امریکہ میں طوفانی بگولے گاڑیاں اور انسان لے اڑے

0

سدھارتھ شری واستو
امریکی  ریاست الباما میں دو سو اسی کلومیٹر فی گھنٹہ کی اسپیڈ والے طوفانی بگولے موت کا پیغام بن گئے۔ پلک جھپکتے میں آنے والے بگولے گھروں اور تنصیبات کی تباہی کے دوران زد میں آنے والے درجنوں افراد اور کاریں اُڑا لے گئے۔ جن کا کوئی اتا پتا نہیں چل سکا ہے۔ وائس آف امریکا کے مطابق امدادی اداروں نے 30 افراد کی اموات کی تصدیق کر دی ہے۔ ایمرجنسی اور ڈیزاسٹر ورکرز کے مطابق طوفانی بگولوں کی زد میں آجانے والے درجنوں شہری اور کم سن بچے لا پتا ہیں۔ جبکہ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی نگاہوں سے طوفانی بگولوں کی زد میں آنے والی متعدد گاڑیوں کو فضا میں بلند ہوکر غائب ہوتے دیکھا۔ امریکی جریدے یو ایس اے ٹوڈے کے مطابق بگولوں کی رفتار اور تباہ کاری کو دیکھنے والے کئی افراد شدت خوف سے بے ہوش ہوکر اسپتال میں لائے گئے، جہاں ان کو نفسیاتی اور دماغی صدمے کی ٹریٹمنٹ دی گئی۔ معروف برطانوی جریدے ڈیلی میل آن لائن کی نمائندہ خصوصی برائے الباما نے بتایا ہے کہ پونے تین سو کلومیٹر فی گھنٹے کے خوفناک اسپیڈ سے چکر کھانے والے طوفانی بگولے نے آن کی آن میں تباہی مچائی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ الباما میں سڑکوں پر نصب متعدد بل بورڈز بگولوں کی زد میں آکر تیس کلومیٹر دور جارجیا کی سرحد پر جاگرے ہیں۔ مقامی امدادی حکام نے بتایا ہے کہ زیادہ تر ہلاکتیں موبائل ہومز کے رہائشیوں کی ہوئیں۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق بگولوں کا نشانہ بننے والے موبائل ہومز کی تعداد 25 سے زیادہ تھی۔ جن کے مکین بگولوں کے اٹھنے کا ’’خوشنما‘‘ منظر دیکھنا چاہتے تھے۔ لیکن اچانک سے پھیلنے والے بگولوں نے انہیں بھاگنے کا موقع نہ دیا اور اپنی لپیٹ میں لے کر آسمان کی جانب اُٹھایا اور پھر زمین پر طاقت سے دے مارا۔ امریکی صحافی جوش ویٹالی کی مرتبہ و مصدقہ اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ حکام نے اپنی رفتار اور تباہی کی شدت کے حوالہ سے اس بگولے کو ایف تھری ٹورنیڈو کا نام دیا ہے۔ جس کی شدت ختم ہونے کے بعد امدادی اور بالخصوص تلاش کارروائیاں شروع کردی گئی ہیں۔ امریکی جریدے شکاگو ٹریبون کے مطابق بگولے کی تباہی سے مالی و جانی نقصانات سمیت سرکاری تنصیبات کاجائزہ لینے اور ہلاک شدگان کی تلاش کیلئے جدید ترین ڈرونز کا استعمال کیا جارہا    ہے۔ جبکہ بگولے کی زد میں آکر لاپتا ہوجانے والے افراد کی تلاش کیلئے سونگھنے والے ڈاگ اسکواڈ کی درجنوں ٹیمیں اور ہینڈلرز تعینات کر دیئے گئے ہیں۔ حکام کا ماننا ہے کہ الباما میں طوفانی بگولوں کی زد میں آکر ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد30 ہوچکی ہے۔ لیکن اس کی حتمی تعداد 100 بھی ہوسکتی ہے۔ حکام نے 123 شدید زخمیوں کو اسپتالوں میں بھرتی کروایا ہے، جن میں سے متعدد کے ہاتھ پائوں ٹوٹ گئے ہیں۔ امریکا کی پہچان بننے والے طوفانی بگولوں کی آفت زدگی نئی نہیں۔ 2013ء میں بھی ایسے ہی بگولوں کی وجہ سے امریکا میں تباہی پھیلی تھی۔ لیکن حالیہ بگولوں کی شدت اور تباہی الباما ریاست کے بعد فلوریڈا، سائوتھ کیرولینا اورریاست جارجیا میں بھی محسوس کی گئی ہے، جہاں دکانیں، مکانات، موبائل ہومز، درخت اور کشتیاں انتہائی ٹکڑے ٹکڑے ہوکر بکھر چکی ہیں۔ امریکا کے سرکاری محکمہ موسمیات/ نیشنل ویدر سروس نے تصدیق کی ہے کہ بگولوں کا سبب بننے والا طاقتور اور خوفناک نظام انتہائی تیزی سے رونما ہوا۔ اس کی چوڑائی ایک کلومیٹر اور رفتار پونے تین سو کلومیٹر فی گھنٹے سے بھی زیادہ تھی۔ امدادی ورکرز نے بتایا کہ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ بگولا کہاں جارہا ہے اور کہاں نہیں؟ ایک عینی شاہد جو فرٹز نے بتایا کہ وہ اس بگولے کی تصاویر اور لائیو ویڈیو بنا رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ طوفانی بگولے کی زد میںآنے والی گاڑیوں، مواصلاتی جال، بجلی کے ٹاورز سمیت بڑی عمارتوں اور درختوں اور عام گھروں سمیت جو چیز بگولوں کی زد میں آرہی تھی اپنا وجود کھو رہی تھی۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ کائونٹی شیرف جے جونز نے بتایا ہے کہ نواحی علاقوں میں امدادی کارکنان بھیجے گئے ہیں اور ڈرونز کی مدد سے جائزہ لیاجارہا ہے۔ اب تک کوئی لاش نہیں ملی، تاہم نواحی علاقوں سے درجنوں افراد کی عدم موجودگی کی اطلاعات ہیں۔ نیشنل ویدر سروس کے چیف میٹرو لوجسٹ کرس داردین کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایک ہفتے قبل ہی ممکنہ ٹارنیڈو یا بگولے کی بابت حکام، میڈیا اور عوام کو مطلع کردیا تھا اور بگولے کے اُٹھنے کے صرف نو منٹس پہلے بھی الرٹ سروس سے عوام کو مطلع کردیا گیا تھا کہ ہوشیار رہیں اور اپنے گھروں سے نکل جائیں۔ امریکی نیوز چینل فاکس نیوز نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ الباما میں طوفانی بگولے کی زد میں آکر لا پتا ہوجانے والے ایک مقامی شخص ڈیوڈ ڈین کی لاش گھر کے ملبے سے کچھ فاصلہ پر مل گئی ہے۔ اس لاش کو اس کے بیٹے نے دریافت کیا۔ لاش کا ابتدائی جائزہ بتاتا ہے کہ اس کی موت ہڈیاں ٹوٹنے سے واقع ہوئی ہے۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ موت کا حتمی سبب جاننے کیلئے اس کا پوسٹ مارٹم کیا جائے گا۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More