محمد زبیر خان
لائن آف کنٹرول کے مختلف علاقوں سے اب تک چھ سو سے زائد خاندان نقل مکانی کر چکے ہیں۔ جبکہ انخلا کا عمل اب بھی جاری ہے۔ پاک فوج کی جانب سے بھارتی فوج کے ٹھکانوں اور چوکیوں کو تاک تاک کر نشانہ بنائے جانے کے بعد فائرنگ کے سلسلے میں کمی آئی ہے۔
لائن آف کنٹرول پر گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران اکا دکا جھڑپوں کے علاوہ کوئی بڑا واقعہ پیش آنے کی اطلاعات موصول نہیں ہوئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس کی وجہ پاک فوج کی جانب سے زبردست جواب تھا۔ پاک فوج کے جوانوں نے تاک تاک کر بھارتی فوج کے ٹھکانوں اور چوکیوںکو نشانہ بنایا، جس کی وجہ سے بھارت کی جانب سے فائرنگ کے واقعات میں کچھ کمی آئی ہے۔ تاہم بھارتی فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں سر میں گولی لگنے سے ایک شہری زخمی ہوگیا ہے، جسے اسپتال منتقل کردیا گیا۔ زخمی شہری کی شناخت شرافت کے نام سے ہوئی ہے، جو درہ شیر خان کا رہائشی ہے۔ کشمیر سے موصولہ اطلاعات کے مطابق کنٹرول لائن کے مختلف علاقوں سے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کم از کم مزید سو خاندان محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہوئے ہیں۔ اس طرح اب تک مجموعی طور پر چھ سو سے زائد خاندان اپنے گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی کر چکے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ اعداد و شمار سرکاری ذرائع سے حاصل کردہ ہیں۔ جبکہ مقامی ذرائع کے مطابق اس تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ کئی لوگ پناہ کے لئے سرکاری وسائل پر انحصار نہیں کر رہے۔ بلکہ وہ اپنے رشتہ داروں اور قریبی اعزا کے گھروں میں قیام کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ کشمیر کے سرکاری ذرائع کے بقول کنٹرول لائن سے نقل مکانی کرکے آنے والے خاندانوں کو مختلف سرکاری عمارات جن میں اسکولز، کالجز وغیرہ شامل ہیں، میں ٹھہرایا جارہا ہے۔ حکومت کی جانب سے ان کو زندگی کی تمام بنیادی سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں۔
لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کے حوالے سے ممتاز تجزیہ نگار ایئر مارشل (ر) شاہد لطیف نے ’’امت‘‘ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ کنٹرول لائن دنیا کا ایک مشکل ترین محاذ ہے۔ یہاں پاکستان کی فوج کے لئے اصل مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب بھارتی فوج جان بوجھ کر توپ خانے اور دور تک فائر کرنے والی بندوقوں سے آبادیوں کو نشانہ بناتی ہیں۔ ایسا بھارتی فوج جان بوجھ کر کرتی ہے۔ اس سے نہ صرف یہ کہ جانی نقصان ہوتا ہے، بلکہ عمارتوں وغیرہ کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ یہ پاکستانی فوج کے لئے مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ کیونکہ پاک فوج نہتے عوام کو کسی بھی صورت میں نشانہ نہیں بناتی اور نہ ہی آبادیوں کو ٹارگٹ کرتی ہے۔ اس کا نشانہ صرف بھارتی چوکیاں اور ٹھکانے ہی ہوتے ہیں اور پاک فوج تاک تاک کر ان کو نشانہ بناتی ہے، جس میں ان کو بھاری جانی اور مالی نقصان پہنچتا ہے۔ مگر وہ اپنے نقصاں کو چھپاتے ہیں۔ اس کی حالیہ مثال اس وقت سامنے آئی تھی، جب پاک فوج نے بھارتی چوکی کو تباہ کیا اور اس کے نتیجے میں نو لاشیں راجوری کے ڈسٹرکٹ اسپتال میں پہنچائیں گئیں۔ اس اسپتال کے ایم ایس نے سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے بتایا تھا۔ بعد میں اس ایم ایس کا سوشل میڈیا اکائونٹ ہی معطل کر دیا گیا، جبکہ ڈاکٹر نے بھارتی فوج کی بدتمیزی کی شکایت بھی کی تھی۔ ایک سوال پر سابق ایئر مارشل شاہد لطیف کا کہنا تھا کہ درحقیقت کنٹرول لائن پر آبادیاں بھارتی فوج کا آسان ہدف بنتی ہیں اور بھارتی فوج اکثر اوقات اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لئے آبادیوں کو ٹارگٹ کرنا شروع کر دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران لائن آف کنٹرول پر کشیدگی اور فائرنگ کے واقعات میںکچھ کمی آئی ہے۔ لیکن ایسا اسی صورت میں ہوتا ہے جب بھارتی فوج فائرنگ نہ کرے۔ ورنہ پاک فوج اس محاذ پر کبھی بھی پہل نہیںکرتی۔ لیکن اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شاید فائرنگ میں یہ کمی عارضی ہو۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ نظر یہ آتا ہے کہ مودی بھارت میں ہونے والے انتخابات تک پاکستان کے ساتھ اس تناؤ کی کیفیت رکھ کر اس کارڈ کو استعمال کرے گا۔ لیکن ان کو پہے در پے ناکامیاں ہی مل رہی ہیں، جس کی وجہ سے وہ فرسڑیشن کا شکار ہیں اور اس فرسٹریشن میں وہ کوئی بھی قدم اٹھا سکتے ہیں۔ اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کشیدگی ختم ہوگئی ہے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post