نجم الحسن عارف
مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں بھارتی فوج کے کانوائے پر ہونے والے فدائی حملے سے متعلق بھارتی ڈوزیئر کا پاکستان کی وزارت خارجہ اور دوسرے متعلقہ اداروں میں جائزہ جاری ہے۔ پاکستان کے متعلقہ شعبوں کے ماہرین سے بھی اس سلسلے میں مدد لی جا رہی ہے۔ تاہم اب تک کی معلومات کے مطابق بھارت کی طرف سے اس ڈوزیئر کے ذریعے محض سیاسی اور بین الاقوامی سطح پر پراپیگنڈے کا ماحول بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ڈوزئیر کا وزن بڑھانے اور پیش کردہ شواہد کی تعداد بڑھا چڑھا کر ظاہر کرنے کی خاطر ماضی کے اسی نوع کے بھارتی ڈوزئیرز سے بھی مدد لی گئی ہے اور ’’کاپی پیسٹ‘‘ کے سے انداز میں عملاً ماضی کے ڈوزئیرز کی نقل ہی تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ ارسال کر دی گئی ہے۔ ’’امت‘‘ کو بعض ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بھارتی ڈوزئیر ساز سیانوں نے اس میں تقریباً وہ سارے نام شامل کر دیئے ہیں، جو کشمیر کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ اس ڈوزئیر سے لگتا ہے کہ بھارت ایسے ہر ایک فرد کے خلاف کارروائی چاہتا ہے جو کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف آواز اٹھاتا ہے یا کشمیریوں کی اخلاقی و سیاسی حمایت کو اہم سمجھتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جو کچھ بھی ہے، اس ڈوزیئر کی عدالتی اہمیت بالکل نہیں ہے۔ ایسے شواہد نہیں ہیں، جن کی بنیاد پر پاکستان کوئی ایکشن لے۔ اس لیے بین الاقوامی سطح پر بھی اگر بھارت اس ڈوزئیر کو لے کر گیا تو اسے کم از کم اس ڈوزئیر کی بنیاد پر کوئی کامیابی نہیں ہو سکے گی۔ بھارت کا یہ موقف کہ پلوامہ حملے کی تیاری پاکستان میں ہوئی یا اس میں پاکستانی شہری ملوث تھے، پیش کیے گئے کمزور شواہد سے ایسا ثابت نہیں ہوتا۔ لیکن پھر بھی اگر اس ڈوزئیر سے کچھ نکلا اور اگر کوئی ثبوت ملا تو اس کی روشنی میں پاکستان ایکشن لے گا۔ دوسری صورت میں بھی مناسب وقت میں بھارت کو اپنے جواب سے آگاہ کر دیا جائے گا۔
’’امت‘‘ نے اس سلسلے میں دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس حوالے سے صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ ’’بھارت کے بھیجے ہوئے ڈوزئیر کا تمام متعلقہ لوگ جائزہ لے رہے ہیں۔ یہ کب تک کام مکمل ہو گا ابھی کہنا مشکل ہے۔ تاہم اس میں بلاوجہ تاخیر نہیں ہو گی۔ چونکہ یہ معاملہ حساس اور اہم نوعیت کا ہے، اس لیے اس بارے میں فی الحال اس سے زیادہ کچھ کہنا نہیں چاہتا‘‘۔ ذرائع کے مطابق پاکستان بھارتی ڈوزئیر میں موجود سارے مواد کا ہر ممکنہ پہلو سے جائزہ لینے کے بعد ہی اپنے موقف یا جواب سے بھارت کو آگاہ کرے گا اور اس کے بعد ہی اپنے موقف کا جہاں جہاں ضروری ہو گا، اظہار بھی کرے گا۔ تمام پہلوئوں سے ڈوزئیر میں شامل ایک ایک چیز کو دیکھا جا رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق ڈوزیئر میں ان انٹیلی جنس رپورٹس کا کافی عمل ہے، جو بھارتی حساس اداروں نے اپنی نا اہلی چھپانے کی غرض سے پلوامہ حملے کے بعد بوکھلاہٹ میں مودی حکومت کو پیش کی تھیں۔ تاکہ سارے کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈالا جا سکے۔ ایک ذریعے نے دعویٰ کیا ہے کہ اس بار بھی بھارت نے روایتی ڈوزئیر کا پیٹ بھرنے کے لئے وہ حربے استعمال کیے ہیں، جو ماضی میں بھی کر چکا ہے۔ لیکن اس میں متعین بات شاید ہی ہو۔ وہی بھوتی کا مال یعنی چند آڈیو ٹیپس، چند وڈیو ٹیپس، مسعود اظہر، ان کے قریب رہنے والے یا جیش محمد کے حوالے سے کچھ نام ڈال دیئے گئے ہیں۔ اسی طرح بعض ان شخصیات کے نام بھی شامل ہیں، جنہیں روایتی طور پر بھارت نے سالہا سال سے کشمیر کے حوالے سے نشانے پر رکھا ہوا ہے اور ان کے خلاف جگہ جگہ پراپیگنڈا کر کے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش میں رہتا ہے۔ نیز ڈوزیئر میں بعض تربیتی کیمپوں کے بارے میں کہا گیا ہے۔ لیکن اگر یہ بھارتی دعویٰ درست ہوتا تو بھارت نے اپی فضائیہ کی ایک بہت بڑی فارمیشن کو خطرے میں جھونک کر بالا کوٹ کے نزدیک جو حملہ کیا تھا، اس کے نتائج بھی نظر آتے۔ لیکن یہ بھارتی دعویٰ خاک میں مل چکا ہے۔ اس لیے بھارت کی اتنی بڑی فضائی پلٹون بھی جس ہدف کو زمین پر نہ دیکھ سکی یا نشانہ نہیں بنا سکی، اس کے بارے میں بھارتی دعویٰ کیونکر تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ اسی بنیاد پر مودی حکومت کے اسٹرٹیجک پارٹنر امریکہ نے بھی بھارت کے ان دعوووں کو درست نہیں مانا۔ جبکہ خود بھارتی دانشوروں اور بھارتی سلامتی سے متعلق سابق ذمہ داروں نے بھی مودی سرکار کے ان دعووں کو قبول نہیں کیا۔ بلکہ یہاں تک کہہ دیا ہے کہ یہ سارا ڈرامہ نریندر نے خود ڈیزائن کیا تھا، تاکہ بھارتی الیکشن میں انہیں اور ان کی انتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو پاکستان مخالف پراپیگنڈے کا فائدہ ہو سکے۔ ڈوزیئر کا پلوامہ حملے کے تقریباً دو ہفتے بعد بھیجنا بھی مودی سرکاری کی اسی انتخابی و سیاسی ضرورت کے تحت ہے۔ اس لیے اس ڈوزئیر میں کچھ جان ہے اور نہ ہی اس میں سے کچھ نکل سکے گا۔
٭٭٭٭٭