نمائندہ امت
مولانا سمیع الحق کی شہادت کے تقریباً چار ماہ بعد راولپنڈی پولیس نے ان کے سیکریٹری احمد شاہ کو باقاعدہ گرفتار کر کے ان کا ریمانڈ لے لیا ہے اور ابتدائی چالان میں اس ہائی پروفائل کیس کا ملزم بھی نامزد کر دیا گیا ہے۔ جبکہ مولانا سمیع الحق کے خاندانی ذرائع کے مطابق پولیس نے انہیں اس سلسلے میں اعتماد میں نہیں لیا اور نہ ہی وہ احمد شاہ کو اس قتل کیس کا ملزم سجھتے ہیں۔ مولانا سمیع الحق کے داماد اور جے یو آئی (س) کے رہنما مولانا یوسف شاہ نے بھی کہا ہے کہ وہ احمد شاہ کو مجرم نہیں سمجھتے۔ اسے ملزم نامزد کرنے کی خبر بھی انہیں میڈیا کے ذریعے ملی ہے۔ ذرائع کے بقول پولیس نے خاندان کے ذمہ دار افراد کی خواہش پر نامزد ملزم احمد شاہ سے چند ہفتے پہلے ان کی ملاقات کرانے کا وعدہ کیا تھا۔ چونکہ احمد شاہ گزشتہ بیس بائیس سال سے مولانا سمیع الحق کے ساتھ ڈیوٹی کر رہا تھا اور جامعہ حقانیہ میں ہی اس کی تعلیم و تربیت ہوئی، اس لئے مولانا سمیع الحق کے خاندان کے افراد خود اس سے ملاقات اور بات کر کے حقائق جاننے اور معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے خواہش مند تھے۔ لیکن راولپنڈی پولیس کے اعلیٰ حکام نے ان سے وعدے کے باوجود نامزد کئے گئے ملزم احمد شاہ سے ملاقات نہیں کرائی۔
گزشتہ دنوں یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ پولیس اس قتل کیس کے ملزمان کا سراغ نہیں لگا سکی۔ احمد شاہ جو تقریباً ساڑھے تین ماہ سے پولیس کی حراست میں ہے، کی نشاندہی پر پولیس نے ایک درجن سے زائد افراد سے پوچھ گچھ کی ہے، لیکن ملزمان تک نہیں پہنچ سکی۔ ان اطلاعات کے مطابق اس ناکامی کے بعد راولپنڈی پولیس نے یہ کیس داخل دفتر کرنے کی آئی جی پنجاب کو سفارش کی تھی۔ جس پر مولانا سمیع الحق شہید کے خاندان اور ان کے پیروکاروں نے ناراضگی اور مایوسی کا اظہار کیا تھا۔ جس کے بعد اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ ساڑھے تین ماہ سے زیر حراست اور زیر تفتیش احمد شاہ کا عدالت میں چالان پیش کر کے اس کا پولیس نے ریمانڈ حاصل کیا ہے۔ نامزد ملزم احمد شاہ طویل عرصے سے مولانا سمیع الحق کے ساتھ بطور سیکرٹری، سیکورٹی گارڈ اور ڈرائیور کے ڈیوٹی کر رہا تھا اور اس کا واحد ملازم تھا، جو مولانا سمیع الحق کے قتل کے دن ان کے ساتھ موجود تھا اور اس کے بقول جب یہ واردات ہوئی وہ انہیں گھر پر اکیلا چھوڑ کر بازار سے سودا سلف لینے گیا تھا۔ مولانا سمیع الحق کے خاندان کو احمد شاہ پر اب بھی شک نہیں ہے۔ پولیس نے بھی اسے کئی ماہ زیر تفتیش رکھنے کے بعد اب اس کا چالان عدالت میں پیش کر کے اسے ملزم نامزد کیا ہے۔ کیا یہ قتل کیس کی تفتیش سے جان چھڑانے کی کوشش ہے کہ اس ہائی پروفائل کیس کو داخل دفتر کرنے کی سبکی سے بچا جائے اور احمد شاہ کو ملزم نامزد کر کے کیس عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ پولیس ذرائع کے مطابق ملزم احمد شاہ کی نامزدگی اصل ملزمان تک پہنچنے کے لئے کی گئی ہے۔ اب امکان ہے کہ ریمانڈ کے دوران ملزم اپنی معلومات کی بنیاد پر سچ اگل دے گا اور ملزمان کی نشاندہی اور ان تک پہنچنے میں مدد ملے گی۔
’’امت‘‘ نے اس سلسلے میں مولانا سمیع الحق کے قریبی عزیز اور جے یو آئی (س) کے مرکزی سیکریٹری مولانا سید محمد یوسف شاہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ’’ہمارے خیال میں تو احمد شاہ کلیئر ہے اور قتل میں ملوث نہیں ہے۔ پولیس نے اسے ملزم نامزد کرتے ہوئے ہمیں اعتماد میں نہیں لیا۔ پہلے ہمیں احمد شاہ کے بارے میں یہ بتایا گیا تھا کہ اصل قاتلوں تک پہنچنے کے لئے اس سے پوچھ گچھ اور اس کا تعاون بہت ضروری ہے۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اس دوران جب احمد شاہ کی گرفتاری کو کئی ہفتے گزر گئے تو ہم نے اس سے ملنے اور اس سے اس کیس کے بارے میں اپنے طور پر جاننے کے لئے پولیس سے رابطہ کیا۔ ہم سے وعدہ کیا گیا کہ چند دن بعد ہماری احمد شاہ سے ملاقات کرائی جائے گی۔ لیکن یہ ملاقات نہیں کرائی گئی۔ ہم نے بھی زیادہ زور نہیں دیا کہ پولیس ہمارے اصرار کو اپنی تفتیش میں رکاوٹ نہ سمجھے۔ کیونکہ ہم اصل ملزمان تک پہنچنے کے لئے پولیس اور انتظامیہ سے مکمل تعاون کر رہے تھے اور کر رہے ہیں‘‘۔ ایک سوال پر مولانا محمد یوسف شاہ نے کہا کہ احمد شاہ کو ملزم نامزد کرنے کی خبر بھی ہمیں میڈیا کے ذریعے ملی اور پولیس کا یہ موقف بھی سامنے آیا ہے کہ اس ملزم سے تفتیش کر کے پولیس اصل افراد تک پہنچے گی اور ان کا سراغ لگایا جائے گا۔ اگر ایسا ہو تو بھی ہمیں اعتراض نہیں ہے۔ لیکن ہم احمد شاہ کو مجرم نہیں سمجھتے۔ ہمارے نزدیک وہ کلیئر ہے اور ہمارا اس کے خلاف کوئی دعویٰ نہیں ہے۔ حقائق تک پہنچنا اور قاتل تلاش کرنا پولیس کی ذمہ داری ہے‘‘۔
٭٭٭٭٭