر لاڑکانہ بورڈ نے مشترکہ پریس کانفرس کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ سندھ حکومت اور ڈاکٹر عاصم کے اس اقدام کی ہر فورم پر مخالفت کریں گے اور قانونی چارہ کریں گے اور اگر پھر بھی معاملہ نہ سدھرا تو خود سوزی کرلیں گے، کیونکہ کرپٹ ڈاکٹرعاصم حسین کے ماتحت نوکری کرنے سے موت بہتر ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More