حبیب اللہ قمر
دربار مصطفیٰؐ میں کرو جا کے تم سلام
پھر سر جھکا کے عرض کرو میں ہوں اک غلام
نکلا تھا گھر سے دور کسی کام کے لئے
بھولے سے واپسی میں کہیں راہ کھو گیا
ہندوستان جا کے گرفتار ہوگیا
مجھ کو غریب جان کے مسلا پکار کے
کمزور امتی پہ وہ ڈھائے ظلم پناہ
ہر زخم زخم تازہ بنا ہر ستم کے بعد
کافر نے مجھ کو سخت گلو بند کردیا
اور بے وجہ ہی آپ مجھے قتل کردیا
اللہ کے بعد آپ ہیں آقاؐ میرے حضورؐ
اس بے کسی کی موت کا بدلہ بھی ہو ضرور
کافر کے ہاتھ روکنا امت کا فرض ہے
بدلے کا قرض اُتارنا مسلم پہ قرض ہے
٭٭٭٭٭
بھارتی جیل میں شہید کئے گئے پاکستانی قیدی شاکراللہ کو گزشتہ روز سیالکوٹ کے نواحی علاقے جیسر والا میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ شہید کی نماز جنازہ میں ڈسکہ، سیالکوٹ اور قرب و جوار کے علاقوں سے تمام مکاتب فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اس موقع پر مقامی سیاسی، مذہبی و سماجی شخصیات بھی موجود تھیں۔ شہید شاکراللہ کی میت قومی پرچم میں لپیٹ کر ان کے آبائی علاقے میں پہنچائی گئی۔ اس دوران جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے۔ پاک بھارت کشیدگی کے ماحول کے تناظر میں شہریوں نے شہید کی میت پہنچنے پر والہانہ محبت و عقیدت کا مظاہرہ کیا اور میت لے کر آنے والی ایمبولینس پر جگہ جگہ گلاب کے پھول کی پتیاں نچھاور کی جاتی رہیں۔ میت لانے والی ایمبولینس جیسر والا سے ابھی دور تھی کہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد ایمبولینس کے ساتھ چلتی رہی اور اللہ اکبر و پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگائے جاتے رہے۔ لوگوں کی کثیر تعداد نے پاکستانی پرچم اٹھا رکھے تھے۔ شہید کی نماز جنازہ کے موقع پر شہریوں میں شدید غم و غصہ بھی دیکھنے میں آیا۔ شرکا کا کہنا تھا کہ پاکستان نے حملہ کرنے والے بھارتی پائلٹ کو زندہ سلامت واپس کیا، لیکن بھارت کی طرف سے ہمارے ایک بے گناہ شہری کی لاش حوالے کی گئی۔ شہید کی میت کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر پورے اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔ جب انہیں لحد میں اتارا گیا تو اس وقت بھی لوگوں کی کثیر تعداد موجود تھی۔ نماز جنازہ میں شریک افراد نے جیلوں میں پاکستانی قیدیوں پر بھارتی مظالم کی سخت مذمت کی۔ شاکراللہ کی میت ہفتے کے روز واہگہ بارڈر کے ذریعہ پاکستان کے حوالے کی گئی تھی۔ گزشتہ روز سیالکوٹ کے ڈی ایچ کیو اسپتال میں ان کا پوسٹ مارٹم کیا گیا اور پھر میت ایمبولینس کے ذریعہ ان کے آبائی گاؤں جیسر والا پہنچائی گئی، جہاں ہزاروں سوگواران کی موجودگی میں محبت و عقیدت کے ساتھ ان کی تدفین کی گئی۔ جیسروالا کے مقامی رہائشی خاص طور پر جذباتی نظر آئے اور ان کے علاقہ کے شخص کو بھارتی جیل میں بہت بے دردی اور ظالمانہ انداز میں شہید کئے جانے پر گہرے دکھ کا اظہار کیا گیا۔ جیسر والا کے مقامی رہائشیوں نے جنازہ میں موجود میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے اس امر کی تصدیق کی کہ 47 سالہ شاکر اللہ ذہنی مریض تھا۔ وہ تقریبا پندرہ برس قبل شکر گڑھ کے قریب میلہ دیکھنے گیا اور غلطی سے سرحد عبور کر گیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ذہنی حالت دیکھ کر انہیں پاکستانی حکام کے حوالے کر دیا جاتا لیکن انہیں راجھستان کی جیل میں ڈال دیا گیا جہاں چند دن قبل ہندو انتہا پسندوں نے انہیں پتھر مار مار کر قتل کر دیا۔ مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ ان کے خاندان کے لوگ بہت شریف ہیں اور ان کی مالی حالت بھی زیادہ مستحکم نہیں۔ شہید کی نماز جنازہ میں گوجرانوالہ کے ڈپٹی کمشنر سمیت دیگر پولیس عہدیداران اور نارووال سے بھی پولیس حکام نے شرکت کی۔ شہید کے بھائی شہزاد گلفام کا کہنا تھا کہ ان کے بھائی کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں تھی، لیکن اس کے باوجود انہیں انتہائی بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ ان کے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے۔ شہزاد کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے بھائی کی شہادت کی خبر میڈیا کے ذریعہ ملی۔ اس سے پہلے انہیں معلوم نہیں تھا کہ شاکراللہ کو شہید کیا جاچکا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے بھائی کی میت واپس کرنے کیلئے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا اور کوشش کی کہ کسی طرح پاکستانی حکام کی توجہ اس جانب ہو اور وہ بھارت سے شاکر اللہ کی میت واپس لانے کی کوشش کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکام نے ان کے ساتھ اس سلسلے میں بھرپور تعاون کیا۔ شاکراللہ کی نماز جنازہ میں شریک اصغر نامی ایک مقامی شہری کا کہنا تھا کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ کسی پاکستانی قیدی کو بھارتی جیل میں قتل کیا گیا ہو۔ اس سے پہلے بھی بہت سے ایسے واقعات ہوئے ہیں۔ جب پاکستان کی طرف سے بھارتی جاسوس کشمیر سنگھ کو انڈیا کے حوالے کیا گیا تو ہندوستان کی جانب سے بھارتی جیل میں خالد محمود نامی ایک پاکستانی قیدی کو شہید کر دیا گیا تھا۔ فیصل آباد سمندری کے محمد اکرم، گوجرانوالہ کی رشیدہ بی بی اور دیگر کئی ایسے قیدی ہیں جن کی لاشیں تابوتوں میں ڈال کر پاکستان کے حوالے کی جاتی رہی ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ جذبہ خیر سگالی سے کام لیا لیکن انڈیا نے ہمیشہ اس کا جواب قیدیوں کو شہید کر کے دیا۔ جنازہ میں شریک ایک اور شہری عرفان علی کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ یہ معاملہ انڈیا کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی اٹھائے تاکہ ہندوستانی جیلوں میں پاکستانی قیدیوں پر مظالم سے روکا جاسکے۔ جنازہ میں شریک ایک مقامی صحافی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ شاکراللہ کی نماز جنازہ ڈسکہ کے علاقے جیسر والا میں ادا کی گئی، جنازہ شہر کی تاریخ کا ایک بڑا اجتماع تھا جس میں دور دراز سے موٹر سائیکلوں، گاڑیوں، ٹرالیوں اور بسوں پر سوار ہو کر آنے والے افراد نے شرکت کی اور بھارتی ظلم و دہشت گردی کیخلاف غم و غصہ کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جنازہ کے موقع پر دور دور تک لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر نظر آرہا تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے بھارتی مظالم کیخلاف اور پاکستان کے حق میں نعرے لگا کر شہید کے اہل خانہ سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ شہید کا پوسٹ مارٹم ایم ایس علامہ اقبال ٹیچنگ اسپتال میں ڈاکٹروں کی 6 رکنی ٹیم نے کیا۔ ابتدائی طور پر جو رپورٹ جاری کی گئی ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ شاکراللہ کی موت سر پر گہری چوٹ لگنے سے ہوئی۔ واضح رہے کہ شہید کا پوسٹ مارٹم 21 فروری کو بھارت میں بھی کیا گیا۔ اب یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ شہید کے دل اور دماغ کا کچھ حصہ موجود نہیں تھا۔ سیالکوٹ میں کئے گئے پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ میں شہید کے دل اور دماغ کا کچھ حصہ غائب ہونے کی تصدیق ڈاکٹرز نے کی اور کہا کہ شاکراللہ کو بہیمانہ انداز میں تشدد کر کے شہید کیا گیا ہے۔ نماز جنازہ کے موقع پر شاکراللہ کے بھائی شہزاد، بھانجے نعمان اور دیگر اہل خانہ کے حوصلے بلند تھے اور ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بھائی کی شہادت پر اگرچہ بہت دکھی ہیں لیکن پاکستانی شہریوں نے جس طرح ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور جنازہ سے پہلے اور بعد میں بھی وہ ان کے ساتھ مل کر تعزیت کرتے رہے، اس سے ان کو بہت حوصلہ ملا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ پوری پاکستانی قوم ان کے دکھ کو نہ صرف محسوس کرتی ہے، بلکہ اس مشکل وقت میں پوری طرح ان کیساتھ کھڑی ہے۔ شہید کی نماز جنازہ ڈسکہ کی ایک مقامی مسجد کے خطیب نے پڑھائی۔ شہید کا پوسٹ مارٹم کرنے والی میڈیکل ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر فاروق نے بتایا کہ شہید کا پہلے بھی پوسٹ مارٹم ہو چکا ہے اور شہید کے جسم کے مختلف حصوں کے نمونے لاہور کی فرانزک لیب میں بھی بھیجے گئے ہیں۔ علاقہ مکینوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ شہید کے خاندان کی کفالت کا سرکاری طور پر بندوبست کرے۔ شاکر اللہ کی دو بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں۔
پلوامہ حملے کے بعد جے پور جیل میں پاکستانی قیدی شاکر اللہ پر بیہمانہ تشدد کے باوجود بھارت دنیا بھر میں اپنی معصومیت کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے۔ ایسے میں شہید شاکر اللہ کی فیملی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ یہ معاملہ عالمی عدالت انصاف میں لے جایا جائے۔ جیسر والا میں شہید کی تدفین کے بعد میڈیا سے بات چیت میں شاکر اللہ کے اہل خانہ نے کہا کہ پاکستان دنیا کے سامنے بھارت کا گھناؤنا چہرہ دکھائے۔ شاکر اللہ کا تحفظ بھارتی حکومت کی ذمہ داری تھی، لیکن بھارتی جیل میں انہیں پتھر مار مار کر قتل کروایا گیا، جو انسانیت سوز واقعہ ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے بھی بھارتی قید میں شاکر اللہ کی شہادت پر سوال اٹھائے ہیں اور کہا ہے کہ بھارت نے ابھی تک ماورائے عدالت قتل پر تحقیقات کی پاکستانی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں براہ راست ملوث ہے۔
٭٭٭٭٭